بازدید

رفیع الزمان زبیری  بدھ 22 نومبر 2017

ممتاز علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنی شخصی خاکوں کی کتاب ’’باز دید‘‘ میں ان ہستیوں سے ملاقات کرائی ہے جن سے کبھی نہ کبھی ان کا طویل یا مختصر رابطہ رہا ہے اور جنھوں نے ان کے دل پر کوئی تاثر چھوڑا ہے۔

وہ لکھتے ہیں ’’تاثر تاثر ہوتا ہے اور خالصتاً ذاتی۔ ایک ہی شخصیت مختلف لوگوں کے لیے مختلف ہو سکتی ہے، یہاں آپ ان لوگوں کو میرے روزن خیال سے دیکھیں گے۔‘‘

اختر شیرانی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خورشید رضوی کہتے ہیں کہ ان کی طبیعت میں بلاشبہ رومانیت کا وفور تھا اور ان کی عشقیہ شاعری کی برجستگی و بے ساختگی نوخیز دلوں میں اتر جانے کی صلاحیت رکھتی تھی تاہم ان کا محض ’’شاعرِ رومان‘‘ کی حیثیت سے جانا پہچانا ایک ادھورا تعارف ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا سے خورشید رضوی کی ملاقاتوں کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ لیکچرار کی حیثیت سے گورنمنٹ کالج سرگودھا پہنچے۔ یہ بائیس برس وہاں رہے اور اس دوران میں آغا صاحب سے ان کا تعلق قائم رہا۔ وہ لکھتے ہیں ’’آغا صاحب کی گفتگو میں مزاح اور دانش کا آمیزہ ملتا تھا، طنز ان کا شیوہ نہیں تھا۔ آغا صاحب کو علم کے تازہ آفاق سے بے حد شغف تھا۔ جدید نفسیات اور فزکس کے مباحث کے بین السطور انھیں شاعری ملتی تھی، چنانچہ ان کی نظموں کے پس منظر میں ان کی چاپ سنائی دیتی ہے، تاہم شاعری ان کی نگاہ میں ان علوم کی پیرو نہیں پیشرو تھی۔‘‘ ڈاکٹر خورشید رضوی بتاتے ہیں کہ صوفی ضیا الحق جو وزیر آغا کے استاد تھے، ایک دن باتوں باتوں میں ان سے کہنے لگے کہ مجھے یقین ہے ایک دن تم کتابیں لکھوگے۔ یاد رکھو، کتاب سے بڑی اور کوئی شے نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی کتاب کے ذریعے اپنی مخلوق سے رابطہ قائم کیا تھا۔ بس یہ جملہ ایک اشارہ بن کر وزیر آغا کے دل میں اتر گیا اور پھر اس کے جو نتائج نکلے وہ دنیا کے سامنے ہیں۔ علم دوستی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کا فروغ ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں ایک بنیادی جذبہ رہا۔

ڈاکٹر خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ چالیس سال کے عرصے میں احمد ندیم قاسمی سے پہلی ملاقات سے ان کے انتقال تک بارہا ان سے ملنے، ان کی محفل میں بیٹھنے، ان کی باتیں سننے کا موقعہ ملا مشاعروں میں ان کا کلام سننا اور ان کے اشعار کا حافظے میں جم جانا بھی یاد ہے اور بھی بہت سی تصویریں امڈی چلی آتی ہیں جنھیں بیان کرنا ایک تحریر میں ممکن نہیں۔ ہر تصویر گویا ایک متنوع اور دلکش شخصیت کی ایک قاش مہیا کرتی ہے اور ان قاشوں سے مل کر ایک بڑی تصویر بنتی ہے جو ذہانت، تخلیقیت، محنت، دیانت، انسانیت، رواداری و درد مندی، بذلہ سنجی اور رجائیت کے آمیزے سے عبارت ہے۔‘‘

خورشید رضوی لکھتے ہیں ’’عربی زبان و ادب سے میرا گہرا شغف دیکھ کر علامہ عبدالعزیز میمن مجھ پر خصوصی شفقت فرمانے لگے تھے۔ ان کی طبیعت میں سادگی، بے تکلفی اور فاصلہ نہ رکھنے کا جو انداز تھا اس نے مجھے جرأت دلائی اور قریب قریب روز ہی ان سے ملاقات رہنے لگی۔ صورت یہ تھی کہ شام کا کھانا کھا کر میں ان کے ہاں جا پہنچتا۔ وہ بھی سیر کے لیے تیار ہوتے۔ مجھے ہمراہ لے کر سڑک پر نکل آتے۔ آدھ پون گھنٹہ چہل قدمی رہتی جس کے دوران اپنے مخصوص انسائیکلو پیڈیائی انداز میں مختلف و متنوع موضوعات پر نہایت دلچسپ گفتگو فرماتے رہتے۔ کبھی استنبول اور مراکش کے کتب خانوں کی سیرکراتے، کبھی ڈاکٹر طہٰ حسین سے ملاقات کا حال سناتے، کبھی ہندوستان کے بعض عربی کتبوں کا ذکر کرتے جنھیں بڑی عرق ریزی سے انھوں نے پڑھ ڈالا تھا، کبھی عربی میں گفتگو شروع ہوجاتی ۔ ان صحبتوں کے نقوش آج تک محو نہیں ہوئے۔‘‘

اورینٹل کالج لاہور میں خورشید رضوی نے جب عربی میں ایم اے کرنے کے لیے داخلہ لیا تو ان کے ایک استاد پروفیسر عبدالقیوم تھے۔ خورشید لکھتے ہیں کہ جب وہ پڑھانے آتے تھے تو نظر کے چشمے کے پیچھے سے ان کی مسکراتی ہوئی آنکھیں شفقت بکھیرتی محسوس ہوتی تھیں۔ پروفیسر عبدالقیوم کی نظر کتابیات پر بہت گہری تھی۔ کسی بھی موضوع کو زیربحث لائیے وہ کھڑے کھڑے دس بیس قدیم و جدید مصادر بتا دیتے تھے۔ لائبریری میں وقت گزارنا بہت پسند کرتے تھے۔ طلبا سے فرمایا کرتے کہ لائبریری کثرت سے جایا کرو تاہم وہ محض کتابی آدمی نہیں تھے ان کی ذات اعلیٰ انسانی و اخلاقی اقدار کا مرقع تھی۔ وہ کشادہ دل، محبت بانٹنے والے انسان تھے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کے ایک بزرگ شناسا میر صاحب تھے۔ ایک روز انھوں نے یہ شعر سنایا۔

دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی

اس خرابے میں یہ دیوار کہاں سے آئی

یہ شعر ناصر کاظمی کا ہے جنھیں خورشید رضوی نے قریب سے دیکھا لیکن کہتے ہیں کہ ’’دیکھا‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ناصر کاظمی اس قدر عمیق اور تہ در تہ انسان تھے کہ انھیں ’’جاننے یا پہچاننے‘‘ کا دعویٰ ان کے قریبی دوستوں بلکہ خود شاید ناصرؔ کاظمی کے لیے بھی مشکل ہوگا۔ خورشید لکھتے ہیں ’’ان کی شخصیت میں سحر و اسرار کی ایک فضا تھی اور نگاہ میں طلسم بندی کی ایسی کیفیت کہ سامع خود کو بندھا ہوا محسوس کرنے لگے۔ اسرار و طلسم کی یہ فضا ان کے فن میں بھی نمایاں ہے۔‘‘

خورشید رضوی نے منیرؔ نیازی کو پہلی بار منٹمگری میں دیکھا اور سنا، پھر جب وہ لاہور آگئے تو منیرؔ نیازی سے ان کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’ بہت سے لوگ منیرؔ نیازی کو مغرور آدمی سمجھتے ہیں لیکن ان کی طرف سے کبھی ایسا رویہ میرے ذاتی تجربے میں نہیں آیا۔ وہ بنیادی طور پر ایک سادہ و صاف گو انسان ہیں۔ ادب و آداب، رکھ رکھاؤ اور مصلحت شناسی ان کے خمیر میں نہیں۔ شاعروں کو ان سے شکوہ رہتا کہ مشاعرے میں بہت بنے بیٹھے رہتے ہیں، کسی کو داد نہیں دیتے۔ نیازی صاحب اس کا سادہ سا سبب یہ بتاتے ہیں کہ ’’مینوں داد دین دا ول ای نئیں آؤندا‘‘ اور میرا خیال ہے کہ یہ درست ہے۔ لوگوں پر تبصرے کرتے رہنا اور دلچسپ فقرے چست کرتے رہنا نیازی صاحب کا دل پسند مشغلہ تھا۔ وہ خود کہتے تھے ’’مینوں بدخوئیاں دی عادت اے‘‘ ان کی فقرے بازی ادبی اعتبار سے تخلیقی مزاج رکھتی تھی اور اسی لیے ان کے فقرے مشہور اور مقبول ہوجاتے تھے۔ ‘‘

ڈاکٹر خورشید رضوی نے ’’باز دید‘‘ میں اپنی یادوں کے حوالے سے جن شخصیات کا ذکر کیا ہے ان میں اہل علم، اہل قلم، شاعر اور دوست سب ہی ہیں۔ انھوں نے ان کی شگفتہ انداز میں تصویر کشی کی ہے، ان کے فن اور شاعری پر تبصرہ بھی کیا ہے، روپ رنگ نمایاں کیے ہیں۔ خورشید رضوی شاعر ہے، شاعروں کے کلام کے نمونے بھی جا بجا ملتے ہیں۔ اچھے شعر تو یاد رہتے ہیں، انھیں کیوں نہ یاد رہتے۔ ان سے شخصیتوں کے نقش ابھر کر سامنے آتے ہیں۔

شہزادؔ احمد کا ذکر کرتے ہوئے خورشید رضوی لکھتے ہیں ’’شہزادؔ کی شخصیت کا ایک پہلو ان کی علم دوستی ہے جس کا پرتو ان کے فن پر بھی نظر آتا ہے۔ وہ فلسفہ و نفسیات میں باقاعدہ فارغ التحصیل تھے اور ان علوم کے مطالعے نے ان کے ہاں انسانی شخصیت کی بہت سی گہری اور باریک تہوں تک جھانک سکنے کی صلاحیت کو بہت جلا بخشی ہے۔ ایک یہ شعر ہی دیکھ لیجیے:

ذہن کے تاریک گوشوں سے اٹھی تھی ایک صدا

میں نے پوچھا کون ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں

مظفر علی سید کے بارے میں خورشید لکھتے ہیں ’’سید صاحب بہت متنوع طبیعت کے مالک تھے۔ انھوں نے بہت سے میدانوں کو ہاتھ لگا لگا کر چھوڑا۔ غزل کہی، دوہے لکھے، جدید مصوری پر اردو میں اولین قابل مضامین لکھے۔ انگریزی میں کالم نگاری کی، ترجمے کیے، ترجمے کے فن پر لکھا۔ کئی زبانوں کے ادب پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ بطور ناقد وہ بہت دو ٹوک اور صاف گو تھے اور علمی محاکمے میں وہ کسی رو رعایات کے قائل نہ تھے۔ وہ بہت تکمیل پسند واقع ہوئے تھے۔

خورشید لکھتے ہیں ’’مظفر علی سید کی علمی لگن آخری دم تک برقرار رہی۔ ان کی وسعت مطالعہ کے حوالے سے ڈاکٹر مظہر معین راوی ہیں کہ ایک موقع پر انھوں نے خود کہا کہ میری زندگی میں مطالعے کا ناغہ صرف تین دن ہوا ہے۔ ایک جس دن میری شادی ہوئی، دوسرے جس دن میری والدہ نے وفات پائی اور تیسرے جس روز میری اہلیہ کا انتقال ہوا اور کسی روز میرے مطالعے کا وقت چار گھنٹے سے کم نہیں رہا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔