جاپان کو ٹرمپ کا مشورہ؟

ظہیر اختر بیدری  پير 20 نومبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

اسے دنیا میں رہنے والے 7 ارب انسانوں کی بدقسمتی کہیں یا بے حسی کہ وہ سیاستدانوں کے دنیا کو تباہ کرنے کے منصوبوں اور کوششوں سے لاتعلق بنے بیٹھے ہیں۔ ہمارا کرۂ ارض پہلے ہی ماحولیاتی سنگین مسائل سے دوچار ہے، زمین کے مسلسل بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ اسی صدی میں کئی ساحلی شہر سمندر برد ہو جائیں گے۔ اس بھیانک صورتحال کا مقابلہ کرنے کے بجائے ہمارے سیاستدان کرۂ ارض کی تباہی کے سامان اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں۔

دنیا کو سب سے بڑا خطرہ ایٹمی ہتھیاروں سے ہے۔ کیا ہمارا آج کا حکمران طبقہ خاص طور پر بڑی طاقتوں کا حکمران طبقہ اس حقیقت سے واقف نہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکا نے جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر لاکھوں جاپانیوں کو جس طرح جلا کر راکھ کیا تھا، اس سانحے پر دنیا آج تک ماتم کر رہی ہے۔ جاپان کے دو شہروں پر گرائے جانے والے ایٹم بم آج کے ایٹم بموں کے مقابلے میں سیکڑوں گنا کم طاقتور تھے۔

آج اشرف المخلوقات نے 1945ء میں استعمال ہونے والے ایٹم بموں سے سیکڑوں گنا زیادہ طاقتور ایٹم بم بنا لیے ہیں اور روس اور امریکا کے پاس ایٹمی ہتھیار ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے یہ بھاری ذخیرے کس لیے جمع کیے گئے ہیں؟

دوسری عالمی جنگ جرمنی اور اس کے اتحادیوں اور مغربی طاقتوں کے درمیان امریکا کی سرپرستی میں لڑی گئی تھی، دوسری عالمی جنگ کے دوران صرف امریکا واحد ایٹمی طاقت تھا، اور امریکی صدر ٹرومن نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کیا۔ آج دنیا کے کئی ملکوں کے پاس انتہائی طاقتور ایٹمی ہتھیار ہیں، جن میں شمالی کوریا بھی شامل ہے۔ شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان کشیدگی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا اور اس کے باجگزار اتحادی جنوبی کوریا کہہ رہے ہیں کہ ہم شمالی کوریا کے خلاف ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کا آپشن استعمال کرسکتے ہیں۔

اس المناک صورتحال کی وجہ یہ ہے کہ شمالی کوریا نے امریکی جارحیت اور ایٹمی بلیک میلنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے اس قدر طاقتور ایٹمی میزائل تیار کرلیے ہیں جو امریکا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کی اس ایٹمی طاقت نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی نیندیں اڑا دی ہیں، کیونکہ اب وہ شمالی کوریا کو بلیک میل نہیں کرسکتے۔ امریکا روایتی ہتھیاروں میں عرصہ دراز تک برتری کی وجہ دنیا کو بلیک میل کرتا رہا، ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ذخیرہ اندوزی کے بعد امریکا دنیا سے ایٹمی بلیک میلنگ کرتا رہا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی میں ہونے والے بدترین جانی نقصان کے بعد دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری پر مکمل پابندی لگا دی جاتی، لیکن دنیا پر بالادستی حاصل کرنے کے احمقانہ جنون نے امریکی حکمران طبقے کو ایٹمی ہتھیار کی ذخیرہ اندوزی پر مجبور کردیا۔ امریکا کی اس ایٹمی برتری کو ختم کرنے کے لیے روس اور چین نے بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار بنالیے اور بڑی طاقتوں کی خودغرضانہ اور مفاد پرستانہ پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اور ملکوں کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان جیسے پسماندہ ترین ملکوں نے بھی ایٹمی ہتھیار بناکر اس خطے کو بھی ایٹمی خطرے سے دوچار کردیا۔

اگر امریکا اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے حکمرانوں کو دنیا کے محفوظ مستقبل کا خیال ہوتا تو وہ کبھی ایٹمی ہتھیار نہ بناتے۔ اور دنیا کے تنازعات خاص طور پر علاقائی تنازعات کو پرامن بات چیت سے حل کرانے کے لیے ایک موثر میکنزم بناتے اگر ایسا کیا جاتا تو کسی ملک کو ایٹمی ہتھیار بنانے کی ضرورت نہ ہوتی لیکن سامراجی ملکوں کی سامراجی ذہنیت نے ان حکمرانوں کو ’’قومی مفادات‘‘ کی سیاست کی طرف دھکیل دیا قومی مفادات کی سیاست دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی بقا کی سیاست ہے۔

جب تک دنیا دو کیمپوں سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ کیمپوں میں بٹی ہوئی تھی ہتھیاروں کی دوڑ کا ایک جواز موجود تھا لیکن سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد ہتھیاروں کی دوڑ کا کوئی منطقی جواز موجود نہ رہا لیکن سامراجی ذہنیت کا کرشمہ یہ ہے کہ آج سرمایہ دارانہ نظام سرمایہ دارانہ نظام کے سامنے کھڑا ہے۔ اگرچہ اب دنیا میں نظریاتی تقسیم نہیں رہی لیکن سرمایہ دارانہ نظام معیشت میں ریڑھ کی ہڈی بنے رہنے والی ہتھیاروں کی صنعت کے مالکان کے مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کا کاروبار جاری رہے۔

امریکا کے جنگجو صدر ٹرمپ جاپان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ امریکی ہتھیار خرید کر شمالی کوریا کے میزائلوں کامقابلہ کرے۔ جاپان بھی شمالی کوریا سے خائف ملک ہے امریکی صدر ٹرمپ جاپان کو شمالی کوریا کے ایٹمی میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا سے میزائل شکن نظام خریدنے کا مشورہ دے رہے ہیں جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ کیا امریکا میں ایسا کوئی دانشور، ایسا کوئی مفکر موجود نہیں جو عوام کو ٹرمپ کی اس جنگجویانہ خاص طور پر ایٹمی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی تباہ کاریوں سے آگاہ کرکے اس سیاست کے خلاف متحرک کر سکے؟

دوسری عالمی جنگ کے بعد بڑی طاقتوں نے جن ملکوں کے ٹکڑے کرکے آپس میں بانٹ لیا، ان میں جرمنی اور کوریا شامل ہیں، جرمنی کے عوام نے اس سامراجی تقسیم کو توڑ کر جرمنی کو دوبارہ متحد کردیا لیکن کوریا اب تک اس سامراجی تقسیم کے بندھن سے اپنے آپ کو آزاد نہ کراسکا۔ اگر امریکا کوریائی عوام اور دنیا کے مستقبل سے مخلص ہوتا تو جنوبی کوریا کو نہ اپنا فوجی اڈہ بناتا نہ جاپان کو یہ مشورہ دیتا کہ وہ اربوں ڈالر مالیت کے میزائل امریکا سے خرید کر شمالی کوریا کا مقابلہ کرے۔

شمالی کوریا ابھی تک سوشلسٹ نظریات پر کاربند ملک ہے، امریکا اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کو یہ خوف لاحق ہے کہ کہیں سرمایہ دارانہ نظام کے ستائے ہوئے لوگ شمالی کوریا کے نقش قدم پر نہ چل پڑیں۔ شمالی کوریا کو تباہ کرنے کی ناپاک سازش کے پیچھے یہی خوف سایہ فگن ہے اور یہی خوف امریکا کو ایٹمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔