وہ میرا دوست پرانا!!!

شیریں حیدر  اتوار 26 نومبر 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

میں اس کے پاس جا کر کھڑی ہوئی تو مجھے اس میں سے اپنے بچپن کی خوشبو آئی… وہ بچپن جو میں نے اس کے گرد بھاگتے بھاگتے ، اس کے عقب میں چھپ کر ہمجولیوں کو آوازیں دیتے، اس پر ساون میںجھولے جھولتے، گرمیوں کی طویل دوپہروں میں اپنی سکھیوں کے ساتھ اس کے سائے میں چارپائی پر لیٹ کر ہوا کے ہلکوروں سے نیند میں جاتے اور لڑکپن کی عمر میں اسے تسخیر کر کے کچے آم توڑنے میں اور انھیںنمک لگا کر کھاتے اور دانت کھٹے کرنے میں بیتا-

اس کے تنے کی چھال کو چھیل چھیل کر اس پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ اپنے نام کو لکھنا اور جب ناراض ہونا تو اسے مٹانے کی کوشش کرنا… مگر وہ نام جو ایک بار اس کی چھال کی یادداشت پر کندہ ہو گئے، وہ کبھی مٹ نہ سکے وہ دوستیاں امر ہو گئیں- وہ چھال جو کبھی اتنی نرم ہوتی تھی کہ اس پر ناخن تراش سے بھی کندہ کاری کر لیتے تھے، اب وہ کھردری اور سخت ہے- عمر کا تقاضہ ہے یا پھر اس کو پانی کی قلت-

وقت کا پہیہ گھوم گھوم کر بتاتا رہا کہ ہم تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، جو پل گزر گیا وہ واپس نہیں آتا- جو لوگ دنیا سے چلے گئے وہ تو لوٹ کر کبھی نہیں آتے مگر جو لوگ اس کے سائے میںکھیل کر پروان چڑھے… زندہ بھی ہیں تو لوٹ کر کبھی اس کے سائے تلے آنے والے نہیں ہیں- بابل کے آنگن میںلگا ہوا وہ ایک پرانا درخت، ایک باپ جیسا گھنا سایہ لیے ہوئے، جس کی صحبت میں بچپن گزرا، وہ میرا دوست پرانا- یوں ہی دل چاہا کہ اسے چھو کر محسوس کروں !! میں اس سے لپٹ کر یوں سکون حاصل کر رہی تھی جیسے میں کسی مہربان کے دست شفقت کے تلے تھی-

میرے سر پر کچھ ٹپکا… شاید اوپر کوئی پرندہ ہو!! مگر مجھے تو اتنی دیر میں وہاں کسی پرندے کی موجودگی محسوس ہی نہ ہوئی تھی، وہ درخت جس پر سارا دن پرندوں کے میلے ہوتے تھے… وہاں اب ایک پرندہ بھی نہ تھا-

میں نے ہاتھ لگا کر اسے محسوس کیا، پانی تھا، تو کیا بارش ہو رہی تھی؟ میںنے اس کے سائے سے باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھا، آسمان تو بالکل صاف تھا، بادل کا ایک آوارہ ٹکڑا تک نہ تھا- میرے جسم میں خوف سے پھریری سی دوڑ گئی، شاید کوئی جنات وغیرہ جیسی مخلوق نہ اس پر آباد ہو گئی ہو-’’ کون ہے اوپر ؟ ‘‘ میںنے بہادری سے پکار کر پوچھا-

’’ کوئی نہیں … میں خود ہی ہوں !!‘‘

’’ خود کون؟ ‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا-

’’ میں تمہارا دوست پرانا!!‘‘ میں نے اوپر دیکھتے ہوئے ڈھونڈنے کی کوشش کی-

’’ تم بول رہے ہو، تم یعنی درخت؟ تم کیسے بول سکتے ہو؟ ‘‘ میںنے حیرت سے سوال کیا-

’’ ہاں درست ہے ہم تمہاری طرح سانس لیتے ہیں، خوراک کھاتے ہیں، پانی پیتے ہیں، بڑھتے ہیں، پھل ، پھول اور بچے دیتے ہیں… مگر چل پھر نہیں سکتے اور بات نہیں کر سکتے… مگر تم سے بات کر رہا ہوں تو تم سمجھ رہی ہو نا!!‘‘

’’ ہاں ہاں … ‘‘ میںنے اس کے سانس لیتے ہوئے تنے کو چھوا-

’’ تم نے بھی جانے کتنے عرصے کے بعد میری طرف توجہ کی ہے، ہر کوئی اپنی زندگیوں میں مصروف ہی اتنا ہو گیا ہے… میں تنہائی کا شکار ہو گیا ہوں، اس بڑے سے صحن میں کتنوں کو ہی تمہارے گھر والوں نے ایک ایک کرکے ختم کر دیا- کہیں کمرہ بنانے کے لیے جگہ درکار تھی، کسی کی لکڑی کو جلا کر کھانا بنتا رہا… کسی کے سائے سے سردیوں میں گھر ٹھنڈا لگتا تھا، کسی کی لکڑی اچھی تھی تو اسے کاٹ کر اس سے گھر کے پلنگ بن گئے… ایک میں بچ گیا جسے تمہاری والدہ صاحبہ نے ہمیشہ ابا کی نشانی کہہ کر کسی کو کاٹنے نہ دیا!!‘‘

’’ اوہو… مگر اب تمہارے پاس پرندوں نے بھی آنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟‘‘

’’ظاہر ہے کہ میرے پاس پرندوں کو دینے کے لیے سائے کے علاوہ کچھ نہ تھا- پھل دار درخت ہو تو پرندوں کو بھی اس کا لالچ ہوتا ہے- اس باپ کی طرح جب تک اس کے پاس کچھ ہوتا ہے، اس کی اولادیں اس کی طرف دیکھتی اور اس کی عزت کرتی ہیں، جب اس کے پاس اسی اولاد کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو ان کا بات کرنے کا انداز بھی بدل جاتا ہے- ‘‘

’’ تو تم اب پھل کیوں نہیں دیتے؟ ‘‘ میں نے سوال کیا-

’’ تمہارے ابا نے اپنی جوانی میں مجھے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا، وہ میرا خیال کرتے تھے، مجھ سے پیار کرتے تھے، باتیں کرتے، مجھے پانی دیتے ، میری ضروری کانٹ چھانٹ کرتے… پانچ سال کی عمر سے میں نے پھل دینا شروع کیا اور چالیس برس تک میں اس گھر کے مکینوں کے لیے بارآور ہوتا رہا اور میرا پھل اچار کے کام بھی آتا اور پکا ہوا کھانے میں بھی- اب میں اس قابل نہیں رہا، میری مزید پھل دینے کی عمر نہیں رہی، گھر والوں کو میری ضرورت نہیں رہی مگر مجھے ان کی محبت اور توجہ کی ضرورت تو ہے!!‘‘

’’ تمہیں کس طرح ان کی توجہ اور محبت مل سکتی ہے؟ ‘‘ میںنے حیرت سے سوال کیا-

’’ میری مناسب کاٹ چھانٹ کریں، مجھے نہلائیں، پانی دیں، میرے سائے میں بیٹھیں ، آپس میں بات چیت کریں تا کہ میں سن کر تنہائی محسوس نہ کروں !!‘‘

’’ مگر جہاں انھوںنے سارے درخت کاٹ دیے وہاں تمہیں بھی کاٹ دیتے؟ ‘‘

’’ غلط کیا جو بھی کیا… دنیا بھر میںترقی یافتہ ترین ملکوں کے شہروں میں بھی چلے جاؤ تو وہاں کی مصروف سڑکوں کے کناروں اور درمیانی تقسیم والے حصے میں بھی تمہیں درخت نظر آئیں گے- وہاں لوگوں میں احساس ہے کہ ہم بھی جاندار ہیں، وہ ہمیں ہر طرح بچاتے ہیں جس طرح وہ اپنے پالتو جانوروں کو بھی بچاتے ہیں- اپنے گھروں کے نقشے ہوں یا سڑکوں کے پلان… ایک درخت کو بچانے کے لیے کسی نہ کسی طرح نقشے میں تبدیلی کر لی جاتی ہے مگر درخت کو خواہ مخواہ کاٹا نہیں جاتا!!‘‘

’’ مگر اب جب تم پھل بھی نہیں دے رہے ہو تو تمہیں کاٹ دیں؟ ‘‘ میںنے حل پیش کیا، حالانکہ یہ بات کہتے وقت میرے دل کو بھی تکلیف ہوئی، ’’ تم بھی تنہائی محسوس کرتے ہو!!‘‘

’’کاٹنا اور کاٹ کر ضائع کر دینا، یہ تو بہت آسان کام ہے پیاری دوست، مشکل اور درست کام ہے بچانا- کیا تمہارا کوئی دوست خطرے میں ہو، اس کی جان کے لالے پڑے ہوں تو تم مشورہ دو گی کہ اسے ختم کر دیا جائے؟ ‘‘

’’ مگر اب تمہارا تو کوئی فائدہ بھی نہیں ہے!!‘‘ میںنے اس کی تنہائی کے دکھ کو دل سے محسوس کیا-

’’ میںقدرت کے انعامات میں سے ایک انعام ہوں، میں اب پھل نہیں دیتا مگر سایہ تو اب بھی دیتا ہوں… زیادہ تر پھل دار درختوں کے پتوں کی طرح میرے پتوں کے استعمال کے بھی کئی بیماریوں کے خلاف فوائد ہیں- کانوں میں درد ہو، بلڈ پریشر ہو یا شوگر، گردوں میں پتھری ہو یا جلد کی جلن- اس گھر سے کاربن ڈائی آکسائیڈ پی کر آکسیجن تو اب بھی دیتا ہوں اور اگر اس گھر کے مکین مجھ پر توجہ دیں تو میں ایک بد نما اور گندے بچے کی طرح دکھنے کے بجائے اس گھر کی خوبصورتی میں اضافہ بھی کروں گا- اگر انھیں اندازہ ہو کہ ایک درخت لگانے والا اپنے بعد آنے والی دو تین نسلوں کے لیے تحفہ دیتا ہے تو یہ لوگ میرے جیسے کئی اور درخت لگاتے نہ کہ پہلے بھی کاٹ کر پھینک دیتے!!‘‘

’’ مجھے دکھ ہے میرے دوست کہ میں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتی، تمہیں اپنے پاس بھی نہیں لے جا سکتی اور تم سے مربوط اپنی یادوں کو دل سے مٹا بھی نہیں سکتی- یہ بھی بد قسمتی ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں ترقی کا معیار صرف سڑکیں اور پل بنانا ہے اور اس ترقی کے راستے میں آنے والی ہررکاوٹ ، درخت اور دیوار کو ہٹا دیا جاتا ہے، مٹا دیا جاتا ہے- اسی لیے تو ہماری فضا اتنی آلودہ ہو گئی ہے کہ سانس لینا محال لگتا ہے… سایہ دار درخت جو کئی برسوں میں چند فٹ سائے کے قابل ہوتا ہے، اس کا گھنا سایہ چند لمحوں میں ترقی کے منصوبو ں کی نذر ہو جاتا ہے- کاش، اے کاش ہم ذہنی ترقی کر سکیں اور ہمیں اندازہ ہو کہ ہم اپنے پرانے اور پیار بھرے ان دوستوں کو کاٹ کر اپنا کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں- فطرت کا اتنا حسین نمونہ… اتنا بڑا تحفہ اور ہم اس کی ناقدری کر کے کفران نعمت نہیں کرتے تو اور کیا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔