سانس کی ڈور

شایان تمثیل  اتوار 10 مارچ 2013

گزشتہ کالم میں ہم نے رئیس امروہوی کی کتاب ’لے سانس بھی آہستہ‘ سے نفسیات ومابعد نفسیات سے متعلق بحث اقتباس کی تھی، جس کے کئی پہلو تشنہ رہ گئے تھے، موجودہ کالم میں ہم اس بحث کو مزید آگے بڑھائیں گے، ’مشق تنفس نور‘ کے سلسلے میں کئی ای میل اور خطوط موصول ہوئے، جن کا جواب دے دیا گیا ہے، قارئین نے یہ مشق کالم میں شائع کرنے کی درخواست کی ہے لیکن ہم یہاں تنفس نور کی مشق شائع کرنے سے کچھ خدشات کی بنا پر گریزاں ہیں، وجہ آپ کالم کے آخر میں جان لیں گے۔

نفسیات کا فن ذہن کے عمل سے بحث کرتا ہے، مختلف مہیجات و محرکات (ہیجان و حرکت میں لانے والی چیزیں) اور جذبات ذہن پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور اس اثر اندازی کے جواب میں ذہن کا ردعمل کیا ہوتا ہے اور کیوں ہوتا ہے؟ یہ تمام مباحث نفسیات سے تعلق رکھتے ہیں۔ جب علم النفس کا طالب جذبات و جبلت اور جبلی ردعمل کی بحث اور نظریات کے نیم تاریک جنگلوں سے گزر جاتا ہے تو مابعد النفسیات کے اسرار و رموز کی انجان دنیائیں شروع ہوتی ہیں۔ نفس انسانی کی ان اندھیری انجان اور پراسرار وادیوں کا سفر جتنا حیرت انگیز ہے اس سے زیادہ باعظمت اور شاندار بھی ہے۔

ماہ و مریخ کی تسخیر کے اس تعجب انگیز دور میں بھی انسانی دماغ قریب قریب نامعلوم براعظم کی حیثیت رکھتا ہے اور نفسیات سماجیات اور حیاتیات کے عالم اور محقق آج بھی اس ان دیکھی انجانی اور ان بوجھی دنیا (نفس انسانی) کی صرف چند بیرونی چوکیوں تک ہی پہنچ سکے ہیں۔ خلائی سائنسدانوں کو فضائے کائنات کے چپے چپے کے بارے میں کچھ نہ کچھ معلومات ضرور حاصل ہیں لیکن ذہنی حیثیت سے وہ خود کتنے گہرے، کتنے چوڑے اور کتنے لمبے ہیں یہ حقیقت ہنوز نظر سے اوجھل ہے۔ یوں دیکھنے میں تو آدمی کی حیثیت تودۂ خاک سے زیادہ نہیں لیکن اگر اس راکھ کے ڈھیر کو کریدا جائے تو پتہ چلے گا کہ کیسے کیسے نایاب موتی اور انمول جواہر خاک و دھول میں اٹے پڑے ہیں۔ آج ہم کردار سازی کے حوالے سے سانس کی اہمیت پر بات کریں گے۔

ذہن کو کنٹرول کرنے اور جذبات کی شدت پر قابو پانے کے لیے سانس کی مشقوں کی جو اس قدر سفارش کی جاتی ہے اس کا سبب یہی سائنسی نظریہ ہے کہ اگر ہم انفاس کی آمد و شد کو ارادے کے تحت لے آئیں تو رفتہ رفتہ اپنی ترقی پذیر قوت ارادی سے ہیجان جذبات پر بھی غالب آجائیں گے۔ نفسیاتی صحت مندی اور جذباتی بحالی کا انحصار اس بات پر ہے کہ شعور، لاشعور کو کنٹرول کرے، یعنی دل پر دماغ غالب رہے۔ سانس کی ترتیب و تنظیم سے یہی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مشقیں عام جسمانی صحت اور قدرتی تندرستی کو بحال کرنے کے سلسلے میں بھی بے حد مفید ہیں۔

جو لوگ پابندی سے یہ مشقیں کرتے ہیں ان کی اکثریت کو نمایاں جسمانی اور اعصابی فوائد کا احساس ہوتا ہے مثلاً معدے کی درستگی، کھل کر بھوک لگنا، قبض شکنی، ریاحی تکلیف سے افاقہ، سگریٹ اور الکوحل سے نفرت، جنسی قوت میں اضافہ، چہرے پر نکھار، آنکھوں میں چمک، آواز میں مٹھاس اور لطافت کا ظہور، سکون قلب، فرحت دماغ اور نشاط روح وغیرہ۔ بلاشبہ سانس کو کنٹرول کرنے کے معنی یہ ہیں کہ رفتہ رفتہ خودمختار اعصابی نظام کی حرکت کو مسخر کرلیا جائے اور خود مختار اعصابی نظام کی حرکت کو مسخر کرلینے سے جذبات، تخیلات، تاثرات، محسوسات غرض خیال، توجہ، حافظے اور تصور سب پر انسانی ارادہ حکمراں ہوجاتا ہے۔

نفسیاتی مریض ہمیشہ جذباتی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں، اسی جذباتی دباؤ کے نتیجے میں عصبی خلل (نیوراسز) یا نیورائیت پیدا ہوتی ہے۔ متواتر تجربوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ اس نیورائیت کا بہترین اور کامل علاج سانس کی مشقیں ہیں۔ جسم اور نفس کی صحت کے علاوہ یہ مشقیں روحانی ترقی کی سنگ بنیاد بھی ہیں۔ روح کی بیداری کی پہلی شرط یہ ہے کہ نفس کے منفی حصے (نفس امارہ، جو شر کی طرف لے جاتا ہے) کو فتح کیا جائے، اسی کو جہاد کہتے ہیں۔ اس جہاد نفس کا سب سے بڑا ہتھیار ’سلسلہ انفاس‘ کی تنظیم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیوں میں پاس انفاس، حبس دم، ذکر نفی و اثبات، سلطان الاذکار اور یوگیوں میں پرانایام (Pranayama) کو اتنی اہمیت دی جاتی ہے۔ سانس ہوا کی آمد و شد کا نام ہے اور ہوا روح حیات کی قاصد ہے۔

انسان میں روحانیت کی چنگاری اس وقت چمکی جب قدرت نے اپنی روح اس کے نتھنوں میں پھونکی اور دفعتاً مشت خاکستر، روحانی نور و شعور سے جگمگانے لگی۔ یہ کس قسم کی روح تھی، اس روح کی حقیقت کیا ہے؟ ہم اس بھید سے ناواقف ہیں۔ اس سلسلے میں انسان کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ لیکن سانس کی صورت میں ہوا سے جو روح ہم اپنے اندر کھینچتے ہیں یا ہوا جس روح کو ہمارے اندر برابر پھونکتی رہتی ہے اس کا بھید ان لوگوں کو ضرور معلوم ہے جو کائنات کے رموز پر غور کرنے کے عادی ہیں۔ بظاہر زندگی کا انحصار دو سانسوں پر ہے، ایک سانس وہ جو اندر کھینچا جائے اور دوسرا وہ جو باہر نکالا جائے، مگر ہوا گیس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

ہوا کی شکل میں جو گیس ہمارے اندر داخل اور خارج ہوتی ہے وہ بجائے خود زندگی نہیں بلکہ ’روح حیات‘ کا ایک مادی مظہر ہے اور بس۔ سانس کی تنظیم سے ہم اس روح حیات کی تنظیم کرتے ہیں جو کائنات کو زندہ اور تابندہ رکھتی ہے۔ جس چیز کو ذاتی کشش یا شخصی مقناطیسیت کہتے ہیں وہ بھی روح حیات ہی کی جاذبیت ہے۔ جس شخص میں جتنی روح حیات ہوگی اس کی شخصیت میں اتنی ہی کشش اور دلکشی پائی جائے گی۔ بعض شخصیتیں دوسروں کو مسحور کرلیتی ہیں، یہ جادو روح حیات ہی کے عمل سے بیدار ہوتا ہے۔

زندگی کے مختلف شعبوں میں جتنی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئی ہیں، خواہ ان کا تعلق مذہب سے ہو یا سیاست سے، سائنس سے ہو یا ادب سے، وہ سب کی سب روح حیات کا مکمل مظہر تھیں، اسی قوت کے بل پر انھوں نے لاکھوں انسانوں کو متاثر کیا، تاریخ کی رفتار کو بدل ڈالا اور ایسے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے کہ عام لوگ انھیں ’معجز نما‘ سمجھنے لگے۔ بعض لوگوں میں کسی قدرتی سبب سے خود بخود یہ روح حیات بیدار ہوجاتی ہے البتہ عام لوگوں کی اکثریت مشق تنفس، ارتکاز توجہ، روزہ، عبادت، وظائف، تسبیح و ذکر، محبت خالص، خدمت خلق، تطہیر نفس، تزکیہ اخلاق اور مراقبے وغیرہ کے ذریعے اس قوت کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔

لیکن یہ بات یاد رہے کہ باطنی قوتوں کی بیداری کا یہ عمل تدریجی طور پر کسی معلم اور استاد کی نگرانی میں ہونا چاہیے، ورنہ ہر سانس خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ایٹمی قوت جتنی عجیب ہے اتنی ہی مہیب بھی ہے، صرف تجربہ کار سائنس دان ہی ایٹمی قوت کے مناسب استعمال پر قادر ہوسکتے ہیں۔ یہاں ہر ہما شما کا کام نہیں۔ اس کائنات آفریں توانائی کا صحیح استعمال اگر بشر کو مافوق البشر بناسکتا ہے تو ذرا سی بے احتیاطی عارف و عاقل کو مجنوں و مجذوب کے درجے پر بھی گراسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔