یہ کیا مردانگی ہوئی…

شیریں حیدر  ہفتہ 9 مارچ 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کیسا غریب ملک ہے کہ جہاں گاڑیوں کا ہی کوئی شمار نہیں… گھنٹہ بھر ہونے کو آ رہا تھا اور پندرہ منٹ کا معمول کا فاصلہ نہ طے ہو پا رہا تھا، بمپر سے بمپر جڑے ہوئے تھے، ڈرائیور کافی دیر سے دائیں بائیں لین بدلنے کی کوشش کر رہا تھا اور بالآخر اس نے ایک گاڑی سے دوسری گاڑی کے درمیان چند انچ کا فاصلہ پا کر گاڑی اتنی تیزی سے بیچ میں گھسائی کہ اگر اس گاڑی کا ڈرائیور اپنی گاڑی کو بریک نہ لگاتا تو حادثہ یقینی تھا… میں نے ڈرائیور کو ڈانٹا کہ کیوں اس نے لین کی خلاف ورزی کی ہے۔

’’وہ جی ایک شارٹ کٹ جانتا ہوں، آگے سے دائیں مڑ کر آتا ہے،  کافی دیر سے اس لین میں جانے کی کوشش کر رہا تھا مگر جا نہیں پا رہا تھا… ایک بی بی ڈرائیور نظر آئیں تو اپنے استاد کی بات یاد آئی اور میں نے گاڑی اس لین میں ڈال دی…‘‘ اس نے وضاحت کی۔

’’کون سی اپنے استاد کی بات یاد آ گئی…‘‘ میں نے اپنے غصے پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔

’’وہ جی انھوں نے مجھے ڈرائیونگ سکھائی تھی…‘‘ اس نے مسکرا کر بتیسی دکھائی۔

’’اچھا… ڈرائیونگ سیکھی تھی تم نے… اور وہ بھی کسی استاد سے؟ میں تو سمجھی کہ تم پہلے موت کے کنویں میں گاڑی چلاتے تھے…‘‘ میں نے کہا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔

’’وہ جی استاد صاحب کہا کرتے تھے کہ جب گاڑی چلاتے ہوئے کوئی قانون توڑنا ہو، غلط لین بدلنی ہو، غلط مڑنا ہو، غلط اوورٹیک کرنا ہو تو ہمیشہ کمزور ڈرائیور کو دیکھا کرو… یعنی کہ عورت کو!‘‘

’’یہ تم سے کس نے کہا کہ عورتیں کمزور ڈرائیور ہوتی ہیں؟‘‘  میں نے سوال کیا۔

’’جی وہ اس طرح کمزورہوتی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ آپ کو ہارن بجا کرشرمندہ کریں گی مگر مردوں کی طرح باہر نکل کر لڑنا تو نہیں شروع کر دیں گی اور یوں بھی وہ ذرا گاڑی ڈر ڈر کر چلاتی ہیں، اپنی گاڑی کو بچانے کی فکر میں رہتی ہیں نا…‘‘ اس نے اپنی اس سوچ کی عکاسی کی جو صرف اس کی نہیں بلکہ مردوں کے اس معاشرے کی سوچ ہے… سڑک پر چلتی ہوئی گاڑی ہو یا زندگی کی گاڑی، وہ ہر وقت احتیاط برتتی رہتی ہے کہ کوئی نقصان نہ ہو جائے اور مرد اس کی اس احتیاط پسندی کو اس کی بزدلی سمجھ لیتا ہے۔ کہیں اس کی گاڑی اور کہیں اس کا گھر،  اس کی ساکھ، اس کے بچے اورکہیں اس کے خاندان کا نام داؤ پر لگ جاتا ہے اور وہ میرے ڈرائیور جیسی سوچ رکھنے والے ہر مرد کو راستہ دیتی چلی جاتی ہے۔

کہیں ذرا احتجاج رجسٹر کرانے کو ہارن بجا دیتی ہے… کہیں چار آنسو بہا کر صبر کر لیتی ہے کہ مردوں کے معاشرے میں اسے اس سے زیادہ حق ملتا ہی کہاں ہے۔ سچ کہتے ہو بھائی! گاڑی سے باہر نکل کر… سڑک پر تماشہ بنانا تو کجا وہ تو اپنے گھر کی چار دیواری میں بھی مردوں سے نہیں الجھ سکتی۔ اپنا آپ بھلا کر… مگر اس کا اپنا آپ ہوتا ہی کیا ہے… پیدائش سے لے کر موت تک وہ کیا ہوتی ہے؟عبدالقدوس کی بیٹی، عبداللہ کی بہن، عبدالرحیم کی بیوی، عبدالرحمن کی ماں، عبدالمقیت کی ساس، کسی کی نانی، کسی کی دادی!!! کوئی بات نہیں، مردوں کے ہر ہر حوالے پر وہ لاکھ بار قربان، یہ اس کے پیارے پیارے رشتے ہیں، اسے ان حوالوں سے پہچانے جانے پر کوئی اعتراض نہیں مگر کیا یہ رشتے اپنے نام کے علاوہ اسے مان بھی دیتے ہیں؟

کیا عبدالقدوس فخر سے کہتا ہے کہ حوا میری بیٹی ہے، کیا وہ اسے اتنا پیار کرتا ہے جتنا وہ اپنے بیٹے سے کرتا ہے، کیا وہ اسے اپنی جائیداد میں اس کا حصہ بلا تامل دیتا ہے؟ کیا عبداللہ بہن کو وہ عزت، وہ مان، وہ تحفظ دیتا ہے جو اس کا حق ہے؟ کیا عبدالرحیم بیوی کو پیار، چاردیواری، عزت دیتا ہے، کیا وہ کوئی کام اس لیے کرتا ہے کہ اس سے اس کی بیوی خوش ہو گی، کیا وہ اسے بات کا کریڈٹ دیتا ہے کہ وہ اس کی خوشی کے لیے خود کو اس کے سانچے میں ڈھال لیتی ہے، ایک خاندان چھوڑ کر اس کے خاندان میں رچ جاتی ہے، کیا وہ اس کے بدلے وہی محبت اس کے خاندان کو دیتا ہے، کیا وہ اس کے آرام کا اتنا خیال رکھتا ہے جتنا وہ اس کی آسائش اور خوشی کا رکھتی ہے؟

کیا عبدالرحمن جانتا ہے کہ اس کی ماں کے قدموں تلے جنت ہے جس نے اسے اپنے وجود میں سینچ کر، موت اور حیات کی جنگ میں جیتا… اسے قربانی کے جذبے کے ساتھ پروان چڑھایا، اسے اپنے سوکھے بستر پر سلا کر اس کے گیلے بستر پر جاگ کر کئی راتیں گزاریں، اس کی تکلیف پر خود تڑپ تڑپ گئی… پیٹ بھر کر کھانے کو نہ ہو تو وہ خود بھوکی پیاسی رہ کر بھی اپنی اولاد کا پیٹ بھرنے کو جتن کرتی رہی، اس کی زندگی کے ہر مشکل لمحے میں اس کی نیندیں حرام ہو گئیں اور اس نے اللہ کے ترلے کر کر کے اس کے لیے کامیابی کی دعائیں مانگیں، باہر گیا جب تک وہ لوٹ کر گھر نہ آتا وہ جلے پیر کی بلی کی طرح پھرتی اور اس کی عافیت کے لیے دامن پھیلاپھیلا کر دعائیں مانگتی…

کیا عبدالرحمن کبھی ماں کی تکلیف میں اس طرح تڑپ سکتا ہے، کیا وہ اس کی سلامتی، صحت اور عافیت کے لیے اس طرح رب سے گڑ گڑا کر دعائیں مانگ سکتا ہے…کیا وہ جانتا ہے کہ وہ اس ایک رات کے برابر عمر بھر مشقت نہیں کر سکتا جتنی اس کی ماں نے اس کی خاطر اس کی نوزائیدگی میں جاگ کر گزاری ہوگی۔  کیا اس کی کوئی بھی ریاضت، کوئی بھی قربانی اس کی ماں کی آنکھ سے بہنے والے اس آنسو کے برابر بھی ہو سکتی ہے جو اس کی ماں کی آنکھ سے اس کے لیے دعا مانگتے وقت ٹپکا ہو گا؟

وہ عورت… جسے ہمارا مذہب تکریم کے اعلیٰ درجوں پر گردانتا ہے، اسے ہمارے ہاں (بلکہ دنیا بھر میں) مردوں سے کم تر سمجھا جاتا ہے، اس کا ہر معاشرے میں استحصال ہوتا ہے، اس کی خدمات کو ہمیشہ نچلے درجوں میں گردانا جاتا ہے، اسے ہمیشہ کمتر مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ اس اسلامی معاشرے میں جتنی بھی قبیح  رسومات ہیں، وہ سب عورتوں کا استحصال کرتی ہیں خواہ وہ وٹہ سٹہ ہو، ونی، سوارہ، کاروکاری، جہیز نہ لانے پر جلا دیا جائے یا بیٹیاں پیدا کرنے کی پاداش میں اسے انعام میں طلاق یا سوتن دے دی جائے… آج بھی شادی کے وقت مہر مقرر کرتے وقت ’’شرعی‘‘ مہر مقرر کیا جاتا ہے اور اسے پانچ سو روپے کے عوض اپنے ماں باپ کے گھر سے سسرال کی کٹھن وادی میں ہجرت کا پروانہ مل جاتا ہے جہاں اگر اس کی قسمت اچھی ہو تو اس کی بے عزتی نہیں کی جاتی…(باقی مردوں کے اس معاشرے سے عزت کی توقع کرنا بھی دیوانے کا خواب ہے)

آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے… کیا دنیا میں مردوں کا کوئی عالمی دن بھی منایا جاتا ہے؟ نہیں نا!!! اس لیے کہ اس دنیا کا ہر دن مردوں کا دن ہے…عورتوں کو ایک دن عطا کر کے سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ ہے ہی اتنے کے قابل اور جانے کن ملکوں میں عورتوں کو اس دن کے آغاز پر گھر کے مرد بستر پر ناشتہ بنا کر دیتے ہیں… ہمارے ہاں کی عورت تو اس روز بھی مار کھا کر سوتی ہے اور ٹھڈا کھا کر جاگتی ہے… مشقت کی چکی میں اسی طرح پستی ہے، محنت کرتی ہے اور مزدوری بھی… اس کے لیے آٹھ مارچ کے سورج میں کچھ نیا نہیں ہوتا، اتنا بھی نہیں کہ اس روز اسے کوئی عورت تو کجا …انسان ہی سمجھ لے… عورت جسے کائنات کی بہترین تخلیق کہا جاتا ہے…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔