معاشی ترقی کی باتیں اور حقائق

ایڈیٹوریل  منگل 21 نومبر 2017
حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرناہے،وزیر اعظم فوٹو: فائل

حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرناہے،وزیر اعظم فوٹو: فائل

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے پیرکو کراچی میں پورٹ قاسم پر50کروڑ لاگت سے تیارہونے والے ایل این جی ٹرمینل کے افتتاح کے موقع پرمنعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نوید دی ہے کہ رواں سال پاکستان کی شرح نمو 5.3فیصد رہی،آیندہ سال یہ شرح6فیصدتک پہنچ جائے گی۔انھوں نے کہا کہ یہ سب کچھ لیڈر شپ کے ویژن اور ترقیاتی منصوبوں کی وقت پر تکمیل کے باعث ہوا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے عملی اقدامات کر رہے ہیں،  گیس سے چلنے والے3 بجلی گھر جلد کام شروع کریں گے۔

وزیراعظم پاکستان کی بات اعدادوشمار کے مطابق تو درست ہو سکتی ہے‘ کاغذات میں واقعی پاکستانی معیشت کی شرح نمو 5.3فیصد ہی رہی ہو گی اور آیندہ برس یہ شرح  6فیصد پہنچ جائے گی۔ معیشت کے بعض سیکٹرز میں بھی یقیناً ترقی کا عنصر نظر آ رہا ہو گا لیکن اگر ہم عام آدمی کی حالت زار کو دیکھیں تو صورت حال زیادہ اچھی نہیں ہے ۔ شہری مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی صورت حال خاصی خراب ہے‘ غربت کی لکیر سے نیچے بسنے والے طبقات کی تو بات ہی کیا کرنی۔ اسی طرح زرعی شعبہ پر نظرڈالی جائے گو چھوٹے کاشتکار کے حالات انتہائی خراب ہیں۔ 5سے 10ایکڑ زمین کے کاشتکار شہروں میں آ کر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ چھوٹے کسان کی خوشحالی کے لیے حکومتی سطح پر کچھ نہیں کیا جا رہا۔

چھوٹے کسان کو اپنی زمین کی آبپاشی کے لیے پانی بھی خریدنا پڑتا ہے‘ اسے دیگر زراعی مداخل بھی مہنگے داموں ملتے ہیں اور جب کوئی فصل تیار ہو جاتی ہے تو اسے اس کے مناسب دام نہیں ملتے۔ شہروں میں بیٹھے آڑھتی اس کی محنت سے اگائی ہوئی فصل کو اونے پونے داموں خرید لیتے ہیں اور پھر شہروں میں صارفین کو مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔ شہری ملازم پیشہ کلاس کی حالت بھی خراب ہے ۔ان کی آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا لیکن اخراجات ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیا کے دام مینوفیکچرز اپنی مرضی سے طے کرتے ہیں‘سبزیوں اور پھلوں کے دام آڑھتی طے کرتے ہیں ‘ایسی صورت میں عام آدمی کے پاس اشیا خریدنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہوتا۔ بے روز گاری دن بدن بڑھ رہی ہے۔ شہروں میں جرائم کی شرح بھی بڑھ رہی ہے جب کہ دیہاتوں کو جانے والی سڑکوں پر بھی رہزنی کی وارداتیں عام ہیں۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ بھی کہا کہ 2013میں جب حکومت سنبھالی تو ملک میں توانائی کا شدید بحران تھاجس پر قابو پانے کے لیے گیس کو نظام میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی، پاکستان گیس پورٹ کنسورشیم کے تعاون سے ٹرمینل لگایا، ایل این جی سب سے سستا ایندھن ہے، ہم مختلف ذرایع سے بجلی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے منصوبوں کو مکمل کیا جارہاہے، بجلی کی قلت کے باعث صارفین اور صنعتیں متاثرہورہی تھیں اورکھادفیکٹریوں اور گھریلو صارفین کو گیس کی کمی کا سامناتھا، دوسرے ایل این جی ٹرمینل کی تنصیب سے ہمیں وافر گیس مہیا ہو گی، ملک میں گیس سے بجلی پیدا کرنے والے مزید بجلی گھر بھی لگ رہے ہیں۔

انھوں نے کہاکہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں بلکہ ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرناہے، بجلی گھروں کی تکمیل سے توانائی کا بحران ختم ہوجائے گا، حکومت نے تاجروں اور صنعت کاروں کے ماحول دوست تجارتی پالیسی تیار کی ہے، تاجر اس پالیسی سے استفادہ کریں۔وزیراعظم کی ساری باتیں تھیوری کے اعتبار سے درست ہیں‘ بظاہر یہ بڑی خوش کن بات ہے کہ گیس وافر ہو رہی ہے اور بجلی کی کمی بھی پوری ہو جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سستی بھی ہو گی کیونکہ معیشت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ اگر توانائی سستی ہو گی تو مینوفیکچرز کی پیداواری لاگت کم ہو گی ‘پیداواری لاگت کم ہو گی تو اشیا کی قیمت کم ہو گی لیکن اگر توانائی مہنگی ہو گی تو پیداواری لاگت زیادہ ہو جائے گی جس سے چیزیں مہنگی بنیں گی۔

پاکستان میں گیس اور بجلی کے نرخ ابھی بھی زیادہ ہیں انھیں مزید کم کیا جانا چاہیے۔دوسری طرف یہ کہنا کہ حکومت کا کام کاروبار کرنا نہیں ہے بلکہ ریگولیٹری فریم ورک فراہم کرنا ‘اس حوالے سے حقیقت یہ ہے کہ اگر قوانین کا فائدہ صرف صنعتکاروں اور مینوفیکچرز کو پہنچنا ہے تو اس سے معاشی اعدادوشمار تو بہتر نظر آ سکتے ہیں لیکن عوام الناس کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔ عوام کو سہولت پہنچانے کے لیے ریاست کو بھی کئی شعبوں میں کاروباری کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔اگرپوری معیشت کو نجی شعبے کے حوالے کر دیا جائے گا تو پھر ایک مخصوص طبقے کی آمدنی میں تو اضافہ ہوتا جائے گا لیکن نہ ریاست کی مالی حالت بہتر ہو گی اور نہ ہی عوام کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔