’’ہمیں دلہن نہیں ملتی‘‘... ترکی میں مردوں کی دہائی

 پير 20 نومبر 2017
گاؤں کی کل آبادی چار سو نفوس پہ مشتمل تھی جو اب صرف دو سو تیتیس رہ گئی ہے ۔ فوٹو : فائل

گاؤں کی کل آبادی چار سو نفوس پہ مشتمل تھی جو اب صرف دو سو تیتیس رہ گئی ہے ۔ فوٹو : فائل

 ترکی کے جنوبی علاقے کے ایک دور افتادہ گاؤں ازوملو (Uzumlu) میں بستے مرد عجیب مشکل میں پھنس گئے ہیں۔وہ یہ کہ کوئی بھی خاتون ان سے شادی پر آمادہ نہیں ۔ وہ جس خاتون کو بھی رشتہ بھیجتے ہیں ،ٹکا سا جواب آتا ہے کہ ہم اس دورافتادہ اور پسماندہ گاؤں میں قید ہو کر اپنی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتیں۔

یہ صورتحال اس قدر گھمبیر ہو چکی کہ گزشتہ نو سال سے اس گاؤں میں کسی ایک مرد کی شادی بھی نہیں ہو سکی۔دوسری طرف وہاں سے کئی لڑکیاں بیاہ کر دیگر علاقوں میں جا چکی ہیں۔ بیشتر خواتین بہتر مستقبل کے لیے بڑے شہروں میں جا بسی ہیں اور علاقے کے میئر کے مطابق اس گاؤں کی آبادی تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔

پچھلے دنوں صورتحال سے تنگ آ کر گاؤں کے کنوارے مردوں نے ایک احتجاجی جلوس نکالا جس میں وہ خواتین سے التجائیں کرتے رہے کہ خدارا ہمارے ساتھ شادی سے انکار مت کرو۔ساتھ ہی انہوں نے ترک صدر رجب طیب اردگان سے بھی معاملے کا نوٹس لینے اور مدد کرنے کی اپیل کی ہے۔

میئر مصطفی بیشبیلان کا کہنا ہے کہ گاؤں میں اس وقت 25 مرد غیرشادی شدہ ہیں جن کی عمریں پچیس سے پنتالیس سال کی ہو چکی ہیں مگر کوئی بھی عورت ان سے شادی کو راضی نہیں ۔بیس سال قبل اس گاؤں کی کل آبادی چار سو نفوس پہ مشتمل تھی جو اب صرف دو سو تیتیس رہ گئی ہے۔دلچسپ بات یہ کہ اس گاؤں میں غربت نہیں ہے۔ زرخیز زمین کی وجہ سے لوگ خوشحال ہیں مگر شادی کے مسئلے کی وجہ سے یہاں کے مرد غمگین رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔