حکمرانوں کی شاہ خرچیاں

علی احمد ڈھلوں  بدھ 22 نومبر 2017
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

آج دولت کی ہوس تیسری دنیا کے حکمرانوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، امیر سے امیر تر ہونے کی خواہش نے دنیا ئے عالم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔دنیا بھر میں کرپشن ہورہی ہے اور پاکستان میں تو اس نوعیت کی کرپشن ہورہی ہے کہ اس ملک کے مقتدر طبقے سرمایہ ملک سے باہر لے جارہے ہیں اور اس جواز یہ دیتے ہیں کہ اپنی نیک کمائی وہ جہاں چاہے لے جاسکتے ہیں ، یہ کوئی قانوناً جرم نہیں ۔ بہرحال وطن عزیز کی حالت یہ ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر نااہل بلکہ قوم دشمن حضرات براجمان ہیں۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں جعلی شناختی کارڈ بنے ہوئے ہیں۔

ان کارڈوں کی مدد سے جعلی بھرتیاں ہو چکی ہیں۔غیر ملکی پاکستانی بن چکے ہیں۔مجرم اور  دہشت گرد شرفاء میں شامل ہو گئے ہیں۔ سرکاری اداروں میں روز انہ کروڑوں کی کرپشن ہورہی ہے۔قیام پاکستان سے کر آج تک جاری کرپشن کے اس مکروہ کھیل کا نتیجہ دہشت گردی کی صورت میں قوم بھگت رہی ہے۔ اس کھیل کے نتیجہ میں ایک اور ظلم یہ ہورہا ہے کہ ملک کا اعلیٰ ترین اور قابل دماغ یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ طبقہ ڈاکٹر ، انجینئر ،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہر ، علم و ہنر کے اکثر درخشندہ ستارے جو پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہیں، ملک سے باہر جاکر خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ کلچر پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں فروغ پا رہا ہے۔

آپ فلپائن کے سابق صدر فرنینڈس مارکوس کی مثال لے لیجیے جس نے نے 1965 میں اقتدار سنبھالا اور 1986میں رخصت ہو گیا۔اس دوران مارکوس نے کرپشن کے کئی ریکارڈ توڑ کر تاریخ میں اپنا نام محفوظ کر لیا۔انڈونیشیا کے سابق صدر سوہارتو کی طرح موصوف بھی چند برس تک ملک سنوارنے میں مصروف رہے۔لیکن پھر پٹری سے اترے اور ایسے اُترے کہ کرپشن نے ’’انڈسٹری‘‘ کا درجہ اختیار کر لیا۔مارکوس نے اپنا اثرورسوخ بڑھانے اور اقتدار بحال رکھنے کے لیے پہلا کام یہ کیا کہ رشوت، دھونس اور دھمکی سے خوب کام لیا، بعد ازاں اس نے ارکانِ اسمبلی کی تجوریاں بھرنے کے بعد آئین میں تبدیلیاں کرائیں۔ لیکن آخر میں سب کچھ پکڑا گیا ، مگر وہ پھر بھی حیرت انگیز طریقے سے ’’بری‘‘ ہوگئے۔

اسی طرح ایک اوراہم حکمران زائرے (کانگو)کے جنرل ’’موبوتوسیکو‘‘ہیں۔موصوف ساڑھے اکتیس سال1965تا 1997 تک اپنے ملک میں حکمرانی کرتے رہے۔اس دوران موبوتو نے کرپشن کو ملک کا کلچر بنا دیا۔ رشوت لینا اور دینا ایک فن اور باقاعدہ نظام بن گیا۔اس نے 5ارب ڈالر سے زائد کی رقم جمع کر لی۔اس دوران امریکی جی جان سے اس کے حامی رہے ۔جنرل ثانی اباچا نائجیریاکا کرپٹ ترین حکمران رہا۔دورانِ اقتدار جنرل اور اس کے دوست،رشتے داروں نے کرپشن کے ہو ممکن طریقے  اپنائے اور ملک کو اربوں ڈالر سے محروم کر دیا۔

اباچا بھی انتخابات کے مسلسل وعدے کرتا رہامگر ایک بھی وعدہ ایفا نہ ہوا۔وہ تو قدرتِ الہیٰ نے اسے اپنے پاس بلا لیا ورنہ کیا عجب تھا کہ جنرل صاحب کرپٹ ترین حکمرانوں میں سرِفہرست آنے کا اعزاز پا لیتے۔ کرپشن کا ذکر ہو اور انڈونیشیا کے سابق حکمران جنرل سہارتو کا ذکر نہ آئے تو یہ سراسر زیادتی ہوگی۔ان کے دور میں قومی خزانے سے رقم لوٹنے کے نت نئے طریقے دریافت کیے گئے ، اداروں کا اپنے نام کرکے خوب پیسہ بٹورا گیا، مگر 1997 میں حکومت سے دستبرداری کے بعد سہارتو اور اس کے خاندان پر مقدمے چلے مگر انھوںنے لوٹ مار اتنی صفائی سے کی تھی کہ قانون ان کا بال بیکا بھی نہ کر سکا۔

اسی طرح سعودی خاندان کے شہزادوں کے قصے ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، بھارتی مشہور سیاسی خاندان ہوں یا بنگلہ دیشی وزیر اعظم کا خاندان کرپشن اور عیاشیوں کے نت نئے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ سربیا کا حکمران میلوشویج ہو یا، صدر ہیٹی، صدر پیرو ، وزیرِاعظم یوکرائن پالو راز رینکو، صدر نکاراگواآرنولڈواسیمان اور صدر فلپائن جوزف ایسٹرڈکرپشن اور عیاشیوں میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔

اگر پاکستانی حکمرانوں کی مثال لی تو انھوں نے کرپشن میں ایسا نام بنایا کہ دنیا کے کرپٹ حکمرانوں کو اپنی کرپشن بھی کم لگنے لگی، کسی نے سرے محل تعمیر کیا تو کسی نے جاتی امراء محل تعمیر کرایا، کسی نے دنیا کے مہنگے ترین لندن فلیٹس خریدے تو کسی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں قومی دولت کو محفوظ کیا۔ ہمارے سیاستدانوں کے خدمت کے اعلیٰ معیار مقرر کیے جو اُن کے اپنے خاندانوں تک قائم رہے۔ انھوں نے سب سے زیادہ خدمت اپنے اور اپنے خاندانوں کی۔ خصوصاًسابق صدر زرداری پاکستان کے امیر ترین شخصیت کہلائے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان کی دوسری امیر ترین شخصیت ہونے کے اعزاز کو گلے لگایا… شریف خاندان تو تیسری بار برسر اقتدار آیا مگر اس بار بھی انھوں نے کئی ریکارڈ قائم کر دیے تبھی تو آج احتساب عدالتیں ، سپریم کورٹ اور دیگر ادارے اس چھان بین میں لگے ہوئے ہیں کہ اس خاندان نے انتی دولت کہاں سے حاصل کی۔

پاکستان میں کرپشن تو ہے ہی ہے لیکن اختیارات کا ناجائز استعمال بھی تو کرپشن ہوتی ہے۔ہمارے ہاں جو حکمران بن جاتا ہے ، وہ اختیارات اور خزانے کا رخ اپنی طرف کرلیتا ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال کا یہاںذکر ضرور کرنا چاہوں گا کہ ہمارے پنجاب حکومت نے چند دن قبل جاتی امرا کی رہائش گاہ کو کیمپ آفس کا درجہ دے دیا ، اب چونکہ وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی سے پہلے ہوئی جاتی امرا پر سیکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کیے جارہے تھے، ان کی نااہلی کے بعد ایسا نہیں ہوسکتا تھا لیکن جاتی امرا کو کیمپ آفس کا درجہ دے کر سب کچھ ’’لیگل‘‘ کر دیا گیا ہے ۔

شور مچا تو چند گھنٹوں بعد نوٹیفکیشن واپس لے لیا گیا، سنا ہے اب  ’’کیمپ آفس ‘‘ کے کچھ حصے کو کیمپ آفس کا درجہ دینے پر غور ہورہا ہے تاکہ ’’سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘‘… اس کے علاوہ متعدد دفتر وزیراعلیٰ کے زیر استعمال ہیں۔ 7کلب روڈ سے لے کر 90 شاہراہ قائدِ اعظم اور سول سیکریٹریٹ تک۔ چند سالوں میں تین ارب سے زائد  روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ رواں سال ان دفتروں کے لیے پچاس کروڑ روپے مختص ہیں۔ بتائیے اس سے بہتر عوامی خدمت کی مثال کیا قائم ہو سکتی ہے؟

جب تک ہمارے حکمرانوں سرکار مال کو امانت نہیں سمجھتے، عوام یونہی خوار ہوتے رہیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والے دنوں میں ہونے والے الیکشن میں کسی کے جھانسے میں نہ آیا جائے اور اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیا جائے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔