کمزور جمہوریت

جاوید قاضی  بدھ 22 نومبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

سال 2018ء دہلیز پے دستک دے رہا ہے۔ چناؤکے زمانے آنے لگے، میاں صاحب عدالتوں کے چکر تو کاٹ رہے ہیں، ان کے ذہن کے ہرگوشے میں آنے والے انتخابات کے لیے ایک حکمت عملی ہے جو ترتیب دینی ہے۔

اس ملک خداداد میں جمہوریت اک نئے موڑ پر آکر کھڑی ہے۔ کون بنے گا وزیر اعظم؟ میاں صاحب کی پتنگ تو بوکاٹا ہوئی مگر ان کی خواہش ہے کہ ا ن کی جانشین وزیر اعظم بنے، مگر وقت بے رحم ہے وہ لیڈر بن کے فقط دو مہینوں میں ابھر توگئیں وہ کام جو بلاول چھ سال میں نہ کر سکے مگر مریم وزیراعظم نہیں بنیں گے، ان کے لیے Security Risk  جیسے نئے شکنجے جڑگئے ہیں اور وہ شاید نیب کے کیس میں بری بھی نہ ہوسکیں۔ ان کی پارٹی آیندہ چناؤ میں سادہ اکثریت بھی حاصل کر لے مگر وہ وزیر اعظم نہیں بنیں گی۔ خان صاحب 33 موجودہ نشستوں سے قومی اسمبلی میں دگنی کرکے 66 بھی کرلیں وہ وزیراعظم کے لیے NOC رکھتے بھی ہوں مگر سادہ اکثریت شاید نہ پاسکیں۔

دیکھیں تو سہی، جمہوریت کس دوراہے پے آکے کھڑی ہے۔ ایسے تو حالات 70ء کے زمانے میں بھی نہ تھے جب بھٹو مقبول لیڈر تھے نہ 88ء نہ اس کے بعد 2008ء کے انتخابات تک۔ مگر اس بار سندھ میں صرف وہی امیدوارکھڑے ہو سکتے ہیں جو جیت سکتے ہوں اپنے بازوئے شمشیر زن سے، ان کے پاس کروڑوں روپے ہوں جو وہ خرچ کرسکیں۔ اس دنگل میں چالیس سال بعد بھٹوزکا نام کافی نہ ہوگا،کافی کیا بلکہ بالکل نہ ہونے کے برابر، شاید کچھ حلقہ ہے عورتوں کا جو اب بھی تیرکو ووٹ دے گا۔ تیرکے پیچھے کون ہے اس بات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے۔ اس دفعہ سندھ میں پیپلز پارٹی بھٹوزکے نام کے بغیر میدان جنگ میں اترے گی۔ ووٹرز میں جو ایک پہچان تھی وہ چلی گئی۔ زرداری نہیں! نہ بھٹو نہ بینظیر واپس آئیں گے۔ سندھ نے بھٹوزکا قرض اتاردیا اور ان کی شہادتیں نیلام ہوئیں۔

غور سے دیکھیں آج کا زرداری اسٹیبلشمنٹ کو بہت لبھاتا ہے۔ ان کی کوشش بڑی ہے کہ ان سے علیک سلیک ہو۔ وہ 2015ء میں اینٹ سے اینٹ بجانے والا زرداری ۔کیا کرے۔ دھندہ بھی کرنا ہے اور سیاست بھی۔ یہ کام ذوالفقار علی بھٹو نہیں کرتے تھے۔  کراچی کی سیاست سے تشدد رخصت ہوا لیکن ووٹ مہاجرکے نام پر ہی ہوگا یعنی وہ کام جو باقی سندھ میں 70 سال میں نہ ہوا،کبھی بھی سندھیوں نے ٹھوس مڈل کلاس حیثیت میں ایک بھی نمایندہ نہ سندھ اسمبلی اور نہ قومی اسمبلی بھیجا مگر پھر بھی ان وڈیروں کی دنیا میں بھٹوز سندھ کے بیانیے کے بھی وارث تھے اور سندھ مجموعی طور پر وفاق میں رہتے قومی دھارے کا حصہ بنتے ہوئے جمہوری قوتوں کا حصہ تھا اور ایسی تحریک آمریت کے خلاف 1983ء میں لڑی جسکی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہے۔

کراچی میں ووٹ مہاجر کے نام پر تو ہوگا مگر لاکھوں ووٹ کی اکثریت سے جیتنا قصہ پارینہ ہوا۔ یہاں جو 2013ء میں دوسرے نمبر پر پارٹی ابھرکر سامنے آئی، پی ٹی آئی وہ اپنی حیثیت میں برقرار نہ رہی، ہوسکتا ہے پختونوں کا ووٹ انھیں زیادہ ملے۔ ہاں البتہ وہ کام جو سندھ میں ہوا کرتا تھا اس سے کچھ ملتا جلتا کام اب کی بار شاید سینٹرل پنجاب میں ہو۔ وہاں جیتنے والے کے پاس اپنے ووٹ تو ہونگے اسے پیسے بھی خرچ کرنے ہونگے مگر ہر حلقے میں ایک ووٹ نوازشریف کی ذات سے جڑا ہوا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اتنے برے دن میاں صاحب پر آئے لیکن ابھی تک پارٹی میں بغاوت نہیں ہوئی، بھلے پارٹی کے اندر کتنے ہی پیر زادہ بیان دیتے رہیں اور میاں صاحب کی خود اعتمادی بھی آپکے سامنے ہے مگر پنجاب ابھی تک اتنا نہیں بدلا جو وہ سندھ کا نعم البدل ہوسکے۔ ساؤتھ پنجاب تو بالکل ان جاگیرداروں کے پاس ہے وہ جس پارٹی میں جائیں، اس پارٹی کی جیت۔ آج کل عمران خان بلآخر تھک ہار کے ایسے لوگوں کے پاس ہی سندھ میں آئے جو جاگیرداری نسبت سے ہیں وہ پیسہ بھی رکھتے ہیں تو اپنے ذاتی ووٹ بھی۔ پہلے لیاقت جتوئی آئے اب سنا ہے ممتاز بھٹو بھی آگئے۔ اقتدار ان کا اوڑھنا بچھوڑنا ہے۔ آمریت اب ماضی بن چکی۔ ایک طرف زرداری کے پیچھے وڈیروں کا ٹولا ہے اور دوسری طرف ادھر ادھر بکھرے ہوئے ایسے لوگ ہیں جو پیسہ بھی رکھتے ہیں تو ذاتی ووٹ بھی۔ جو اب بھی زرداری کی Courage  ہے وہ یہ کہ اقتدار اس کے پاس ہے سندھ کا افسر شاہی یعنی پولیس پر اس کا ہی سکہ چلتا ہے چاہے اے ڈی خواجہ کو نہ ہٹائیں۔

ایک طرف Electable  ہیں جن پہ بیانیے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ برطانیہ کی جمہوریت میں ایسے شرفأ پارلیمینٹ کے ایوان بالا میں یعنی House of Lords  میں بٹھائے جاتے تھے اور جو عام چناؤ جس میں ووٹ نظریہ و سوچ کا متحمل تھا،کیونکہ برطانیہ کی مڈل کلاس صدیوں پہلے بن چکی تھی وہ ایوان زیریں House of Commons  میں اپنے چنے ہوئی نمایندے پہنچاتے تھے۔ سندھ ہے کہ مڈل کلاس بن ہی نہیں رہا۔ یہ وہ ہی سوال ہے جو شیخ مجیب نے میرے والد سے کیا تھا اور میرے والد نے یہ بات اپنی سوانح حیات میں رقم بھی کی ہے۔

یہ سندھ کے وڈیرے شیخ مجیب کے پاس بھی پہنچے تھے جب تک ان کو اس بات کی امید تھی کہ وہ وزیر اعظم بنیں گے اور علی احمد راشدی لکھتے ہیں جب پتہ چلا کہ بنگالیوں کے ساتھ دو دو ہاتھ ہوں گے تو سارے سندھ کے وڈیرے عوامی لیگ سے باہر اور رہا کون؟ میرے والد۔ 70ء کی دہائی میں بھٹوپنجاب کے بیانیے پر راج کرتے تھے اور پنجاب کے بیانیے پر مسئلہ کشمیر راج کرتا تھا۔ سندھ میں تو بھٹوکی سادہ اکثریت بھی نہ تھی یہ بھلا ہو نذر شاہ کا جو آزاد جیت کر آئے اور پھر ظفر شاہ جنہوں نے سندھ میں پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے میں مدد کی اور پھر 77ء کے انتخابات سارے وڈیرے بھٹو کے ساتھ ۔ بینظیر نے 85ء کی الیکشن میں بائیکاٹ کر کے ایسے ذاتی حیثیت میں جیت کر آنے والوں کے لیے راستے اورکشادہ کردیے۔ آمریت کو پنپنے کے لیے یہ ذاتی حیثیت میں جیتنے والے ایندھن ہوتے ہیں۔ کبھی یہ فنکشنل گروپ بناتے ہیں توکبھی کوئی اور۔ بیچارے زرداری کریں تو کیا کریں۔ جیسا دیس ویسا بھیس۔ عمران خان جو بھی ہیں اپنی کرپشن پر بنائے ہوئے بیانیے کا عکس ہیں۔ وہ جب کچھ مہینے پہلے اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے ’’زرداری میں تمھیں بھی نہیں چھوڑوں گا‘‘ یوں لگا وہ غلط کر رہے ہیں کیونکہ دو دو محاذوں پر نہیں لڑا جاتا، مگر خان صاحب کے سامنے اپنا ووٹر تھا وہ اس سے مخاطب تھے۔

اب آمریتیں تاریخ تو ہوئیں مگر جمہوریت بھی بہت کمزور ہے۔ اس کوکمزورکل بھٹو نے کیا تھا جب مشرقی پاکستان کا ووٹر بہت ہی سیاسی بلوغت کے بلند زینوں پہ کھڑا تھا اور مغربی پاکستان کا ووٹر اتنا پختہ نہ تھا۔ اس کے بعد خود میاں صاحب نے بھی جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔ بھٹو نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ نقصان پہنچایا تو میاں صاحب کی خود اعتمادی کچھ حد سے زیادہ ہے۔ جن پتوں پہ تکیہ تھا وہ پتے بھی ہوا دینے لگے۔ وہ سمجھے کہ بل کلنٹن کی طرح امریکا کی اسٹیبلشمنٹ پر آج بھی اثرو رسوخ رکھتے ہیں کہ سعودی عرب آئیگا اسے بچانے مگر کل جو سعودی سفیر نے پریس کانفرنس کی اس کی خبر میاں صاحب کو تو لگ گئی ہوگی۔

بنیادی مسئلہ ان نواب خاندانوں، وڈیروں شرفا کا نہیں ۔ بنیادی مسئلہ ہمارے ووٹرکی بلوغت کا ہے۔ جو غلامی میں رہتے ہیں وہ بھی اور جو بیانیے پر ووٹ دیتے ہیں وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارا بیانیہ بھی کوئی صحت مند نہیں ہے۔ کچھ تو ضیاء الحق نے اسے بگاڑا کچھ تاریخی اعتبار سے بگڑا ہوا تھا۔

عمران خان صاحب بیانیہ کے بل بوتے پر اگر لیڈر بن کر اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں نواب، خانزادوں، وڈیروں کے ساتھ رہنا ہوگا۔ہماری جمہوریت ووٹرکی بلوغت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور جب تک ووٹر بالغ نہیں ہوتا تب تک سول ملٹری تعلقات کا Pendulum  اسی طرح ڈولتا رہے گا۔ سو بار یہ ٹوٹے گا اور پھر یہ جڑے گا۔ کبھی ان پیروں کے پاس، کبھی ان پیروں کے پاس کبھی پیر پاگارو ہوں گے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تو کبھی آصف زرداری ہوں گے، کل بھٹو تھے، آج عمران خان، توکیا میاں نواز شریف نہیں تھے؟ یہ ہے ہماری جمہوریت اور اس کی کمزوریاں جو سماج کا عکس ہے اور ووٹرکی کمزوری کا رد عمل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔