بجلی رے بجلی؛ حد ہوگئی ناشکری کی

خرم علی راؤ  منگل 21 نومبر 2017
کے الیکٹرک ’’جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کے الیکٹرک ’’جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یوں تو بجلی کا نظام اس مملکتِ خداداد میں ہر جگہ ہی ابتری اور بگاڑ کے نت نئے ریکارڈ بنا رہا ہے لیکن کراچی اس حوالے سے کثیر جہتی مسائل کا شکار ہے۔ آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

’’کے ای ایس سی‘‘ سے ’’کے الیکٹرک‘‘ تک کا سفر بلاشبہ کامیابیوں کی ایک تابناک مثال ہے مگر صرف کمپنی اور اس کے پردہ نشین مالکان کےلیے۔ عوام کالانعام بے چارے تو کل بھی رو رہے تھے اور آج بھی سسک رہے ہیں؛ ناشکرے کہیں کے! لوڈ شیڈنگ باقاعدہ اور بے قاعدہ، اوور بلنگ ، تانبے کے بجائے المونیم کے تار، تیز رفتارڈیجیٹل میٹر، صارفین کو احمق سجھ کر سلوک کرنا، عدالتی احکامات کی پروا نہ کرنا، بجلی کے نرخ ترقی یافتہ ممالک والے رکھنا اور کارکردگی ایتھوپیا اور صومالیہ بلکہ بنانا ری پبلک والی دینا۔

مشتاق احمد یوسفی صاحب کے اس قول پر دل و جان سے عمل کرنا کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہوتی ہیں: جھوٹ، سفید جھوٹ اور اعداد و شمار؛ اور مہارت کے اعلی درجے پر اس قولِ فیصل کا صارفین پر اطلاق کرنا اپنے سسٹم کی ٹیکنیکل اپ گریڈیشن کے بجائے جگاڑوں پر کام کو چلانا وغیرہ۔ یہ سب ’’کے الیکٹرک‘‘ کے وہ تابناک کارنامے ہیں جو کراچی کے بلبلاتے شہری صدیوں نہیں تو برسوں تک نہ صرف یاد رکھیں گے بلکہ اپنے بچوں کو ان کی کہانیاں بھی سنایا کریں گے۔

ہماری پیاری اور مستعد کمپنی جو بلاشبہ قانونی طور پر لوٹ مار… اوہ! معاف کیجئے گا، میرا مطلب تھا کاروبار کےلیے ترتیب دیئے گئے عملی نظام کا ایک شاہکار ہے، اعلی تعلیم یافتہ عملے پر مشتمل ہے جو ایسی ایسی منطقوں اور حربوں کے استعمالِ مہارت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے جو کمپنی کو روز بہ روز ترقی کی بلندیوں کی جانب لے جارہے ہیں، اورجن حربوں کا توڑ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً محال نظر آتا ہے۔ جب صارف کمپنی کے دفتر سے اپنی جائز شکایت کے حل کے بارے میں ’’کبھی کبھار‘‘ مایوس ہوکر نکلتا ہے تو بقول شاعر اس کا حال کچھ یوں ہوتا ہے کہ ’جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا،‘ اور جب صارف، کمپنی کے دفتر کے باہر کھڑا حسرت و یاس کی تصویر بنا ہوتا ہے تو کچھ دیر کے بعد ایک نیک، خضر صفت شخص اس صارف کے پاس آکر نہ جانے کیا سرگوشیاں کرتا ہے کہ صارف کا چہرہ کھل اٹھتا ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔

سچ ہے! یہ دنیا نیک لوگوں سے کبھی خالی نہیں رہتی، لیکن اچنبھے کی بات صرف ذرا سی یہ ہے کہ یہ خدائی خدمت گار صرف ان ہی صارفین سے رجوع کرتے نظر آتے ہیں جن کا پھنسا ہوامسئلہ کسی بڑی رقم کا ہوتا ہے، یہ صاحبانِ کشف لوگ ہمیشہ انہی صارفین کو غیبی مدد کا جلوہ دکھاتے ہیں جو لاکھوں کی رقوم کے جرمانوں یا اوور بلنگ میں الجھے ہوتے ہیں۔ ضرور یہ بھی مذکورہ نظام کی بے شماربرکتوں میں سے ایک برکت ہے۔ بس نہ جانے چھوٹے موٹے صارفین کیوں اس نعمت سے محروم رہتے ہیں؟

کمپنی کے عملے کی خوش اخلاقی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ کمپنی کا ہر رکن اس بات کو سمجھتا ہے کہ ان کی عالیشان تنخواہیں صارفین ہی بالواسطہ طریقے سے ادا کرتے ہیں، اس لیے وہ ہر شکایت کنندہ صارف سے اتنے میٹھے لہجے میں بات کرتے ہیں اور اتنی عزت دیتے ہیں کہ صارفین خوامخواہ خود کو معزز سجھ کر بخوشی نہ صرف حلال ہوجاتے ہیں بلکہ اس بلندئ اخلاق سے فیض یاب ہونے بار بار آتے ہیں۔

ہماری پیاری کمپنی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ منافع کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، حتی کہ مساجد اور مدارس کے بلوں میں بھی ٹی وی لائسنس فیس چارج کرکے کروڑوں روپے کماتی ہے۔ واہ! ذہانت ہو تو ایسی!

جو عاقبت نااندیش لوگ بھولے بھٹکے وفاقی محتسب کے پاس شکایت لے جاتے ہیں، تو وہاں تو یقیناً انصاف سے فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ہر کیس کی نوعیت کے مطابق معاملے پر حکم نامہ جاری کردیا جاتا ہے۔ مگر اس پر عمل درآمد کرانے میں صارف کو اس لوہے کے چنے چبانے پڑ جاتے ہیں جس لوہے سے کمپنی کے کھمبے بنتے ہیں۔

اب چاہیے تو یہ تھا کہ کمپنی کی ان گوناگوں خدمات کے اعتراف میں عوام سجدہ شکر بجا لاتے اور کمپنی کے کھمبے دھو دھو کر پیتے، مگر صاحب ہم بھی بڑے ناشکرے لوگ ہیں! خوامخواہ کی تنقید کرتے رہتے ہیں کہ ان سارے مسائل کے بہت سے آسان حل موجود ہیں۔ یہ کرلو، وہ کرلو، بجلی کے نظام کو سیل فونز کی طرح کارڈ سسٹم پر لے آؤ، ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کی خواہش کے مطابق بجلی کا نظام ان کے ہاتھ میں دے دو، چائنا سے سستی بجلی لے لو وغیرہ۔ بتائیے ذرا کس قدر احمقانہ تجاویز ہیں یہ۔ ایسا کہیں ہو تا ہے بھلا؟ اب اس عمر میں ڈاکٹر صاحب کو پریشان کرنا اچھا لگے گا؟ پہلے ہی انہیں کیا کم پریشان کرکے رکھا تھا؟ اب انہیں آرام دیجئے بس! اور چائنا کی چیزیں تو… بس زیادہ حدِ ادب!

بس! اب تو اس نعرے کو اپنا لینا چاہیئے کہ کمپنی سے محبت کرو اور خود کو بھی بیچ کر اس کی تعمیرِ مزید کرو۔

حاسدوں کو مزید جلانے کےلیے بتادوں کہ گزشتہ مالی سال میں ہماری پیاری کمپنی نے 7 ارب 95 کروڑ روپے ’’مؤخر کردہ ٹیکسوں‘‘ کی مد میں شامل کرنے کے بعد 32 ارب 75 کروڑ روپے کا مجموعی منافع کمایا کر دکھایا، کوئی کما کر تو دکھائے ذرا! اور صارفین کے ’’بے مثال تعاون‘‘ سے اس سال اور بھی زیادہ منافع متوقع ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

خرم علی راؤ

خرم علی راؤ

بلاگر استاد ہیں جبکہ شارٹ اسٹوریز، کونٹینٹ رائٹنگ، شاعری اور ترجمہ نگاری کی مہارت بھی رکھتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔