یہ ایجنڈا کس کا ہے ؟

سعد اللہ جان برق  جمعرات 23 نومبر 2017
barq@email.com

[email protected]

ہمارے مدظلہ العالی حضرت مولانا قدس سرہ ہمارے نہایت فیورٹ لیڈر تھے بلکہ ہیں کیونکہ ان کے اندر جتنی خوبیاں کمالات اور ہنر مندیاں بھری ہوئی ہیں وہ باقی کے سارے لیڈروں میں آدھی بھی نہیں ہیں سترہ اٹھارہ سال مسلسل اقتدار میں رہنا اور کسی بھی لیڈر کو نصیب نہیں ہیں، بڑی اچھی باتیں کرتے ہیں زبان مبارک سے پھول جھڑتے ہیں۔

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں

یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں

حافظ شیرازی نے کہا ہے کہ تمام کی تمام خوبیاں ’’ اس میں ‘‘ موجود ہیں لیکن ’’ ستم ‘‘ اس لیے کرتے ہیں کہ کہیں نظر نہ لگ جائے اور ہمیں بھی اپنے ممدوح مدظلہ العالی پر کچھ ایسا شبہ ہونے لگا ہے کہ اپنا آپ نظر بد سے بچانے کے لیے کبھی کبھی کچھ نہ کچھ ایسا ارشاد فرما دیتے ہیں کہ کلیجہ شق اور پاش پاش ہو جاتا ہے وہ تو غالباً خود کو چشم بد سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں لیکن جن پر ستم ہوتا ہے وہ کبھی خود کو کبھی اپنے جلتے ہوئے گھر کو دیکھتے ہیں بقول شاعر تمہاری تو ایک ترچھی نظر تھی ڈال دی لیکن یہ نہیں دیکھا کہ کس پر کیا گزرگئی۔

ناوک انداز جدھر دیدۂ جاناں ہوں گے

نیم بسمل کہیں ہوں گے کہیں بے جاں ہو ں گے

یا

جان سے ہو گئے بدن خالی

جس طرف تونے آنکھ بھر دیکھا

فرماتے ہیں قبائل کا انضمام امریکی ایجنڈہ ہے۔ اگر واقعی یہ بقول حضرت امریکی ایجنڈا ہے تو اس کے لیے ہم امریکا کو سوخون معاف کر سکتے ہیں کیونکہ لگ بھگ سو کروڑ انسان اس اکیسویں صدی میں بھی انسان کے درجے سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں اگر ان انسانوں کو انسان بنانا امریکی ایجنڈا ہے لیکن ہمارا دل نہیں مانتا، امریکا سے کسی ایسی نیکی کا سرزد ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ حضرت اپنے تحفظات کو تحفظات دینے کے لیے امریکا کا نام لے رہے ہوں بلکہ اکثر لوگ تو تمام تحفظات کے بارے میں مکمل تحفظات رکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ حضرت اور  دیگر سیاستدان کس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں لیکن ہم حضرت سے اپنی عقیدت کے باعث کچھ ایسا ویسا نہیں سوچتے، عقیدت تو عقیدت ہوتی ہے اس لیے ہم اسے بھول چوک یا اداؤں کا ہی نام دیں گے ۔جہاں تک ایجنڈوں ، جھنڈوں ، ڈنڈوں اور فنڈوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے بلکہ کم بہت ہی کم بھی نہیں جانتے اس لیے اگر انھوں نے قبائل کے انضمام میں کوئی ’’ ایجنڈ‘‘ دیکھ لیا ہے تو یقینا کوئی نہ کوئی ایجنڈا ضرور ہوگا کیونکہ آج کل ایجنڈے تقریباً جھنڈوں سے بھی زیادہ جن کے نیچے ایک عدد ڈنڈا بھی ضرور ہوتا ہے جو جھنڈے کی کامیابی کے بعد استعمال کیا جاتا ہے۔

اگر مثال کی ضرورت پڑے تو ہاتھی کی مثال دی جاسکتی ہے کیونکہ سیاست بھی ہاتھی جیسی ہوتی ہے دکھانے کے دانت اور ہوتے ہیں اور کھانے کے دانت سخت پردے میں رکھتا ہے۔ سیاست میں بھی ’’ جھنڈا ‘‘ دکھانے کے لیے ہوتا ہے اور اس کا ڈنڈا چبانے یا برسانے کے لیے ہوتا ہے، اس کے بعد کہیں جاکر فنڈوں کی بات آتی ہے جو صرف چبانے کے لیے ہی ہوتے ہیں ۔لیکن ایجنڈے کا لفظ اتنا زیادہ مستعمل ہو رہا ہے کہ باقی ’’نڈوں ‘‘ کو پیچھے چھوڑ گیا ہے وجہ شاید یہ ہے کہ سب ’’ نڈوں ‘‘ کی پیدائش اسی سے ہوتی ہے

نشوونما ہے اصل سے غالب فروع کو

خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے

ایجنڈے اور تحفظات کے الفاظ پہلے بھی ڈکشنریوں اور زبانوں میں موجود تھے لیکن ہر دو الفاظ کی بے پناہ مقبولیت کا سہرا اگر کسی کے سر اقدس پر باندھا جا سکتا ہے تو وہ ہمارے ممدوح حضرت مدظلہ العالی قدس سرہ ہیں ،ان کی مثال ’’ کلونجی ‘‘ اور ’’ سفل جل ‘‘ سے دی جا سکتی ہے، ان کی شہرت کے لیے پاکستان کے حکماء مبارک باد کے مستحق ہیں۔

’’ ایجنڈے ‘‘ کی قبولیت عامہ کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ہمارے رشتہ داروں میں ایک سرداماد کے درمیان کچھ ان بن ہوگئی، بات کچھ نہیں تھی صرف داماد کو اچانک ڈھیر ساری دولت مل گئی تھی جس کی وجہ سے اسے داماد میں کیڑے نظر آنے لگے ۔ ہم نے دونوں کے درمیان مصالحت کرنے کے لیے کو شش کی، داماد کو سمجھایا کہ وہ تمہارا سسر بھی ہے اور ماموں بھی ۔ اس لیے بزرگ سمجھ کر رویہ رکھو۔ پھر دونوں کو ایک ساتھ بلایا، ماموں کو آنے میں دیر ہو گئی لیکن داماد نے آتے ہی ہم سے پوچھا بات چیت کا ایجنڈا کیا ہے۔

اس پر ہمیں طیش آیا اور اسے فوراً جانے کا کہہ دیا۔ ماموں اور سسر کے ساتھ داماد کی مصالحت میں ’’ ایجنڈا‘‘؟۔اس کے بعد ہم نے اس کا نام ہی ایجنڈا رکھ دیا جو اچھا خاصامشہور ہو گیا بلکہ اس سے پھیلتے پھیلتے دوسرے ایسے لوگوں تک بھی پھیل گیا جو ایجنڈے تھے ۔بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہم قبائل کے سلسلے میں حضرت مدظلہ العالی کے ایجنڈے کی بات کر رہے ہیں جو ان کے مطابق امریکی ایجنڈا ہے حالانکہ ہمارے خیال میں یہ خالص انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور ایسے محروم لوگوں کو حقوق دلوانا امریکی ایجنڈا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا اچھا خاصا سدھر گیا ہے۔اب بات صرف اتنی رہ گئی ہے کہ اگر قبائلی لوگوں کو انسانی حقوق دینا امریکی ایجنڈا ہے تو ان کو حقوق نہ دینا کس کا ایجنڈا ہے کیونکہ یہ بات تو حضرت بھی مانیں گے کہ قبائلی یا آزاد علاقہ میں پچاسی فیصد لوگ ایسے ہیں جو انسانوں سے بہت ہی کم اور جانوروں سے بہت زیادہ قریب سمجھے جاتے ہیں اور پندرہ فیصد وہ لاڈلے ہیں جو انسانوں سے بہت زیادہ کم بنے ہوئے ہیں۔ پتہ اب صرف کرنا ہے کہ یہ ایجنڈا کس کا ہے ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔