شرک، گناہِ عظیم

رانا اعجاز حسین چوہان  جمعـء 24 نومبر 2017
افعال و اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

افعال و اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ فوٹو : فائل

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، یارسول اللہ ﷺ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے۔ آپ صلی اللہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ کہ تُو اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرائے، حالاں کہ اسی نے تجھ کو پیدا کیا ہے۔‘‘

اس حدیث میں بتا دیا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ شرک ہے، جس سے ہر انسان کو بچنا چاہیے۔ شرک کی مذمت قرآن مجید میں اکثر مقامات پر آئی ہے۔ شرک سے مراد اللہ پاک کے سوا کسی اور کو اللہ کے برابر یا اس کے مقابل سمجھنا ہے۔ جیسے نباتات اور جمادات کو معبود بنا لینا، برگد اور پیپل کے درخت کو اور مٹی و پتھر کی بے جان مورتیوں کو معبود بنالینا۔ یا کسی جانور کو اللہ کے برابر سمجھنا، یا کسی بیرونی طاقت کی پرستش کرنا جیسے چاند، سورج، ستارے وغیرہ یا کسی انسان کو اللہ کے برابر سمجھنا اور یہ خیال کرنا کہ ان کو بھی اللہ کے مانند انسانی زندگی پر کوئی اختیار ہے اور یہ بھی ہماری حاجات پوری کرسکتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہر شے کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، وہی ہماری زندگی موت، معاش و معاد، تقدیر و تدبیر، عقل و فہم، عزت و ذلت، دکھ سکھ، غرض سب پر مختار کُل ہے، وہی خالق ہے، وہی مالک ہے اسی کے حضور سب کو پیش ہونا ہے۔

حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس باتوں کی نصیحت کی ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ ’’ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کر، اگرچہ تُو مارا جائے یا جلایا جائے۔‘‘ اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ضروری دس نصیحتیں ارشاد فرمائی ہیں جن میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ خواہ توحید پرستی کی وجہ سے کتنی ہی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں، یہاں تک کہ کوئی مار ہی کیوں نہ ڈالے یا زندہ ہی کیوں نہ جلا دے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل جس قدر اللہ تعالیٰ کے نبی اور پیغمبر آئے سب نے اپنی قوموں کو شرک اور بت پرستی سے روکا، انہیں جہالت سے نکالا اور علم کا نور دیا، کفر کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کی روشنی دکھائی، معبود باطل کی پرستش کے بہ جائے ایک اللہ کی عبادت کرنے کی تلقین کی، انکار و سرکشی کی راہ سے ہٹا کر اطاعت اور فرماں برداری کی ہدایت کی۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک سب کے سب یہی تعلیم دیتے رہے کہ اللہ ایک ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ مانو، صرف اسی کو قادر مطلق، حاضر و ناظر، زندہ و قائم سمجھو، لیکن اکثر لوگ اپنے باپ دادا کی راہ چھوڑنے پر تیار نہ ہوئے، وہ برابر شرک اور بت پرستی کے باطل عقیدوں میں مبتلا رہے۔ بالآخر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اللہ ربّ العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید نازل فرمایا جو کتاب ہدایت ہے۔ آپؐ نے لوگوں کو گم راہی سے روکا، سیدھا راستہ دکھایا اور بت پرستی اجتناب کرنے کا حکم اور ایک ربّ کو ماننے پر زور دیا اور بتایا کہ تمام گناہ کچھ نہ کچھ سزا بھگتنے پر معاف ہوجائیں گے لیکن شرک کسی قیمت پر معاف نہیں کیا جائے گا۔

توحید پرستی پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے! اس لیے کہ انسانی زندگی کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے۔ اعلیٰ اخلاق، صالح اعمال، نیک اقوال اور منصفانہ معاملات صرف اسی عقیدے پر مبنی ہیں۔ نیکی کی جزا اور بدی کی سزا کا خیال اور مشکلات میں سہارے کی امید صرف اسی عقیدے پر قائم ہے۔

احسان کی طرف رغبت اور ظلم سے نفرت، آخرت کا خوف اور رحمت کی امید اسی عقیدے سے وابستہ ہے۔ آخرت میں سرخ روئی اور کام یابی اسی پر منحصر ہے۔ اگر یہ عقیدہ موجود نہ ہوتو دنیا فتنہ فساد، ہنگامہ و خون ریزی، خود غرضی، مطلب پرستی، لوٹ مار اور لڑائی جھگڑے کا گھر بن جائے۔ ان حالات کے پیش نظر توحید کا عقیدہ قائم رکھنا ضروری ہے۔ خواہ دین و ایمان کے دشمن توحید کے ماننے والوں کو سخت سزائیں کیوں نہ دیں، مار ڈالنے کی دھمکی دیں، آگ میں ڈال دیں، سلگتے ہوئے کوئلوں پر لٹا دیں، توحید کو چھوڑنا ہرگز جائز نہیں۔ کیوں کہ زندگی اسی سے قائم ہے لیکن اگر انسان کا ایمان نہیں اور ایمان کی بنیاد توحید پر نہیں تو زندگی کسی کام کی نہیں اور یہ آخرت میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔

بلاشبہ شرک تمام برائیوں کی جڑ، تمام گناہوں کا منبع اور تمام گم راہیوں کا آغاز ہے۔ اس سے انسان کے اعتقادات ناقص ہوجاتے ہیں۔ افعال و اعمال برباد ہوجاتے ہیں۔ اخلاق و اطوار گندے ہوجاتے اور زندگی غلاظت اور آلودگی میں غرق ہوجاتی ہے۔ انسان جب شرک کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے وہ ایک کشتی میں سوار ہونے کے بہ جائے کئی کشتیوں میں سوار ہو اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ہمیشہ ناپائیدار اور برباد کرنے والی ہوگی، اس سے پریشانیوں میں اضافہ ہوگا، زندگی اجیرن ہوجائے گی اور چین اور اطمینان اس سے دور بھاگے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اعتقادات اور اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ان میں کہیں شرک کا عنصر تو موجود نہیں تاکہ اس سب سے بڑے گناہ سے خود کو بچایا جاسکے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں تاحیات شرک سے محفوظ رکھے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔