سوات کا سپل بانڈئی

اختر خان  پير 20 نومبر 2017
پاکستان کے انوکھے گاؤں کا دلچسپ تذکرہ

پاکستان کے انوکھے گاؤں کا دلچسپ تذکرہ

 سپل بانڈئی سوات کے صدرمقام ، سیدو شریف سے آٹھ کلومیٹردور ہے۔ سیاحتی مقام ،مرغزار جاتے ہوئے راستے میں دائیں طرف سرسبز و شاداب پہاڑی کے اوپر یہ گاؤں واقع ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ پاکستان کی واحد بستی ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔مزید براں ایک پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہونے کے باعث بھی اسے ممتاز درجہ حاصل ہے۔ سپل بانڈئی سطح سمندر سے 3600 فٹ بلند ہے۔

سپل بانڈئی سے تعلق رکھنے والے دانشور، شوکت شرار کی تحقیق کے مطابق گاؤں کے آثار قدیمہ سے عیاں ہے کہ یہاں محمود غزنوی کی افغان فوج کے آنے سے پہلے بدھی اور ہندو آباد تھے۔بعد ازاں یہاں محمود غزنوی کی فوج میں شامل افغان بس گئے۔یہ واضح رہے، شوکت شرار کے مطابق سوات کے وہ گاؤں جن کے ساتھ ’’پور‘‘ کا لاحقہ لگتا ہے، ہندوؤں کے بسائے ہوئے ہیں۔ سوات میں اسلام پور، فتح پور اور شاہ پور اس کی مثالیں ہیں۔ اس طرح ’’گرام‘‘ کا لاحقہ ان علاقوں کے ساتھ لگتا ہے جنہیں بدھ لوگوں نے آباد کیا۔ ایسے علاقوں میں اوڈیگرام، نجیگرام اور گلی گرام نمایاں ہیں۔’’بانڈئی‘‘ ان علاقوں کے ساتھ مستعمل ہے جنہیں پختون زمانے میں ترقی دی گئی۔

افغان فوج میں شامل شیخ سعدی نامی شخص کا پوتا اخوند درویزہ ایک بڑا عالم بنا۔ مقامی لوگوں نے اسے ولی کا درجہ دیا۔ بعد میں اخوند درویزہ کے پوتوں نے گاؤں کی زمین کو آپس میں بانٹ لیا۔ ان کے پوتے میاں دولت بابا کی اولاد نے صحیح معنوں میںسپل بانڈئی کو آباد کیا۔ آج میاں دولت بابا کی اولاد ہی سپل بانڈئی میں بستی ہے۔گویا سپل بانڈئی پاکستان کا وہ واحد گاؤں ہے جہاں ایک ہی دادا کی اولاد رہتی ہے۔ علاقے کے ایک بزرگ،امیر مشال‘‘ گاؤں والوں کے شجرہ نسب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ’’ سپل بانڈئی میں تین خاندانوں پر مشتمل لوگ رہتے ہیں۔یہ اخوند درویزہ بابا کی اولاد ہے۔ تینوں خاندان ’’برٹل میاں گان‘‘، ’’کوزہ خونہ میاں گان‘‘ اور ’’بنڑ میاں گان‘‘ کے ناموں سے مشہور ہیں۔‘‘

سوات کے سبھی دیہات میں میں دو مساجد ہوتی ہیں۔ بالفاظ دیگر ہر قبیلے یا خیل کی اپنی ایک الگ مسجد ہوتی ہے۔ اس حوالے سے سپل بانڈئی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پورے پاکستان میں یہ واحد گاؤں ہے جہاں سات ہزار کی آبادی ایک ہی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتی ہے۔ یہ بات ایک طرح سے اہل سپل بانڈئی کے اتحاد اور اعتدال پسندی کی بھی غماز ہے۔

مسجد تین سو سال پرانی اوریہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ تین ساڑھے تین سو سال پرانا ہے جبکہ دوسرا عصر حاضر کے تقاضے دیکھتے ہوئے تعمیر کیا گیا ۔ یہ مسجد قدیم و جدید دور کا حسین امتزاج ہے جسے ملک کے طول و عرض سے سیاح دیکھنے آتے ہیں۔ مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر مخصوص سواتی کاریگری کی گئی ہے جو گردشِ ایام سے معدومیت کا شکار ہوچکی ۔ اب سواتی کاریگر ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔

گاؤں کے ایک سفید ریش عزیز خان کہتے ہیں ’’مسجد کی کئی خوبیاں ہیں۔ یہ عین سپل بانڈئی کے وسط میں واقع ہے۔ صاف اور میٹھے پانی کا گزر بھی ایک نالے کی شکل میں اسی مسجد سے ہوتا ہے۔ چونکہ پورے گاؤں کی یہ واحد مسجد ہے، اس لیے پچھلے سوا تین برس سے سپل بانڈئی کے اتفاق و اتحاد اور یگانگت پر آج تک آنچ نہیں آئی۔‘‘

مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر روشنی ڈالتے ہوئے ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ،محمد دوران کہتے ہیں ’’مسجد کی تزئین و آرائش میں استعمال ہونے والی لکڑی زیادہ تر دیار درخت کی ہے۔ مسجد کے محراب میں تین قسم کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ استعمال شدہ کالے رنگ کی لکڑی عرف عام میں ’’بنڑیا‘‘ کہلاتی ہے جو اس علاقہ کی لکڑی نہیں ۔ یہ خاص طور پر موضع ملم جبہ سے منگوائی گئی۔ دوسری قسمدیارکی لکڑی ہے۔ تیسری قسم میں چیڑ درخت کی لکڑی استعمال ہوئی ہے، جسے سوات کی سب سے بہترین لکڑی ہونے کا اعزازحاصل ہے۔ تقریباً سوا تین برس گزرنے کے بعد بھی مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بدرجہا بہتر اور مضبوط ہے۔ یہاں کی روایات کے مطابق مسجد کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال زیادہ کیا گیا ۔ یہاں روایتی طرز تعمیر میں لکڑی، پتھر اور گارے کا ہی زیادہ تر استعمال ہوتا ہے ۔‘‘

سپل بانڈئی کے بیشتر لوگ سرکاری ملازم ہیں جن میں بڑی تعداد پولیس میں بھرتی ہے۔ اس کے علاوہ اندرون و بیرون ملک کام کرنے والے رقوم بھیجتے رہتے ہیں جس سے گاؤں کے لوگ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ آمدنی کے بیشتر ذرائع میں زراعت و باغبانی بھی شامل ہیں۔ یہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے۔ گندم اور مکئی جیسی نقد آور فصلوں کے علاوہ یہاں سبزیوں میں آلو، پیاز، گوبھی، مٹر،گاجر، مولی، شلجم وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔

پھلوں میں سیب، آلوچہ، خوبانی، شفتالو، انجیر وغیرہ اگائے جاتے ہیں۔ یہاں کا اَخروٹ خاص طور پر مشہور ہے جس کا چھلکا اتنا نرم ہوتا ہے کہ اسے انگلیوں میں دبا کر ہلکا زور دینے سے ہٹایا جاسکتا ہے۔ گاؤں سرسبز و شاداب ہے، اس لیے یہ مگس بانی (شہد کی مکھیاں پالنے) کے لیے بے حد موزوں ہے۔ اس حوالے سے تجربہ کیا بھی گیا ۔ کہا جاسکتا ہے کہ اگر تھوڑی سی کوشش کی جائے تو مگس بانی بھی سپل بانڈئی والوں کے لیے بہترین ذریعہ آمدن بن سکتی ہے۔

گاؤں میں تعلیم کی شرح ملک کے باقی حصوں سے زیادہ ہے۔ سپل بانڈئی کے رہائشی امجد علی (اسکول ٹیچر) کے بقول گاؤں میں تعلیم کی شرح 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں عموماً لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جاتا ہے مگر سپل بانڈئی اس حوالے سے جداگانہ حیثیت کا حامل ہے جہاں لڑکوں کے لیے مڈل اور لڑکیوں کے لیے ہائی اسکول قائم ہے۔ اس کے علاوہ دو پرائمری اسکول اور ایک نجی اسکول (انگلش میڈیم) بھی نونہالانِ وطن کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔‘‘

سپل بانڈئی میں کام کے بندوں کی کمی نہیں۔ یہاں کے ایک رہائشی جہان پرویز نے بائیو گیس پلانٹ لگانے کا کامیاب تجربہ کیا ۔ اس کے بقول ’’پشاور انجینئرنگ یونیورسٹی کے تعاون سے ہم نے بائیو گیس پلانٹ لگایا ۔ مویشیوں کے فضلے سے اب گیس کی پیداوار کا کام جاری ہے جس سے گھر میں کھانا پکانے اور کمروں کو گرم رکھنے کا کام لیا جاتا ہے۔ اس سے پیدا ہونے والی گیس کسی بھی آٹھ سے دس افراد پر مشتمل خاندان کی زندگی سہل بنا سکتی ہے۔ اس سے نہ صرف چھوٹے بڑے سلنڈر بھرے جاسکتے ہیں بلکہ گاڑی کے ایندھن کے طور پر بھی استعمال کرنا ممکن ہے۔‘‘

کئی خوبیوں کے ساتھ سپل بانڈئی کو ایک بڑا خطرہ یہ لاحق ہے کہ اس کے اندر بے ہنگم تعمیرات زور و شور سے جاری ہیں۔وہ اس گاؤں کا فطری حسن ختم کر سکتی ہیں۔ یہاں کی زرخیز زمین تیزی کے ساتھ پختہ عمارتوں میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کے بڑوں کو سر جوڑ کر بیٹھنا اور مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ ترقی اور جدت ضرور ہونی چاہیے لیکن اگر اسے تھوڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جائے، تو سپل بانڈئی کی خوبصورتی بچ سکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔