پارلیمنٹ ہاﺅس کی غلام گردشوں میں

مزمل فیروزی  منگل 21 نومبر 2017
یہ دنیا کا پہلا پارلیمنٹ ہاﺅس ہے جو شمسی توانائی پر انحصار کرتا ہے۔ (تصاویر بشکریہ مصنف)

یہ دنیا کا پہلا پارلیمنٹ ہاﺅس ہے جو شمسی توانائی پر انحصار کرتا ہے۔ (تصاویر بشکریہ مصنف)

دوسرے دن سوا دس بجے کے قریب ہوٹل کے گیٹ پر ہم محترمہ فرح ناز صاحبہ سے ملے اور ان کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاﺅس کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر جونہی ہم پارکنگ ایریا میں گاڑی پارک کرکے باہر نکلے تو محترمہ نے چھت کی جانب اشارہ کرکے پوچھا کہ یہ چھت کراس میں کیوں ہے؟ ہمارے نفی میں سر ہلانے پر انہوں نے بتایا کہ اس چھت پر سولر پینل لگے ہوئے ہیں، یہ پارلیمنٹ ہاﺅس دنیا کا پہلا گرین پارلیمنٹ ہے جو خودکار طریقے سے شمسی توانائی پر چلتا ہے۔

یہ بلاگ بھی پڑھیے: پاکستان کا بدلتا ہوا شہرِ اقتدار

یہ منصوبہ پاکستان کے دیرینہ دوست چین کے تعاون سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا افتتاح پہلے چین کے صدر شی چن پانگ نے کیا تھا اور بعد از تکمیل نواز شریف صاحب نے۔ سورج کی شعاعوں کا استعمال کرتے ہوئے پارلیمنٹ ہاﺅس کی چھتوں اور پارکنگ ایریا میں لگائے گئے 3 ہزار 9 سو 40 سولر پینلز فی گھنٹہ 1 میگا واٹ بجلی پیدا کرتے ہیں جو قومی اسمبلی اور سینیٹ کو روشن رکھ رہے ہیں۔ اس منصوبے کو 25 سال تک کسی مرمت کی ضرورت نہیں۔ ماحول دوست منصوبہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ جیسی مضر گیسوں سے پاک ہے۔ یہ پاکستان کا پہلا نیٹ میٹرنگ منصوبہ ہے۔ بیٹری بیک اپ رکھنے کے بجائے پلانٹ کو نیشنل گرڈ سے منسلک کیا گیا ہے جس کے سبب ایک ہی وقت میں نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی بھی کی جاتی ہے اور واپس بھی لی جاتی ہے۔

اس دوران ہم باتیں کرتے کرتے سیکیورٹی گیٹ پار کرچکے تھے۔ اندر داخل ہوتے ہی محترمہ فرح ناز کی نظریں دیوار پر لگی ایک اسکرین پر رک گئیں۔ بغور دیکھنے پر پتا چلا کہ اس اسکرین پر سینیٹ میں ہونے والی تمام میٹنگز کا شیڈول درج ہے۔ اسی اثناء میں محترمہ نے اپنے موبائل سے اسکرین کی تصویر لی اور طے پایا کہ پہلے خواتین پارلیمنٹرینز کے بارے میں جانا جائے گا۔ ان کی رہنمائی میں ہم خواتین قانون سازوں کے کمروں کی طرف گئے۔ بقول ان کے خواتین قانون سازوں کا ’’کاکس‘‘ نومبر 2008ء میں اس وقت کی اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کی زیرسرپرستی تشکیل دیا گیا تھا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین پارلیمنٹیرینز شامل ہیں؛ جو پاکستان میں خواتین کو درپیش مختلف مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون سازی سمیت خواتین کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتی ہیں۔

ان کے بقول پاکستانی خواتین پارلیمان کو اعزاز حاصل ہے کہ یہ دنیا بھر میں پہلی پارلیمنٹ ہے جس نے باقاعدہ پارلیمانی سیکریٹریٹ قائم کرتے ہوئے پارلیمانی حکمت عملی کے اپنے وژن میں بین الاقوامی ترقی کا ایجنڈا شامل کیا اور مارچ 2017 میں پہلی خواتین پارلیمانی کانفرنس بھی منعقد کرائی جس میں ایشیا، افریقہ، یورپ اور آسٹریلیا کے براعظموں کے 16 ممالک کی مندوب خواتین شریک ہوئی تھیں۔ خواتین پارلیمنٹیرین کی اس مثبت سرگرمی کے بارے میں جان کر ہم داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔

پارلیمنٹ کے مختلف حصوں کو دیکھتے ہوئے ہم ”دستور گلی“ پہنچے۔ دستور گلی پارلیمنٹ ہاﺅس کی وہ خاص جگہ ہے جہاں پاکستان کی دستوری تاریخ کو سیاہ ادوار سمیت پارلیمنٹ ہاﺅس کی دیوار پر محفوظ کیا گیا ہے۔ یہ دستور گلی پارلیمنٹ ہاﺅس کے ایک کونے میں بنائی گئی ہے جس کی دیواروں پر کچھ تاریخی دستاویزات، تصاویر اور خاکوں کی مدد سے پاکستان کی دستوری تاریخ کو سجایا گیا ہے۔ 1935 کے ہندوستان ایکٹ کا عکس دیوار پر موجود ہے، اس کے ساتھ ساتھ دیوار پر 1956ء کا آئین اور پھر 1958ء کا مارشل لاء، 1962ء کا آئین پھر 1969ء کا مارشل لاء، 1973ء کا آئین پھر 1977 کا مارشل لاء اور پھر اس مارشل لاء میں جمہوریت کی بحالی کےلیے جدوجہد کو بھی نمایاں کیا گیا۔ تمام فوجی ادوار کو سیاہ دور کا نام دیا گیا ہے اور کالے رنگ سے واضح کیا گیا ہے۔ 2002 میں ’’زبردستی کے صدر‘‘ جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے کرائے جانے والے ریفرنڈم کا بیلٹ پیپر جس میں ’’ہاں یا نہیں‘‘ لکھا تھا وہ بھی چسپاں ہے؛ جبکہ ایک تصویر میں ٹکٹکی پر بندھے شخص کو کوڑے مارے جارہے ہیں جس میں ملٹری کورٹس کی طرف سے سیاسی کارکنان اور آزادی اظہار کرنے والوں کو سزا پاتا دکھایا گیا ہے۔ دوسری تصویر میں حبیب جالب، احمد فراز اور جون ایلیا کی مزاحمتی شاعری کو تصاویر کے ذریعے بیان کیا گیا ہے۔

اس کے بعد 1999ء کی فوجی بغاوت کا ذکر آتا ہے، پھر18 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا ذکر ہے اور اس کے آگے گلی کا اختتام ہوجاتا ہے، مگر میرا خیال ہے کہ اس گلی کے آگے ’’جاری ہے‘‘ لکھا ہونا چاہیے تھا۔

اس کے بعد ہم نے اپنی میزبان کے ساتھ پارلیمنٹ کیفے ٹیریا میں موجود دوسرے صحافی دوستوں کے ساتھ لنچ کیا۔ کھانے کے دوران کراچی کے حالات موضوع بحث رہے۔ کھانے کے بعد کیفے ٹیریا کے گرین بیلٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر سید شبلی فراز سے تفصیلی گفتگو ہوئی جس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔

اس کے بعد ہم نے سینیٹ لائبریری کا رخ کیا۔ سینیٹ لائبریری کا قیام 1986 میں عمل میں لایا گیا جس میں اس وقت زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق 20 ہزار سے زائد کتب موجود ہیں؛ زیادہ تر کتب قانون سازی اور سیاسیات پر مشتمل ہیں۔ لائبریری سے نکل کر ہم باہر کی طرف آگئے جہاں فرح ناز صاحبہ نے بتایا کہ پارلیمنٹ ہاوس میں ”پارلیمنٹ مونیومنٹ وال“ بھی ہے۔ اس یادگار کے ساتھ سلامی کا چبوترا بنایا گیا ہے۔ سلامی کا یہ چبوترہ ایک بڑے خوبصورت فوارے کے ساتھ منسلک ہے جس کا مقصد مستقبل میں سینیٹ کے دورے کےلیے آنے والی اہم شخصیات اور اعلیٰ سطح کے غیرملکی پارلیمانی وفود بالخصوص باہر سے آنے والے مختلف ایوانوں کے سربراہان کو باقاعدہ طور پر سلامی پیش کرنا ہے۔ سلامی کا یہ چبوترہ یوم آزادی، یوم پاکستان و دیگر قومی تہوار کے مواقع پر بھی تقریبات کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔

شام چار بجے کے قریب ہمارے دوست نور محمد کا فون آگیا۔ انہوں نے آبپارہ مارکیٹ کے صدر سے ملاقات کا وقت لیا ہوا تھا اور ہمیں بروقت وہاں پہنچنا تھا۔ یوں پارلیمنٹ میں گزرنے والا ایک دن بہت سے سوالات ذہن میں لیے اختتام پذیر ہوا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مزمل فیروزی

مزمل فیروزی

بلاگر انگریزی میں ایم اے کرنے کے بعد ایک مقامی روزنامہ میں بطور صحافی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ آپ ٹوئٹر پر ان سے @maferozi پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔