خواتین کا عالمی دن

رئیس فاطمہ  ہفتہ 9 مارچ 2013

خواتین کے عالمی دن کے موقعے پر میں اسلام آباد میں تھی، اکادمی ادبیات پاکستان نے بھی اس موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اس موقعے پر تقریبات اور سیمینار منعقد ہوئے۔ ٹی وی چینلز نے بھی رسم پوری کی اور اپنی من پسند خواتین کو ٹاک شوز میں بلایا، لیکن میں سوچتی ہوں کہ کیا بس اتنا کافی ہے؟ دیگر عالمی دنوں کی طرح ایک دن خواتین کے نام کر کے کیا یہ ذمے داری پوری ہو جاتی ہے؟

کیا گزشتہ سال کے مقابلے میں خواتین کے اغوا اور آبروریزی کے واقعات میں کوئی کمی آئی؟ مزدور عورتوں کی قسمت جاگی؟ سر راہ سبزی ترکاری فروخت کرنے والی عورتوں کے لیے کیا کوئی بازار مختص کیے گئے؟ عورتوں کے لیے ملازمتوں کے کوٹے میں کچھ اضافہ کیا گیا؟ کیا قبائلی اور جاگیرداری سسٹم میں عورتوں کے حقوق کی پاسبانی کی گئی؟ کیا کاروکاری اور ونی جیسی قبیح رسموں کا خاتمہ ہو سکا؟ کیا ایک مزدور عورت کو مرد مزدور کے برابر اجرت ملنا شروع ہوئی؟ حقیقت سے آنکھیں نہ چرائی جائیں تو یقیناً ان تمام سوالات کے جواب نفی میں ہوں گے۔

کیا اسمبلیوں میں خواتین کی نشستوں کا اضافہ ہونا ہی سب کچھ ہے؟ دراصل ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں عورتوں کے حقوق کی بات کرنا بڑی احمقانہ سی بات لگتی ہے۔ اسمبلیوں میں جانے والی خواتین کا کردار دیکھیے تو کسی نے بھی کوئی کام عورتوں کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جس طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں وہاں زندگی پھولوں کی سیج ہے۔ اسمبلی کی خواتین کا تعلق جن گھرانوں سے ہے وہاں یہ شعر صادق آتا ہے کہ:

غنچہ چٹکا تو کہا، سر میں دھمک ہوتی ہے

فرش مخمل پہ مرے پائوں چھلے جاتے ہیں

ہزاروں روپے کا میک اپ کروانے کے بعد جو خواتین اسمبلی کی نشستوں پر بیٹھتی ہیں، اس خدمت کا اعزاز یہ وصول کرتی ہیں، انھیں کیا معلوم کہ ایک عام پاکستانی عورت کا مسئلہ کیا ہے۔ ان کے پاس نہ ان حقائق اور مسائل کے اعداد و شمار موجود ہیں نہ ہی انھیں ان سے کوئی دلچسپی ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے خاندان اور ان کے اقتدار کو تقویت دینے کے علاوہ اپنی خاندانی سیٹوں کے تحفظ کے لیے اسمبلیوں میں لائی جاتی ہیں اور 96 فیصد خواتین کو ان کے والد، شوہر یا چچا، تایا، بھائی اور بیٹے پہلے ہی بتا دیتے ہیں کہ ان کا خواتین کی سیٹوں پہ براجمان ہونے کا مقصد کیا ہے؟ اس معاملے میں کوئی مثبت قدم اٹھائیں گی۔ تو وہ یوں ناکام رہتی ہیں کہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو بل اسمبلی میں پیش کریں گی وہ کثرت رائے سے مسترد ہو جائے گا۔ کیونکہ مسائل کا حل کسی کی ذمے داری نہیں ہے۔

گزشتہ سال بھی یہ دن منایا گیا تھا لیکن معزز ارکان اسمبلی ذرا یہ بتانا پسند کریں گی کہ کیا اس ایک سال میں اور گزشتہ پانچ سال کے دوران خواتین کے لیے کون کون سے انقلابی پروگرام شروع کیے گئے؟ اور تو سب چھوڑیے صرف چند ایک بنیادی باتوں کی طرف توجہ دلانا چاہتی ہوں۔ ذرائع آمد و رفت میں بسوں کی بڑی اہمیت ہے، ہمارے پاکستان میں پہلے پبلک بسوں اور بعد میں ویگنوں میں گزشتہ 65 سال سے صرف اگلی دو نشستیں خواتین کے لیے مختص ہوتی ہیں، جن پر صرف چار یا چھ خواتین بیٹھ سکتی ہیں، باقی کے مقدر میں کھڑے ہو کر جانا لکھا ہے اور زیادہ تر ان نشستوں پر بھی مرد قابض ہوتے ہیں جو خواتین کو کھڑا دیکھ کر بھی ڈھٹائی سے بیٹھے رہتے ہیں۔

پہلے پڑھے لکھے شہری حضرات ایسا نہیں کرتے تھے، وہ خواتین کی نشستوں پر بیٹھنے کا سوچتے بھی نہیں تھے، خواہ ان کی سیٹیں خالی ہی کیوں نہ جائیں، کراچی کے شہری ایسا ہی کرتے تھے، پھر ایوب خان کی بدولت جب قبائلی علاقوں کی یلغار شہر پر ہوئی تو ویگنوں کا عذاب بھی اس شہر پر نازل ہوا، جو اب تمام بڑے شہروں میں پھیل چکا ہے، قبائلی سسٹم میں عورت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ نسل انسانی کی افزائش کے لیے استعمال ہونے والی ایک جیتی جاگتی مشین ہے۔ لہٰذا پہلے تو خواتین کی نشستوں پر خود ٹرانسپورٹ مافیا نے مردوں کو بٹھانا شروع کیا کہ خالی سیٹیں لے جانا ان کے لیے خسارے کا سودا تھا اور اب جاہل، اجڈ، گنوار سے لے کر پڑھے لکھے افراد تک سب ہی خواتین کی نشستوں پر آرام سے بیٹھے رہتے ہیں۔

ڈرائیور مرد، کنڈیکٹر مرد، وہ بھی قبائلی اور وڈیرہ شاہی سسٹم کے پروردہ، ان کے لیے پیسہ اہم ہے نہ کہ خواتین کا احترام اور ان کا صنفی حق!! ہماری اسمبلی کی خواتین نے کبھی یہ بھی سوچا کہ وہ جس اسمبلی کی رکن ہونے کی حیثیت سے الائونس وصول کرتی ہیں تو کم از کم اتنا تو کریں کہ کوئی قانون پاس کروائیں اور نہ صرف یہ کہ بسوں اور ویگنوں میں نشستوں کی تعداد بڑھوائیں بلکہ ان کے پورشن اور مردانہ پورشن کو بالکل الگ الگ کر کے درمیانی راستہ بند کروا دیں، نیز یہ کہ اگر کوئی مرد خواتین کے حصے میں سفر کرتا پایا جائے تو جرمانہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر پر کیا جائے۔

ایک اور اہم مسئلہ ہے جس پر کبھی کسی خواتین کی تنظیم یا اسمبلی کی خواتین ارکان نے توجہ دینے کی ضرورت نہیں سمجھی وہ ہے ملک کے مختلف شہروں کی مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز میں خواتین کے لیے علیحدہ ٹوائلٹ کا بندوبست، یہ اتنی بڑی کمی ہے اور بنیادی ضرورت ہے کہ اس کے لیے مطالبہ کرنا بڑا عجیب لگتا ہے، لیکن افسوس کہ کبھی کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی، خواتین خریداری کے لیے نکلتی ہیں تو اکثر اوقات انھیں کئی کئی گھنٹوں باہر رہنا پڑتا ہے لیکن آس پاس خواتین کے لیے واش روم نظر نہیں آتا۔ کیا اس بنیادی ضرورت کی طرف کسی نے توجہ دی؟

ایک اور ضروری اور اہم مسئلہ یہ کہ ملازمت پیشہ خواتین اپنے چھوٹے اور شیر خوار بچوں کو کام کے دوران کہاں چھوڑیں؟ جوائنٹ فیملی میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا وہاں دادا، دادی یا کوئی اور فیملی ممبر با آسانی بچوں کو سنبھال لیتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ جس طرح رشتوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور مشترکہ نظام زندگی ٹوٹ رہا ہے، اس صورت میں حکومت کی جانب سے ایسے ’ڈے کیئر سینٹرز‘ بہت ضروری ہیں جہاں خواتین معقول معاوضے پر اپنے بچوں کو با اعتماد اداروں میں چھوڑ سکیں، بے شمار خواتین اس مسئلے سے دو چار ہیں، خاص کر وہ ورکنگ ویمن جن کی ڈیوٹی کے اوقات 9 سے شام 5 بجے تک ہوتے ہیں۔

یہ ورکنگ ویمن اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹاتی ہیں، ملک کی معیشت میں ایک اہم رول ادا کرتی ہیں، گھریلو ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ معاشی ذمے داریاں بھی پوری کرتی ہیں، لیکن بچوں کی وجہ سے مسلسل تنائو کا شکار رہتی ہیں۔ کیا یہ ریاست کی ذمے داری نہیں کہ وہ ایسے سینٹرز قائم کرے جہاں خواتین پورے اعتماد سے بچوں کو چھوڑ کر اپنی اپنی جاب پر جا سکیں اور دل جمعی سے اپنی دفتری ذمے داریاں پوری کریں؟

لیکن افسوس کہ یہاں ایسا کچھ نہیں۔ خدا جانے کیوں جمہوریت کی بے شمار برکتوں کی شان نزول کے باوجود کوئی رمق ان ملازمت پیشہ خواتین تک نہیں پہنچتی!! نہ ہی جمہوریت کی برکتوں کے لا تعداد ہونے کے باوجود بسوں اور ویگنوں میں ان کی نشستوں میں اضافہ ہوا۔ نہ ہی ان کے لیے بازاروں میں اور مارکیٹوں میں وا ش رومز بنائے گئے!! شاید جمہوریت کی برکتیں بھی صرف اہل اقتدار کے لیے ہیں، ارکان اسمبلی کے لیے ہیں، سرمایہ داروں اور صنعت کاروں کے لیے ہیں، کیونکہ یہ وہ طبقے ہیں جو جمہوریت کی برکتیں خرید سکتے ہیں۔ کاش اگلا 8 مارچ آنے سے پہلے یہ تین بنیادی مسائل ہی حل ہو جائیں، ان کے لیے نہ تو لمبے چوڑے منصوبوں کی ضرورت ہے، نہ ہی خطیر رقم کی۔ صرف اور صرف پلاننگ اور قانون پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔