صدا کا قحط پڑے گا تو ہم ہی بولیں گے

شاہد سردار  اتوار 26 نومبر 2017

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کے عوام مناسب روزگار نہ ہونے اور سیاسی عدم استحکام کی موجودہ صورتحال کے باعث پہلے ہی سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایسے حالات میں پٹرولیم مصنوعات کی نرخوں میں اضافے سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے اور اس سے تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔

پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر دالیں، سبزیاں اور دیگر اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھانا صریحاً غلط ہے۔ بالخصوص اس لیے کہ جب پٹرولیم مصنوعات کے نرخ کم کیے جاتے ہیں تو دیگر اشیا کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

مارچ میں وفاقی وزیر نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے پیسوں کا عنصر نکال دینے کا اعلان کیا تھا اور دو تین ماہ ایسا کیا بھی گیا لیکن یہ سلسلہ پھر شروع کردیاگیا ہے جس کے تحت اکثر صارفین زیادہ پیسے دینے پر مجبور کردیے جاتے ہیں اور اس رجحان سے پٹرول پمپ مالکان جو روزانہ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لیٹر آئل، ڈیزل، مٹی کا تیل یا پٹرول فروخت کرتے ہیں مزید اضافی منافع کماتے ہیں۔ لہٰذا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں سے پیسوں کا عنصر ختم کرنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔

عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ردوبدل کے پیش نظر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کے لیے ناگزیر سہی لیکن پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ قابل قبول نہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے پالیسی مرتب کرتے ہوئے اپنے پرائس کنٹرول نظام کے ذریعے ہوشربا مہنگائی کو قابو میں رکھنے کا موثر اہتمام ہونا چاہیے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک فی صد آبادی کے پاس اتنی ہی دولت ہے جتنی باقی 99 فی صد کے پاس۔ لیکن ہمارے ملک میں اس فرق کی نوعیت الگ ہے۔ وطن عزیز میں سیاست اور اقتدار پر ہمیشہ سے صرف امیروں کا قبضہ رہا ہے ہماری جمہوریت عوام نہیں بلکہ امیروں کے مفاد کا تحفظ کرتی ہے، ہم سے چھوٹے چھوٹے ممالک ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے یا دنیا کے نقشے پر اپنا آپ منوانے والے کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ ہر چیر ان کی دسترس میں ہے لیکن یہاں ایک عام آدمی کا جسم و جاں سے رشتہ استوار رکھنا اب بس سے باہر ہوچکا ہے۔

نتیجے میں خودکشیاں اور جرائم عام ہوچکے ہیں اور معاشرے کا تقریباً ہر عام آدمی شکل سے بد شکل ہوگیا ہے۔ مہنگائی، کسمپرسی نے اسے ذہنی مریض بنادیا ہے اور وہ ہنسنا تو دور کی بات مسکرانا بھی بھول گیا ہے۔ مغربی ممالک میں تقریباً ہر چہرہ آپ کو دیکھ کر ہلکا سا مسکراتا نظر آئے گا لیکن ہمارا معاشرہ مسکراہٹ سے یکسر عاری ہوکر کرخت شکل اختیار کرکے سب کے سامنے آچکا ہے۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ مسکراہٹ انسان کی آنکھوں کو لبھاتی اور تسکین دیتی ہے، خوش اخلاقی کا تاثر دیتی ہے اورخوش اخلاقی انسان میں خوشی اور مسرت کے جذبات ابھارتی ہے۔

اسی لیے ہمارے دین میں حسن اخلاق پر بڑا زور دیاگیا ہے اور مسکراکر ملنے کو نیکی اور صدقہ قرار دیاگیا ہے۔ افسوس، صد افسوس ہم مسلمان اتنی آسان نیکی کے ثواب سے محروم ہوچکے ہیں۔ ملکی منظر نامے پر ہر طرف پھیلی ہوئی بیزاری بلکہ آدم بیزاری چہروں پر کرختگی، سختی، غصہ یا لا تعلقی نے پورے ماحول کو بیزار اورگھٹن زدہ بنا رکھا ہے۔ انسانی محبت، احترام، ہمدردی، خوش اخلاقی ہمارے مذہبی دینی ورثے تھے، افسوس اغیار نے اسے اپنالیا ہے اور ہم اسے سالہا سال ہوئے ترک کرچکے ہیں۔

سفر کچھوے کی رفتار سے بھی ہو تو مسافر روتا پیٹتا، ہانپتا کانپتا، رینگتا گھستا منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے لیکن دائروں میں سفر کرنے والوں کو منزل کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ بد قسمتی سے ہم 70 سال سے دائرے کے مسافر ہیں۔ ایک جیسی غلطیاں پے در پے کرتے چلے جانے کے باوجود سبق سیکھنے سے عاری ہم عجیب لوگ ہیں جو تلخ تجربوں سے بھی کچھ نہیں سیکھتے۔ ایک دوسرے سے جھوٹ بول کر ہم پاکستان اور اس کے اداروں کی کوئی خدمت نہیں کررہے۔

کسی انگریز نے پوچھا کہ پاکستان کے موسم کیسے ہوتے ہیں؟ اسے بتایاگیا کہ سال کے بارہ مہینوں میں آٹھ مہینے گرمیوں کے ہوتے ہیں اور چار مہینے بہت زیادہ سردیوں کے۔ ویسے بھی ہمارے سردیوں کے مہینے اتنے مختصر اور اس قدر کمزور ہوتے ہیں کہ انگریزوں کی گرمیاں ان کے مقابلے میں کمزور محسوس ہوتی ہیں۔ ملک کا غریب طبقہ جو اکثریت میں ہے سردیوں سے بچنے کے لیے امیر ملکوں کے لوگوں کی اترن میں اپنا جسم چھپانے پر مجبور ہیں۔

آج تک قوم پر مسلط ہونے والی تمام قوتیں اپنے ملک میں غربت ختم کرنے اور خوشحالی کو فروغ دینے کے وعدے یا وعدے کرتی ہیں و وہ آسانی سے بھول جاتی ہیں۔ چنانچہ ہر حکومت کے بعد نئی حکومت کے لیے غربت کا رقبہ پہلے سے زیادہ ہوجاتا ہے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے فوجی بھی غربت میں کوئی کمی لانے میں کامیاب نہیں ہوئے جب کہ ان کی حکومتوں کا مجموعی عرصہ سول حکومتوں سے زیادہ نہیں تو برابر ضرور ہے۔ در اصل حکومتوں کی وعدے خلافیوں اور عوامی اصلاحات کے نہ کیے جانے سے سے عوام یا رعایا کے اعتبار کو متاثر کیاہے اس لیے ہر حکومت کے نئے وعدے کرنے والی حکومت کے اعتبار اور اعتماد میں بہت زیادہ کمی ہورہی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں غریب اور امیر طبقوں میں انصاف کو رواج دینے کی ضرورت مسلم ہے وگرنہ ملک میں خونی انقلاب آنے کا خدشہ لاحق رہے گا۔ ویسے بھی یہ خدشہ ازل سے موجود ہے اور ابد تک موجود رہے گا۔

غریب اور امیر طبقوں میں انصاف رواج پا جائے تو دنیا کی آبادی جنگوں اور قحط میں ہونے والی اموات سے دائمی طور پر محفوظ ہوجائے گی۔ کسی بھی آنکھ سے کسی آنسو کے ٹپکنے کی ضرورت نہیں رہے گی لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ غریب اور امیر کے درمیان انصاف کی خوبی آجائے مگر پھر غریب غریب نہیں رہے گا اور امیر امارت کے عیش و آرام سے محروم ہوجائے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں کے پاس اس قدر دولت جمع ہوچکی ہے کہ جس کے مناسب استعمال سے ملک کی غربت، جہالت اور بیماری ختم کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہ کی جاسکتی ہے مگر کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟

کاش دولت کے انبار لگانے والے ہمارے ارباب اختیار یہ جان لیتے کہ صرف اور صرف دولت ہی کی جستجو اور حصول ہزار برائیوں اور مصیبتوں کی جڑ ہوتی ہے۔ پیسہ زندگی کی ضرورت بجا مگر صرف پیسہ ہی مقصد حیات نہیں ہوا کیونکہ دولت مند کی تجوری اور اس کی ہوس کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور برہنہ سچائی بھی یہی ہے کہ دوسروں کے حصے کا مال جمع کرن والے اکثر اپنے حصے کا مال بھی خرچ نہیں کرپاتے اور عمر کی نقدی ختم کرجاتے ہیں۔

آج کا پاکستانی، ضبط، صبر، برداشت سبھی کھوچکا ہے، حد درجہ غربت، کسمپرسی، بد حالی، بے روزگاری وطن عزیز کے باسیوں کا مقدر بن چکی ہے اور اس کیفیت اس صورت نے اسے بے چہرہ کردیا ہے اس کا وجود ناتواں ہوچکا ہے ڈپریشن، مصائب اور استحصال نے نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ کسے نہیں معلوم کہ جس بدن میں صحت مند خون دوڑ رہا ہو اس پر کبھی وائرس کا حملہ کامیاب نہیں ہوتا مگر یہ بات آٹے میں نمک کے برابر ہی لوگ جانتے ہیں کہ جس چوکھٹ کو دیمک چاٹ چکی ہو، اس کے کواڑ دستک تک برداشت نہیں کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔