کیا میاں صاحب ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں؟

اقبال خورشید  اتوار 26 نومبر 2017

’’جنگ اور محبت میں سب جائز ہونے کا فلسفہ جھوٹ ہے، صرف جائز ، جائز ہوتا ہے۔‘‘

یہ اُجلے الفاظ، جو ذہن کی کایا کلپ کر دیں، ایک قدیم اصول کا سحر توڑ ڈالیں، ڈاکٹر شاہ محمد مری ہیں۔ ایک طبیب کے، جو قلم اور نشتر، ہر دوسے بیماروں کو چنگا کرتا ہے۔شاہ محمد مری میرے لیے بلوچستان کی سمت کھلنے والا دروازہ ہے۔ورنہ میں بھی عرصے تک اِس زرخیز، قدیم تہذیبوں کے گہوارے سے بے خبر رہتا، گو مجھے آج بھی اس سے واقفیت کا دعویٰ نہیں۔ فقط مست توکلی اور گل خان نصیر نہیں، ہمیں تو شاہ عنایت اور سوبھو گیان چندانی سے بھی شاہ محمد مری نے متعارف کروایا۔ ساتھ ہاورڈفاسٹ کے لازوال ناول ’’اسپارٹکس ‘‘کا تحفہ دیا۔عابد میر سے ہمارے سمبندھ میں کچھ اثر شاہ محمد مری کا بھی ہے۔

تو شاہ محمد مری مجھ سمت ان سیکڑوں افراد کے لیے، جو بلوچستان کو اجنبی پاتے تھے، ایک دروازہ ہے، جس کے ذریعے ہم اس علاقے کو، وہاں کی تاریخ، مسائل، مطالبات کو کچھ حد تک سمجھ سکتے ہیں۔وہاں کا قبائلی نظام اپنی جگہ، سرداروں کا اثر و رسوخ تلخ حقیقت، مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہاں کے دانش وروں نے حق کا ساتھ دیا، اور قلم کاروں نے سچ کے لیے آواز اٹھائی۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد پاکستان میں کمیونسٹ نظریات کمزور ہوئے، مگرقوم پرستی کے اشتراک سے اُن نظریات کو کچھ زندگی ملی،تو کچھ کردار اُس میں سندھی اور بلوچ دانش وروں کا بھی تھا۔المیہ یہ ہے کہ موجودہ بلوچستان میں علمی و ادبی طبقات غیرمتعلقہ ہوتے جارہے ہیں یا ہو چکے ہیں، مقابلہ ریاست اور ان کے درمیان ہے، جو پہاڑوں پر بیٹھے ہیں۔

گذشتہ دنوں تربت میں محنت کشوں کے قتل کا لرزہ خیز واقعہ پیش آیا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، ماضی میں بھی سیٹلرز کے قتل کے واقعات بلوچستان میں پیش آتے رہے ہیں۔ ہزارہ برادری کی ٹارگیٹ کلنگ اور دہشت گرد حملوں میں کمی ضرور آئی ہے، مگر یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔گوہم بلوچستان کے عسکری اور سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے بہتری اور ترقی کے دعووں کو بے بنیاد نہیں ٹھہرا سکتے،مگر یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ مطلوبہ ٹارگیٹ حاصل کر لیا گیا ہے۔ بلوچستان کا مسئلہ تاریخی پس منظر رکھتا ہے، یہ اندازوں سے زیادہ گہرا اور پرپیچ ہے، اس سے نمٹنے کا موثر ترین ذریعہ مذاکرات ہیں۔ البتہ وہ قوتیں، جو پاکستان کے آئین کے خلاف ہیں ، اور ریاست سے برسرپیکار ہیں، وہ چاہے کراچی میں ہوں، پشاور میں یا کوئٹہ، ان کا قلع قمع کرنا ریاست کی ذمے داری ہے۔

ہاں،تربت واقعے کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ اِسے ایک خاص تناظر میں دیکھا اور پیش کیاگیا۔ پنجاب میںسخت عوامی ردعمل آیا۔ پندرہ افراد کے قتل کے چند روز بعد یونس توکلی کی ہلاکت کے دعوے کو دیکھتے ہوئے یہ واضح نظر آرہا ہے کہ مستقبل میں بلوچستان میں جاری آپریشن میں تیزی آئے گی۔سول اور عسکری قیادت کی جانب سے اہم ملاقاتیں اور فیصلے متوقع ہیں۔

جنگ اور محبت میں سب جائز ہونے کا فلسفہ جھوٹ ہے۔ عام شہریوں اور بے گناہوں کے قتل عام کا کوئی جواز نہیں تراشا جاسکتا۔ اِسی ہولناک فعل کے باعث ٹی ٹی پی نے خیبرپختون خوامیں اپنی حمایت کھو دی تھی،اور عمران خان کو ان کے حق میں دیے جانے والے غیرضروری بیانات سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ڈاکٹر اللہ نذر کی بیوی بچوں کی رہائی کے چند روز بعد پیش آنے والا یہ ہول ناک واقعہ کیا بلوچستان کی سیاست میں ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا؟ اِس بابت کچھ کہنا یوں دشوار کہ وفاق کے لیے بلوچستان آج بھی ایک کم حیثیت،بے زار کن خطہ ہے، ٹھیک کراچی کے مانند۔اور پھر وفاق کی اپنی کئی الجھنیں ہیں۔ اِس وقت دارالحکومت ایک دھرنے کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔

کچھ برس قبل بھی ادھر ایک بڑا دھرنا ہوا تھا، تب تومعاملہ سیاسی تھا۔ اِس بار ایک مذہبی جماعت، سیاست کا چولا پہنے ، اپنے مطالبات منوانے سڑک پر بیٹھی تھی۔راقم الحروف سمیت جن تجزیہ کاروں اور کالم نویسوں نے خان کو اُس وقت رعایت دی تھی، اُنھیں اب تسلیم کر لینا چاہیے کہ اُنھوں نے اپنے قلم کا وزن غلط پلڑے میں ڈالا تھا۔خیر، یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ اِس وقت اسلام آباد میں آپریشن جاری ہے، جس کا ردعمل ہمیں لاہور اور کراچی میں بھی دکھائی دے رہا ہے۔ اس مسئلے کے حل میں تاخیر سے حکومت کی امیج کو خاصی ٹھیس پہنچی۔ خدشہ ہے، آپریشن اس میں اضافے کا سبب نہ بن جائے۔ یوں بھی گذشتہ چند ماہ میں حکومت کی انا اتنی بار مجروح ہوچکی ہے کہ اب اس ضمن میں کسی سخت گیر موقف کی کوئی گنجایش نہیں بچی تھی۔

اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے بعد آصف علی زرداری سے ملاقات ملتوی کرنے والے میاں صاحب آج ان سے غیرمشروط طور پر ہاتھ ملانے کو تیار ہیں،تو اس کی وجہ ہے۔ اُن کے لیے رائے عامہ ہم وار کرنے والے کالم نویس بھی بلاول بھٹو کو مشورہ دے چکے ہیں کہ جمہوریت کے لیے وہ میمو کیس میں میاں صاحب کے کالے کوٹ پہننے اور یوسف رضا گیلانی کو برطرف کروانے کے اقدامات کو معاف کر دیں۔ اچھا،اِس فہرست میں افتخار چوہدری کو بحالی کی’’ خطا ‘‘بھی شامل کر لیجیے۔

ہمارے نزدیک آج جس اعتماد، قوت اور اتھارٹی کے ساتھ عدلیہ میاں صاحب کے مقدمات میں فیصلے سنا رہی ہے، اُس کی ’’تعمیر و ترقی ‘‘میں میاں صاحب نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔ سابق وزیر اعظیم کو نااہلی کے بعد پارٹی کے اندر اور باہر، دونوں محاذوں پر سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شہباز شریف کو قیادت سونپنے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم لگا کر اِس پرقوت مطالبے سے جان چھڑائی گئی۔ مریم نواز کی شبیہ جانشین کے طور پر ابھرنے لگی۔ پارٹی پر گرفت رکھنے کے لیے نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کا بل بھی پاس کروا لیا۔

گذشتہ دنوں جب پارلیمنٹ میں اس کی مخالفت میں بل پیش ہوا، تو اکثریتی ووٹوں سے اُسے رد کروا کربہ ظاہر اپنے مخالفین کو خاک چٹا دی، اور عاصمہ جہانگیر سمیت کئی روشن خیال طبقات سے داد سمیٹ لی، مگر ان اقدامات کی افادیت کا، پارٹی پرمیاں نواز شریف کی گرفت اور پنجاب میں ان کی مقبولیت کا اصل کا اندازہ نگراں سیٹ اپ کے بعد ہی ہوگا۔پنجاب کے ووٹرز کی اکثریت کے لیے اداروں سے تصادم کا تصویر کبھی دل پذیر نہیں رہا۔ پھرپارٹی میں توڑ پھوڑ کا تصور خیالی نہیں، حقیقی ہے۔

میاں صاحب نے نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے پر پابندی کا بل تو مسترد کروا دیا، مگر فضل الرحمان، اعجاز الحق اور اچکزئی جیسے اتحاد ی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ ظفر اللہ جمالی نے حق میں ووٹ دیا، اور 22 ارکان غیر حاضر رہے۔ ن لیگ کے چند ارکان ’’اشارے‘‘ کے منتظر ہیں، ڈوبتی کشتی سے اُن کا کودنا فطری ہے۔ یہ ق لیگ کی کشتی سے کو د کر ہی ن لیگ میں آئے تھے۔ قیادت اپنے پاس رکھ کر، اپنی اولاد کو جانشین کے طور پر پیش کرکے اور نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کی سہولت پیدا کرکے جو فتوحات میاں صاحب نے حاصل کی ہیں،اگر وہ ایک بڑی شکست پر منتج ہوں، تو اس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

کیوں کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہونے کا فلسفہ جھوٹ ہے، صرف جائز ، جائز ہوتا ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔