سوچ بدلنا وقت کی ضرورت ہے

مقتدا منصور  پير 20 نومبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بداعتمادی گھر میں پیدا ہو توخاندان برباد ہوجاتا ہے۔ ریاست کے مختلف ستونوں میں پیدا ہوجائے تو ریاست تباہی کے دہانے تک جا پہنچتی ہے۔ اسی طرح اناپرستی، خودسری اور ہٹ دھرمی گھرمیں ہو کہ ریاست میں، ہر جگہ زوال کوجنم دیتی ہے۔

اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جنگ و جدل ملکوں اور قبائل کے درمیان تنازعات کا کبھی حل ثابت نہیں ہوا، بلکہ ہر جنگ میں ہونے والے خون خرابے کے بعد مضمحل فریقین کو بالآخر مذاکرات کی میز پر ہی بیٹھنا پڑا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دلیل کی بنیاد پر مکالمہ یعنی ڈائیلاگ ہی ہر قسم کی بداعتمادیوں اور تنازعات کے خاتمہ کا واحد ذریعہ ہے۔

ایک اور پہلو جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ نظریات جامد نہیں ہوتے، بلکہ زمان ومکاں کے لحاظ سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ فکری جمود فرد واحد ہی کو نہیں بلکہ قوموں کو بھی زندہ درگور کردیتا ہے۔ وہ نکتہ نظر، سوچ اور بیانیہ جو مسائل و مصائب میں مسلسل اضافے کا باعث بن جائے، اس پر اصرار حماقت کے سوا کچھ نہیں۔

اسی طرح تہذیبی نرگسیت، بے جا تفاخر اور دوسروں کے پھٹے میں خوامخواہ ٹانگ اڑانا دراصل ایک ایسی ذہنی بیماری ہے، جو احساس برتری کے تصور سے جنم لیتی ہے، مگر ہوتی احساس کمتری ہے۔ یہ سوائے رسوائی کے کچھ نہیں دیتی۔ دانشمند افراد اور اقوام وہ ہوتی ہیں، جو غلط روایات اور بے جا طرز عمل پر اصرار کرنے کے بجائے، جرأت مندی کے ساتھ اسے تبدیل کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔

ملک میں جاری جمودی ذہنیت کے بارے میں متوشش شہریوں کا خیال ہے کہ سیاستدان موقع پرست، تنگ نظر اور سیاسی عزم و بصیرت سے عاری ہیں۔ انھیں عوام کی رہنمائی سے پہلے خود رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ریاستی ادارے ادارہ جاتی مفادات کے چنگل میں پھنسے شتر بے مہار بن چکے ہیں۔ اس لیے ان سے اصلاح احوال کی توقع عبث ہے۔ جب کہ اہل دانش کوتاہ بین، کنفیوزڈ اور بے راہ رو ہیں۔ جو خود فکری ابہام میں مبتلا ہوں، وہ عوام کی کیا فکری تربیت کریں گے؟ اور کیا انھیں منزل سجھائیں گے؟ ایسے میں عوام بے سمت مسافر کی مانند اپنی منزل کا تعین خود کرنے پر مجبور ہیں۔

دنیا میں قومی آزادیوں کی خاطر عوام کو مجتمع کرنے کے لیے مذہب، عقیدے اور نظریات یا پھر قومی، لسانی اور نسلی تفاخر کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔ مگر اہداف کے حصول کے بعد قومیں اسی لکیر کو نہیں پیٹتیں، بلکہ اپنی منزلوں اور محفو ظ مستقبل کا تعین زماں ومکاں کے لحاظ سے کرتی ہیں۔ ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کی عملی تفسیر نہیں بن جاتیں۔ مگر ہمیں ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ اور ’’ہم اسلام کی حفاظت کے لیے وجود میں آئے ہیں‘‘ کا لالی پاپ دے کر مسلسل بہلایا جارہا ہے۔ کسی میں اتنی ہمت و جرأت نہیں کہ کہہ سکے کہ اس بیانیہ نے ہمیں ستر برسوں کے دوران سوائے نقصان پہنچانے کے کچھ نہیں دیا۔

اس کوتاہ بینی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف بنگالی عوام ناراض ہوکر الگ ہونے پر مجبور ہوئے۔ بلوچ اور سندھی اپنے حق کے لیے مسلسل سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ بلوچستان میں امن قائم کرنے کے دعوے ہر روز اس وقت ہوا میں تحلیل ہوجاتے ہیں، جب کوئی نہ کوئی خونی سانحہ رونما ہوجاتا ہے، جو کہ اب روز کا معمول بن چکے ہیں۔

پنجاب جو حکمران صوبہ کہلاتا ہے، وہاں بھی عوام حکمرانوں اور ریاستی اداروںکے رویوں سے شاکی ہوتے جارہے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم اقلیتی صوبوں سے ہجرت کرکے آنے والی تنخواہ دار اور پیشہ ور مڈل کلاس، جو کبھی اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیس ہوا کرتی تھی، حکمران اشرافیہ کے غیر منصفانہ اقدامات کی وجہ سے ذہنی اذیتوں میں مبتلا ہوچکی ہے۔

قیام پاکستان کو ستر برس ہوچکے۔ اس عرصہ میں دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ سرد جنگ کو ختم ہوئے ربع صدی بیت گئی۔ 9/11 کو گزرے بھی 16 برس ہوگئے۔ اس دوران دنیا دو قطبیت کے سحر سے نکل کر کثیرالقطبی ہوچکی ہے۔ منہدم سوویت یونین کے ملبے سے روسی ریاست ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے لگی۔ معاشی سرگرمیوں کا محور یورپ سے ایشیا کی طرف منتقل ہوگیا۔ ایشیائی ممالک اقتصادی ترقی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششوں میں لگ گئے۔ 25 برسوں کے دوران وہ چھوٹے بڑے ممالک جو ہم سے بہت بعد میں آزاد ہوئے، آج اقتصادی ترقی میں کہیں آگے نکل چکے ہیں۔

بنگلہ دیش جو کبھی ہمارا دست و بازو ہوا کرتا تھا، جس کے بارے میں ہمیں نجانے یہ گمان کیوں ہوگیا تھا کہ ہم اسے پالتے ہیں۔ آج اس کی معیشت ہم سے کہیں بہتر اور مستحکم ہے۔ وہ ملائیشیا جو ہم سے دس برس بعد آزاد ہوا، جس کی معیشت کبھی قدرتی ربر اور پام آئل پر منحصر ہوا کرتی تھی، آج صنعتی معیشت کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے نکل چکا ہے۔ ویتنام جس نے امریکی استعمار کے خلاف طویل جنگ لڑی، آج امریکا کی مارکیٹیں اس کے گارمنٹس سے بھری ہوئی ہیں۔

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش ہو کہ تائیوان یا ویتنام، کوئی بھی کپاس اگانے والا ملک نہیں ہے۔ جب کہ ہم مصر کے بعد دنیا کی سب سے عمدہ کپاس اگاتے ہیں۔ اب اسے منصوبہ سازی میں نااہلی کہیں یا کوئی اور نام دیں کہ دنیا میں ہماری ٹیکسٹائل مصنوعات کہیں نظر نہیں آتیں۔

جناح کیا تھے؟ کیا چاہتے تھے؟ اس پر بہت لکھا گیا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، لیکن یہ طے ہے کہ فرد اپنے کردار اور ماضی کے رویوں کے تسلسل سے باہر نہیں نکل پاتا۔ جناح صاحب کی تیس برس کی جدوجہد یہ بتاتی ہے کہ وہ صوبائی خودمختاری اور اقلیتوں کے حقوق کے برٹش انڈیا میں سب سے بڑے چیمپئن اور سیکولر فکر کے بہت بڑے داعی تھے۔

اب کچھ بیوروکریٹ نما دانشور انھیں بنیاد پرست مسلمان ثابت کرنے کے لیے خواہ کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لیں، جناح کو ان کے ماضی کی جدوجہد کے تشخص سے کبھی جدا نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان کے نااہل اور کوتاہ بین جا نشینوں کا کمال ہے، جنھوں نے اپنی ناکامیوں اور نااہل حکمرانی پر پردہ ڈالنے کے لیے ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا جذباتی نعرہ لگا کر وسیع البنیاد ریاست کو تھیوکریٹ ملک میں بدلنے کی کوشش کی۔

ذرا غور کیجیے کہ دنیا کا کون سا ملک ہے، جو ہمارے بارے میں اچھی رائے رکھتا ہو۔ بھارت سے تو چلیے ہماری مخاصمت روز اول سے چلی آرہی ہے۔ افغانستان بھی ہمارا پہلے دن سے مخالف ہے۔ لیکن ایران اور سعودی عرب تو ہمارے عزیز ترین برادر ممالک تھے۔ کیا کبھی ہم نے اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا کی کہ وہ کیوں آج سردمہری کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟ کبھی سوچا کہ جس افغانستان کو روسی استعمار (بقول حکمران اشرافیہ) سے نجات دلانے کی خاطر اپنے گھر کو شدت پسندی کے شعلوں میں لپیٹ لیا، وہ ہمارا شکرگزار ہونے کے بجائے مخالفت پر کیوں کمربستہ ہے؟

عجب طرفہ تماشا ہے کہ وہ امریکا جس کی خاطر ہم نے اپنی انا اور خودداری سبھی داؤ پر لگادی، 50 برس اس کے احکامات کی تعمیل میں دن رات ایک کردیے اور اس کے اشارے پر دنیا کے کئی ممالک سے بلاوجہ دشمنی مول لی، وہ بھی آج ہم سے ناراض ہے۔ ہم نے عرب دنیا کی محبت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، مگر کسی عرب ملک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرتے وقت ہم سے مشورہ تک کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے باوجود ہم ازخود آج بھی مسلم دنیا کے چوہدری ہونے کا اپنا پرانا راگ الاپ رہے ہیں اور مست ہیں۔ آج ہم سوچے سمجھے بغیر چین کی محبت میں غلطاں وپیچاں ہیں۔ اللہ جانے اس نئے رومانس کا کیا انجام ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی سوچ میں تبدیلی لائی جائے۔ جس کے لیے تہذیبی نرگسیت پر مبنی قومی بیانیہ سے چھٹکارا پانا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے دنیا کدھر جارہی ہے؟ اس کی سوچ اور اہداف کیا ہیں؟ تاکہ ہم اس کے ساتھ قدم ملاکر چل سکیں۔ آج کی دنیا جمہوریت اور سیکولرازم کی دنیا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں عقیدہ، نسل و لسان اور صنفی امتیازات سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرنا ہوگی۔ جس کے بغیر جدید دنیا کے ساتھ ہمقدم ہونے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔