نظریاتی دھند اور اسموگ

ظہیر اختر بیدری  پير 20 نومبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

چند روز پہلے ملک خصوصاً پنجاب میں شدید دھند اور اسموگ سے حد نگاہ زیرو سے 5 میٹر تک آگئی تھی۔ یہ وبا ویسے سردیوں میں مسلط ہوتی ہے لیکن اس سال کچھ زیادہ ہی دیکھی جا رہی ہے جس کی وجہ سے کاروبار زندگی ٹھپ ہو رہا ہے۔

دوہفتوں کے بعد بارش ہونے کی وجہ سے دھند اور اسموگ زدہ علاقوں حد نگاہ میں بہتری آئی ہے ۔ دھند اور اسموگ پاکستان تک محدود نہیں بلکہ بھارت بھی اس کی لپیٹ میں ہے، دہلی کا اس قدر برا حال ہے کہ مصنوعی بارش برسانے کا اہتمام کرنا پڑا۔

انسان نے سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت زندگی کے کئی شعبوں میں اس قدر حیرت انگیزکامیابیاں حاصل کی ہیں کہ ماضی بعید میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چاند کی یاترا کے بعد اب انسان مریخ کے سفرکی تیاری کر رہا ہے کیونکہ خلائی تحقیق کے اداروں کا خیال ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں مریخ ہی ایسا سیارہ ہے جس پر ہوا اور پانی کی موجودگی کے امکانات پائے جاتے ہیں کیونکہ زندگی کی شرائط میں ہوا اور پانی شرط اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے مریخ پر ان عناصرکی موجودگی کے امکانات ہی کے نتیجے میں ناسا انسانوں کو مریخ پر بھیجنے کی تیاری کررہا ہے اور حال ہی میں اس حوالے سے ناسا نے مریخ کے لیے مزدوروں اور کسانوں کی ضرورت کے اشتہار دیے ہیں ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اس اشتہار کو مزدوروں اور کسانوں کی طرف سے کتنا رسپانس ملا ہے لیکن اس کا اندازہ بہرحال کیا جاسکتا ہے کہ خلائی سائنسدانوں نے مریخ کو فتح کرنے کا عزم کرلیا ہے۔

دھند اور اسموگ نے حد نگاہ کو 5 میٹر بلکہ زیرو تک محدود کردیا ہے ہمارے کرہ ارض کی تاریخ میں ہزاروں سال تک معلومات کا حال یہ تھا کہ کرہ ارض یعنی ہماری دنیا کو ہی انسان کل کائنات سمجھتا تھا اور اسی کے تناظر میں اپنے عقائد و نظریات کی تشکیل کرتا تھا۔ ہزاروں سال پر محیط دور ایسا تھا کہ ہماری فکر و نظر کے آگے دھند اور اسموگ اس قدر شدید تھی کہ انسان کی حد نگاہ زیرو پر رکی ہوئی تھی اس فکری دھند کی وجہ انسان چاند کے داغوں کو یہ کہتا تھا کہ یہ دھبے چاند پر چرخہ کاتتی بڑھیا کے نشانات ہیں، لیکن جیسے جیسے انسان کی حد نگاہ میں اضافہ ہوتا گیا۔ دنیا اورکائنات کے مناظر واضح ہوتے گئے۔

جو قومیں نظریاتی دھند اور اسموگ سے باہر آرہی ہیں، وہ زمین آسمان چاند سورج اورکائنات کے بارے میں زیادہ جاننے لگی ہیں اور انسان کی زندگی کے ہر شعبے میں بڑھتی ہوئی جانکاری نے جہاں انسان کو جہل کی دھند اور اسموگ سے نجات دلادی ہے ، وہیں زندگی کے ہر شعبے میں اس قدر ناقابل یقین ترقی کی ہے کہ خود عقل حیران ہے ۔ طب کے شعبے ہی کو لے لیں انسان اب آسانی سے ان بیماریوں کا علاج کر رہا ہے جسے وہ اپنی نظریاتی دھندکی وجہ ماضی میں لاعلاج سمجھتا تھا۔ اب انسان دل، گردوں ہی کو نہیں بدل رہا ہے بلکہ پرانے ناکارہ دل کی جگہ متبادل صحت مند دل کی پیوند کاری کر رہا ہے۔ دماغ انسانی جسم کا انتہائی حساس پیچیدہ ترین عضو ہے انسان نے نہ صرف یہ پتا لگا لیا ہے کہ دماغ میں تین ارب خلیات موجود ہیں بلکہ اس نے یہ بھی معلوم کرلیا ہے کہ کون سے خلیات کیا خدمات انجام دیتے ہیں۔ ترقی کی رفتار یہی رہی تو وہ دن دور نہیں جب مارکیٹ میں انسانی جسم کا ہر پارٹ (عضو) ملنے لگے گا اور طبی سائنس دان ان پارٹس کو پرانے اور ناکارہ پارٹس سے بدلنے لگیں گے۔

ترقی یافتہ ممالک زندگی کے ہر شعبے میں ناقابل یقین ترقی اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ نظریاتی دھند اور اسموگ سے باہر نکل آئے ہیں لیکن پسماندہ ملکوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ اس قدر شدید نظریاتی دھند اور اسموگ کا شکار ہیں کہ ان کی حد نگاہ زیرو پر اٹکی ہوئی ہے۔ عوام کو نظریاتی دھند سے نجات دلانے کی ذمے داری مفکروں، دانشوروں، فلسفیوں، عالموں، سائنسدانوں پر عائد ہوتی ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ یہ مدبرین گمنامی کے اندھیروں میں پڑے ہوئے ہیں اور ہر قسم کے جہلا، شہرت کے آسمانوں پر اس طرح جگما رہے ہیں کہ ان کی روشنی سے عوام کی آنکھیں چندھیائی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر مسلم ممالک اس قدر شدید نظریاتی دھند اور اسموگ کا شکار ہیں کہ ان کی حد نگاہ زیرو پر ہی اٹکی ہوئی ہے اور اس نظریاتی دھند اور اسموگ میں وہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں اور موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے مذہبی انتہا پسندی ایسی دھند اور اسموگ بن گئی ہے کہ یہ نہ صرف اپنی قوم کو بلکہ ساری دنیا کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ حد نگاہ جب زیرو پر پہنچ جاتی ہے تو اپنے پرایوں کی تمیز بھی ختم ہوجاتی ہے، آج سارے مسلم ملک اس نظریاتی دھند اور اسموگ میں اس بری طرح مبتلا ہیں کہ جگہ جگہ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں اور اپنا نقصان کر رہے ہیں۔

نظریاتی دھند اور اسموگ کے خاتمے کے لیے اظہار خیال اور فکری آزادی بارش کا کام دیتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پسماندہ ملکوں خاص طور پر مسلم ملکوں میں فکر و اظہار پر ایسی پابندیاں عائد ہیں کہ بے چارہ سائنسدان اپنی کسی تحقیق کو باہر لاتے اور اس پر بات کرتے ہوئے سخت خوفزدہ رہتا ہے، فکر و اظہار پر ان پہروں کی وجہ ہماری حد نگاہ زیرو پر رکی ہوئی ہے۔ ہم نہ آگے دیکھ سکتے ہیں نہ سوچ سکتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں لاکھ برائیاں اور خرابیاں سہی لیکن وہاں فکر و اظہار پر کوئی پابندی نہی ہے، ہر انسان آزادی سے سوچ سکتا ہے اور بول سکتا ہے اس کے علاوہ ان معاشروں میں نظریاتی دھند و اسموگ نہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان معاشروں کی نگاہ چاند کی سرخ مٹی کو دیکھ رہی ہے اور مریخ کی سرزمین کا جائزہ لے کر یہ بتا رہی ہے کہ مریخ پر انسان جاسکتا ہے زندگی گزار سکتا ہے اور اپنی بستیاں بسا سکتا ہے۔

انسانی معاشروں میں بیداری پیدا کرنے کا کام سیاستدان اور حکمران بھی انجام دیتے ہیں، لیکن ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ان طبقات کی حد نگاہ اپنی ذات اپنے مفادات پر آکر رک جاتی ہے۔ آج پاکستان پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم ایک ایسی سیاسی دھند اور اسموگ میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہمیں اپنی ناک اپنے مفادات کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا ہے اور اس اندھیرے میں ہم ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ہمیں اس بات کی ذرہ برابر فکر نہیں کہ ملک و قوم کے آگے ہر طرف دھند اور اسموگ پھیلا ہوا ہے اور ہم دو تین فٹ سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔