پاکستان کا قومی کھیل، قومی بے حسی کا شکار

مظہر سلیم حجازی  بدھ 22 نومبر 2017
ہاکی کے فروغ سے نسلِ نو کو صحت مند مستقبل دیا جاسکتا ہے۔
فوٹو: انٹرنیٹ

ہاکی کے فروغ سے نسلِ نو کو صحت مند مستقبل دیا جاسکتا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

سیانے کہتے ہیں کہ جس ملک میں کھیل کے میدان آباد ہوتے ہیں اس کے اسپتال ویران ہوتے ہیں؛ لیکن بد قسمتی سے ہم الٹی سمت بھاگ رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک طرف تو بڑھتے ہوئے امراض اور مریضوں کےلیے جدید اسپتال کھمبیوں کی طرح اگ رہے ہیں لیکن دوسری طرف ہمارے ملک میں کھیلوں کے نئے میدان بننا تو کجا، پرانے میدانوں کو بھی قبضہ مافیا اور حکومتی عہدیداروں کی لالچی نگاہوں نے یا تو ختم کردیا ہے یا پھر قبضہ کر کے ان کی ہیئت تبدیل کرکے رکھ دی ہے۔ ہم ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں رات کو سونے سے قبل ’’مارننگ واک‘‘ کرتے ہیں؛ اور گراؤنڈ کے بجائے موبائل فون اور ٹیبلٹ پر فٹ بال، کرکٹ اور تخریب کاری پر مبنی گیمز سے دل بہلا کر چیمپئنز ٹرافیاں اور میڈل جیت رہے ہوتے ہیں۔

ان حالات میں کہ جب کھیلوں کی اہمیت و افادیت ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکی ہے، ہمارے روایتی دیہاتی کھیل کبڈی، کشتی، گلّی ڈنڈا، والی بال، ایتھلیٹکس اور باڈی بلڈنگ (تن سازی) دورِجدید کے تھپیڑوں سے اپنے گال سہلا رہے ہیں۔ دوسری طرف دنیا بھر میں ہماری پہچان، ہمارا قومی کھیل ہاکی (باوجود دنیا کے بہترین اور سرکردہ ہاکی ہیروز کی موجودگی کے) روبہ زوال بھی ہے اور ارباب بست و کشاد کی عدم توجہی کا شکار بھی۔ وہ ہاکی جس کے ہر بڑے مقابلے کے آخری میچ کا ایک فریق ہمیشہ پاکستان ہوا کرتا تھا اور شائقین کو صرف دوسری ٹیم کے جاننے کا اشتیاق ہوتا تھا کہ وہ کون ہو گی، آج وہی ٹیم ہر بڑے ٹورنامنٹ سے باہر ہے۔

ہاکی پر اخراجات خسارے کا سودا نہیں بلکہ ایک قومی ذمہ داری سمجھی جانی چاہیے کیونکہ اس قومی کھیل کے ساتھ قوم کا جو جذباتی تعلق اور شاندار ماضی وابستہ ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں اپنی نوجوان نسل کو ون ویلنگ اور دیگر جان لیوا خرافات سے بچا کر اسے مثبت مقابلے کی فضا میں لانا چاہیے۔ مزید یہ کہ ہاکی کے فروغ سے نسلِ نو کو صحت مند مستقبل دیا جاسکتا ہے۔

آئیے ان چند اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں جن کی مدد سے ہم ہاکی کی دنیا میں اپنے کھوئے ہوئے وقار اور عظمت رفتہ کو بحال کرسکتے ہیں۔

 

مرکزی سطح پراقدامات

پاکستان ہاکی فیڈریشن (پی ایچ ایف) اور پاکستان اسپورٹس بورڈ

اگرچہ سیکریٹری پی ایچ ایف، پی ایس بی کی گورننگ بورڈ کے رکن ہیں اس کے باوجود دونوں اداروں کے درمیان ہاکی کے فروغ اور دستیاب سہولتوں کے بہتر استعمال کے حوالے سے ازسرِنو جائزہ کمیٹی کا قیام ضروری ہے۔ دونوں اداروں کے زیرِنگرانی آسٹروٹرف اور ہاسٹلز کو دور دراز اضلاع کے کلبوں کےلیے کھول دیا جانا چاہیے اور ایک نظام کے تحت ان علاقوں کے کھلاڑیوں کو یہاں کھیلنے اور دوران کھیل قیام کے مواقع دیئے جائیں۔

قومی جذبوں اور پہچان کی اہمیت

بعض سرگرمیاں، روایات اور کھیل نفع نقصان سے قطع نظر اپنے ملی وقار، مقامی ثقافت اور اسلاف کے ماضی کی شاندار یادوں اور قومی پہچان کی علامت کے طور پر زندہ رکھے جاتے ہیں۔ جیسے عربوں میں اکثر لوگ محض اپنی روایت کو نبھانے کےلیے اونٹ پالنے اور صحرائی خیموں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ اونٹ پالنا ایک مہنگا شوق ہے مگر بیتے لمحوں کی حسین یادوں اور آبا کی وراثت کے امین ہونے کے ناتے اس مہنگے شوق کو زندہ رکھا جاتا ہے۔ بعینہٖ ہمیں بھی ہاکی پر، جو اس کے برعکس ایک مہنگا شوق نہیں، اپنی قومی پہچان اور عالمی سطح پر ماضی کا ایک شاندار حوالہ سمجھتے ہوئے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اولمپیئن کھلاڑیوں کے تھنک ٹینک کی مدد سے مناسب حکمت علمی ترتیب دینی چاہیے اور فراخ دلی کے ساتھ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی اور وسائل کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ ہاکی کے تابناک ماضی کی یادوں کو تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ شاندار روایات کے سا تھ نسل نو کا رشتہ جوڑا جاسکے۔

ہاکی کوچ

جدید دور میں ہاکی ایک تکنیک اور جدید مہارت کا متقاضی کھیل بن چکا ہے۔ آج ہاکی میں نت نئی تبدیلیوں سے آگاہی اور مغربی ٹیموں کی حکمت عملی کا مطالعہ بہت ضروری ہوچکا ہے۔ اس تناظر میں کوچ کا کردار بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ بدلتی ہوئی کوچنگ، تربیتی ماحول سے آگاہی کےلیے مربوط نظام کے تحت پرانے اور نئے ہاکی کوچز کی ٹریننگ اور تعلیم ازبس ضروری ہے تاکہ وہ ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو ہاکی کی جدید مہارتوں اور روز بروز تبدیلیوں سے روشناس کراسکیں۔

محکمانہ ٹیمیں اور کھیل کے شعبوں کا احیاء

وسائل کی کمی کا رونا رو کر ملک کی بڑی کاپوریشنوں اور کمپنیوں نے کھیلوں کے شعبے بند کردیئے ہیں جبکہ دیگر مدات میں اربوں روپے کے گھپلے ان کی سالانہ آڈٹ رپورٹوں میں سامنے آتے ہیں۔ بڑے قومی اداروں کو پابند کیا جائے کہ وہ قومی اور کارپوریٹ ذمہ داری سمجھتے ہوئے ہاکی کی ٹیمیں بنائیں اور ہاکی سمیت دیگر کھیلوں کے فروغ کےلیے اپنے وسائل استعمال میں لائیں۔

سیاسی وابستگیوں سے پاک انتظامیہ

کسی بھی کھیل میں کامیاب نتائج کے حصول کےلیے جذبے اور مہارت کے ساتھ ساتھ بہترین اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر انتظامی منصوبہ بندی انتہائی ضروری ہے۔ ماضی قریب میں دیکھا گیا ہے کہ سیاسی وابستگیوں کی بنا پر ہاکی کا انتظام مخصوص افراد کے حوالے کردیا گیا جنہوں نے ہاکی کے ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ ضروری ہے کہ یہ ذمہ داریاں میرٹ پر صرف ہاکی کے تجربہ کار اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کے مالک عظیم کھلاڑیوں کے سپرد کی جائیں۔

مالی وسائل کی فراہمی

مالی آسودگی اور معاشی بےفکری کسی بھی کھلاڑی کےلیے نتائج کے حصول میں قوت متحرکہ کا کردار ادا کرتی ہے۔ قومی ٹیم کے کیمپ میں مدعو کھلاڑیوں کا روزینہ (ڈیلی الاؤنس) اور دیگر سہولیات عالمی معیار کے مطابق بنائے جائیں۔ قومی ہاکی کیمپ اور بعد ازاں ٹیم میں شامل ہونے والے ہونہار کھلاڑیوں کے ساتھ سالانہ مالی معاہدہ کیا جائے۔

کھلاڑیوں کا روزگار اور مستقبل

قومی کھلاڑیوں کے روزگار، انشورنس اور تاحیات مفت طبی امداد کا بندوبست کیا جائے۔

ہر اولمپیئن کو تاحیات انشورنس، مالی اعزازیہ اور مفت طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔
بیرون ملک پاکستانیوں کے ہاکی کلبوں کا دورہ پاکستان

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے کئی ممالک میں ہاکی کلب قائم کر رکھے ہیں اور وہ اپنے قومی کھیل سے محبت کا حق ادا کررہے ہیں۔ پی ایچ ایف کو چاہیے کہ ان کی حوصلہ افزائی کےلیے ان کلبوں کو پی ایس بی اور پی ایچ ایف کے مہمان کے طور پر دوروں پر بلایا جائے تاکہ بیرون ملک اور اندرون ملک ہاکی کے فروغ کےلیے کوشاں منتظمین میں روابط کو فروغ حاصل ہو۔

 

نچلی سطح پر اقدامات

اسکول ہاکی کی بحالی

لاہور کے قدیمی جعفرکپ کی طرز پر ہر ضلعے کی کسی نمایاں شخصیت کے نام پر ڈسٹرکٹ اسپورٹس آفیسرز اور ڈی سی اوز کے زیرِنگرانی یوم آزادی، 6 ستمبر اور یوم قائداعظم کے موقع پر انٹر اسکولز چیمپئنز ٹرافی وغیرہ منعقد کیے جائیں۔

ہاکی اکیڈمیز

ماضی میں منتظمین نے جن اکیڈمیز کا آغاز کیا وہ شدید انتظامی بحران کا شکار رہیں۔ ضروری ہے کہ ضلعی سطح پر اولمپیئنز کے نام پر اور اولمپیئنز کی نگرانی میں اکیڈمیاں بنائی جائیں۔ ان اکیڈمیز کے بین الاضلاعی مقابلے کرائے جائیں اور فاتح کھلاڑیوں اور نگران اولمپیئنز کو نقد انعامات سے نوازا جائے۔ ان اکیڈمیز میں کھلاڑیوں کی جدید خطوط پر جسمانی، نفسیاتی اور علمی تربیت کی جائے تاکہ جدید مقابلے کی فضا میں خود کو منواسکیں۔ ان اکیڈمیز میں سے نمایاں کھلاڑیوں کےلیے صوبائی سطح پر رہائشی و تعلیمی اکیڈمی قائم کی جائے جہاں کھلاڑیوں کو رہائش، تعلیم اور کھیل کی مفت تربیت کی سہولیات دی جائیں۔

جدت اور تنوع

جدید ہاکی کے ماحول سے خود کو ہم آہنگ کرنے کےلیے ضلعی اسپورٹس آفیسر کی وساطت سے اسٹیڈیم یا ضلعی اکیڈمی میں ماضی کے مقابلوں اور موجودہ تبدیلیوں کی ویڈیوز، جم ٹریننگ اور ریفریشر کورسز کو تربیت کا لازمی حصہ قرار دیا جائے۔

میدانوں کی فراہمی اور مالی وسائل

ہر ضلع اور میونسپل کمیٹی کی سطح پر ہاکی گراؤنڈ لازمی بنایا جائے اور میونسپل/ ضلعی انتظامیہ سالانہ بجٹ میں ہاکی کے فروغ کےلیے رقوم مختص کریں؛ جبکہ ہر ڈویژن کی سطح پر آسٹروٹرف بچھائی جائے۔

سامان کی قیمتیں

کھیلوں کی دیگر مصنوعات کی طرح ہاکی اسٹک، گیند اور گول کیپر پیڈز کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ اسکولوں اور اکیڈمیز میں کھیل کی یہ ضروریات مفت مہیا کی جائیں اور اس ضمن میں اسپانسرز تلاش کیے جائیں۔

ذرائع رسل و رسائل

ٹی وی اور اخبارات میں ہاکی کے مقابلوں اور مقابلوں سے قبل تشہیری مہمات کےلیے مددگار اداروں سے خصوصی معاملات طے کیے جائیں، بالخصوص قومی اداروں کو اس مہم کا حصہ بنایا جائے اور بتدریج نجی اداروں کو شامل کیا جائے تاکہ عوام اور طلبا کی سطح پر ہاکی کی اہمیت اجاگر کی جاسکے۔

خواتین ہاکی کی حوصلہ افزائی

ہاکی کو فروغ دینے کےلیے ضروری ہے کہ اسے پاکستان کا قومی کھیل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاندانی کھیل کے طور پر بھی متعارف کرایا جائے۔ اس مقصد کےلیے خواتین ہاکی کا فروغ ازحد ضروری ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر خواتین کے دیگر کھیلوں کے ساتھ ساتھ ہاکی کے شوق اور سرگرمیوں کو فروغ دے کر نہ صرف خواتین کی قومی ہاکی ٹیم کےلیے جوہرِ قابل تلاش کیا جاسکتا ہے بلکہ اس سے مردوں کی ہاکی کے فروغ کےلیے بھی دور رس نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مظہر سلیم حجازی

مظہر سلیم حجازی

بلاگر سعودی عرب میں مقیم ہیں اور بینکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ کالج کی سطح پر ہاکی کے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ آپ کی تحریریں مختلف مطبوعات میں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔