کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنے والوں کے خلاف اعلان جہاد کرے؟

نور محمد سومرو  ہفتہ 9 مارچ 2013
متوفی امان رسول۔ فوٹو: فائل

متوفی امان رسول۔ فوٹو: فائل

رحیم یار خان: سود خوروں کے چنگل میں پھنسے نوجوان نے اپنے ہی پیٹ میں چھری مار کر زندگی کا خاتمہ کرلیا۔

خود تو شاید وہ دنیاوی مصائب سے نجات پا گیا لیکن ضعیف بیوہ ماں،چار معصوم بچوں اور جواں سال بیوی کو دنیا کے بے رحم تھپیڑوں کی نذر کر گیا‘ یہ افسوس ناک واقعہ رواں ہفتے ظاہر پیر کے علاقہ موضع کوٹ شاہاں بستی جڑ میں پیش آیا جہاں 28 سالہ کاشتکار امان رسول ولد عظیم بخش نے اپنے گھریلو حالات کو سنوارنے‘ بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور بیوہ ضعیف والدہ کو زندگی کی تمام آسائشیں پہنچانے کیلئے چاہ پتھو والا کے مقامی بااثر سود خور سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ روپے سود پر رقم لی ،سود خور کو ضمانت کے طور پر بلینک چیک دے رکھا تھا۔

ہر ماہ سود کی رقم ادا کرنے کے باوجود سود خور نے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر اس نے اصل رقم جلد واپس نہ کی تو بلینک چیک پر 30 لاکھ روپے کی رقم لکھ کر مقدمہ درج کرانے کے بعد اسے گرفتار کرا دے گا‘ گرفتاری اور سفید پوشی کا بھرم ٹوٹنے اور بدنامی کے خوف سے وہ سود خور کی منتیں کرکے مزید وقت لیتا رہا اس دوران مقامی بزرگ بااثر زمیندار نے سود خور اور امان رسول کے درمیان مصالحت کی کوشش کی جس پر امان رسول نے اپنی گنے کی فصل کی دو ٹرالیاں جن کی رقم ڈیڑھ لاکھ سے زائد بنتی تھی بزرگ بااثر زمیندار کے ذریعے شوگر ملز سے سود خور کو براہ راست ادائیگی بھی کروائی جس پر بزرگ زمیندار نے امان رسول کو کہا کہ 10 فروری 2013ء تک بقیہ رقم دے دینا میں تمہاری ضمانت دے رہا ہوں اپنی عزت کے ساتھ ساتھ میری عزت اور سفید بالوں کا خیال رکھنا۔

تاہم 10 فروری کو بقیہ رقم کا بندوبست نہ ہونے پر امان رسول نے اپنی اور بزرگ زمیندار کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے اس خوف سے اپنی جان دے دی کہ وہ وعدہ وفا نہ کرسکا تھا، وہ اپنے ضامن کا سامنا کیسے کرتا حالانکہ اس موقع پر اسے سوچنا چاہیے تھا کہ قانون یا ضامن کا سامنا نہ کرسکنے والا حرام موت گلے لگا کر اپنے خدا کا سامنا کیسے کر پائے گا‘ یہ متوفی امان رسول اور رب کائنات کا معاملہ ہے جس کا علم کسی انسان کو نہیں ہوسکتا تاہم ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قوانین اور ان پر عملدرآمد کروانے والے محکموں کو دیکھنا ہے کہ وہ پاکستان بھر میں پھیلے سود خوروں جو کہ صریحاً اللہ تعالیٰ کی حکم عدولی اور قانون کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں۔ ان کے خلاف آج تک کوئی موثر کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔

مسلم میں حضرت انس ؓ سے حدیث نبوی ؐروایت ہے کہ جس طرح قتل کرنے والے کی بخشش نہیں اسی طرح سود خور کی بخشش نہیں‘ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی ؐ نے فرمایا کہ سود خور بے شک میرا امتی ہو وہ میری شفاعت سے محروم ہوگا‘ اس طرح سود گناہ کبیرہ کے زمرے میں آتا ہے جبکہ حدیث نبوی ؐ ہے کہ جو رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان لائے گا اس کی بخشش کیلئے شفاعت فرمائیں گے جبکہ سود خور کو شفاعت سے محروم قرار دیا گیا ہے۔

سود خوروں کے چنگل میں پھنسے افراد آئے روز بوگس چیکوں کے مقدمات میں گرفتار ہو کر جیل جاتے ہیں اور خود کو بچانے کیلئے اپنا گھر بار عزت آبرو بھی دائو پر لگا دیتے ہیں۔

سود سے متعلق قانون کیا کہتا ہے؟  سود سے متعلق کئی  سالوں سے کام کرنے والے قانون دان عامر ندیم ایڈووکیٹ  نے بتایا کہ پنجاب اسمبلی سے 2007ء میں امتناع سود ایکٹ منظور ہوچکا ہے جس کے تحت سود پر قرض دینا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے‘ باقاعدہ مقدمہ درج ہوتا ہے اور دفعہ 3 امتناع سود ایکٹ کے تحت 10 سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے‘ یہ جرم ناقابل ضمانت ہے اور مجسٹریٹ درجہ اول کی عدالت اس مقدمہ کی سماعت کرتی ہے تاہم عوام الناس اس قانون سے لاعلم ہیں اور پولیس حکام بھی سود سے متعلق قوانین سے آگاہی نہیں رکھتے۔

ہر ضلعی پولیس میں سود سے متعلق ایک خصوصی سیل بنانے کی ضرورت ہے جہاں باصلاحیت اور سود سے متعلق قوانین سے واقف اور تفتیش میں مہارت رکھنے والے پولیس آفیسر تعینات ہوں کیونکہ سود خور اپنے نشانات کم ہی چھوڑتے ہیں‘ دستاویز سے زیادہ واقعاتی شہادتیں ہوتی ہیں جس پر تفتیش کی جاسکتی ہے‘ یہاں سود خوروں کے طریقہ واردات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے یہ لوگ بڑے ماہرانہ طریقے سے کام کرتے ہیں‘ قرض دیتے ہوئے یہ سود کا تناسب زبانی مبہم انداز سے قرض لینے والے کو بتاتے ہیں مجبور قرض لینے والے سے سفید اسٹام پر دستخط اور انگوٹھے لگوائے جاتے ہیں‘ خالی چیکس اور  پرونوٹ  کروالئے جاتے ہیں بعض اوقات جائیداد کی دستاویزات بھی گروی رکھ لی جاتی ہیں پھر اصل رقم کی ادائیگی کے بعد سود در سود  کا مکروہ چکر شروع ہوجاتا ہے۔

سود خوروں کی جمع تفریق بھی اپنی ہوتی ہے پہلے اصل رقم پر سود پھر سود کی رقم پر سود اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے‘ اکثر واقعات میں اصل رقم سے کئی گنا زیادہ رقم وصول کرنے کے باوجود بھی اصل رقم برقرار رہتی ہے‘ سود خور کمال کے نفسیات شناس ہوتے ہیں‘ قرض لینے والے کی مجبوری کی نوعیت اور اہمیت بھانپ کر سود کی شرح روزانہ بعض  ہفتہ وار اور اکثر ماہانہ بنیادوں پر طے کرتے ہیں‘ فوری بیماری‘ آپریشن یا دیگر صورتحال میں روزانہ کی بنیادوں پر بچی کی شادی‘ کاروبار میں فوری نقصان کیلئے کھاد‘ سپرے‘ بیج وغیرہ کیلئے ہفتہ کی بنیاد پر اور نئے کاروبار‘ مکان کی تعمیر یا کسی دوسری ذاتی ضرورت کیلئے ماہانہ بنیادوں پر سود کار ریٹ اور شرح طے ہوتی ہے۔ عدلیہ بحالی کے بعد سپریم کورٹ نے انصاف کی فراہمی کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کیا ،اگر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سود خوری کے قوانین پر عملدرآمد کیلئے نوٹس لیں تو پاکستان کے لاکھوں مجبور سود کے شکنجے میں پھنسنے والے افراد کیلئے وہ نوید سحر ثابت ہوسکتے ہیں۔

یہاں ہمیں اس بات کی فکر نہیں کرنی چاہیے کہ اب متوفی امان رسول کی اس بیوہ ماں کا سہارا کون بنے گا جس کا سہاگ بھی کئی سال پہلے اپنے خالق حقیقی سے جاملا ہے امان رسول کی بیوہ اور یتیم معصوم بچوں 8 سالہ محمد اسد‘ 6 سالہ محمد عثمان‘ 4 سالہ فلک شیر اور شیر خوار ڈیڑھ سالہ راحت رسول کہ جس نے ابھی تک اپنے مرحوم باپ کی گود کا لمس بھی پوری طرح محسوس نہ کیا ہے باپ کے سائے سے محروم یہ بچے بھی دنیا کے بے رحم تھپیڑوں کے ساتھ  روکھی سوکھی کھا کر کبھی ہنستے اور کبھی روتے ہوئے جوان ہو ہی جائیں گے کیونکہ پالنے والی میرے اللہ کی ذات ہے۔

ہمیں سوچنا ہے کہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں اور یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ سود خور خوف خدا‘ قبر اور روز محشر کے خوف سے از خود سود کا کاروبار چھوڑ دیں یا سود لینے والے اس راستے سے ہٹ جائیں یا پھر چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری‘ پارلیمان یا قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک سے سود کی لعنت کے مکمل خاتمے تک حرکت میں آجائیں‘ کوئی ہے جو اللہ اس کے رسولؐ اور قرآن کیخلاف اعلان جنگ کرنے والے سود خوروں کے خلاف اعلان جنگ کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔