ہم کیسے عاشق ہیں

جاوید چوہدری  اتوار 26 نومبر 2017
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

وارث شاہ نے 251سال پہلے کیا خوب جواب دیا تھا‘ ہم لوگ صدیوں سے عشق کی تعریف تلاش کر رہے ہیں‘ ہم عشق کی ہیئت بھی معلوم کرنا چاہتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جواب کی توفیق صرف وارث شاہ کو بخشی‘ وارث شاہ نے ہیر کے منہ سے کہا ’’رانجھا رانجھا کردی نی‘ میں آپے رانجھا ہوئی‘سدونی مینوں دھیدو رانجھا‘ ہیر نہ آکھو کوئی‘‘ یعنی میں رانجھا رانجھا کرتے کرتے خود رانجھا ہو گئی۔

مجھے اب کوئی ہیر کہہ کر مخاطب نہ ہو‘ مجھے اب آپ دھیدو رانجھا کہنا شروع کر دیں‘ عشق ایک ایسی لگن‘ ایک ایسی عادت ہوتا ہے جو عاشق کو محبوب جیسا بنا دیتا ہے‘ وہ عشق جو عاشق کو محبوب جیسا نہ کرے وہ عشق‘ عشق نہیں ہوتا وہ دھوکہ ہوتا ہے اور ہم عشق کے ٹھیکیدار ہمیشہ عشق رسولؐ کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ہم میں اپنے رسولؐ کی ایک بھی عادت موجود نہیں۔

ہم حلیہ بدل کر‘ ہم منہ سے عشق عشق کا ورد کر کے‘ ہم آنکھوں میں آنسو بھر کر اور ہم سردھن دھن کر عاشق ہونے کی اداکاری کر رہے ہیں لیکن ہمارے دل‘ ہمارے نفس اور ہمارے ذہن عشق رسولؐ کی آگ اور سیرت کی مہک سے بے بہرہ ہیں‘ ہم میں سے کسی شخص نے آج تک اس راستے پر قدم بھی نہیں رکھا جو ہمارے ہمارے رسولؐ کے اسوہ حسنہ کی طرف جاتا ہے۔

آپ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ ملاحظہ کیجیے‘ ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی جھوٹ نہیں بولا‘ اونچی آواز میں بات نہیں کی‘ کسی کی طرف نفرت سے نہیں دیکھا‘ غرور نہیں کیا‘ کسی کو گالی نہیں دی‘ کسی کو بددعا نہیں دی‘ کسی کا دل نہیں توڑا‘ کبھی وعدہ خلافی نہیں کی‘ کوئی عہد‘ کوئی سمجھوتہ نہیں توڑا‘ کوئی درخت نہیں کاٹا‘ کوئی راستہ نہیں روکا‘ کسی جانور کو پتھر نہیں مارا‘ کسی ناجائز بچے کو ناجائز نہیں کہا‘ کسی حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا‘ کسی کافر سے بھی منہ نہیں موڑا۔

آپؐ زندگی میں عیسائیوں سے بھی ملتے رہے اور یہودیوں کے ساتھ بھی ملاقات کرتے رہے‘ آپؐ نے مسجد نبوی کے دروازے غیر مسلموں کے لیے بھی کھلے رکھے‘ آپؐ نے پوری زندگی کافروں کے احسان بھی یاد رکھے‘ پوری زندگی عورتوں کا احترام کیا‘ پوری زندگی بچوں سے پیار کیا‘ پوری زندگی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا‘ پوری زندگی خود کو متقی اور دوسروں کو گناہ گار قرار نہیں دیا‘ اللہ تعالیٰ نے عبداللہ بن ابی کو منافق اعظم قرار دیا۔

مسجد ضرار گرانے کا حکم دے دیا لیکن جب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو ہمارے رسولؐ نے نہ صرف اس کا جنازہ پڑھایا بلکہ اس کی تدفین کے لیے اپنا کرتہ مبارک بھی عنایت کیا اور کثرت سے اس کی مغفرت کے لیے دعا بھی فرمائی‘ طائف کے لوگوں نے پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا‘ ہمارے رسولؐ کی نعلین مبارک میں خون جم گیا‘ حضرت جبرائیلؐ آئے اور عرض کیا‘ یارسول اللہ ﷺ! میرے ساتھ ملک الجبال(پہاڑوں کی نگرانی پر مقرر فرشتہ) موجود ہیں‘ آپ حکم دیجیے یہ تعمیل کریں گے۔

ملک الجبال نے عرض کی‘ مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے‘ آپ جو چاہیں حکم کریں‘ میں تعمیل کروں گا‘آپؐ حکم دیں پہاڑوں کو ملا کر ان تمام بے ادب اور گستاخوں کو پیس ڈالوں؟ فرمایا نہیں‘ یہ نہیں تو ان کی آنے والی نسلیں اسلام قبول کریں گی‘ محمد بن قاسم طائف کی آنے والی اسی نسل کا باشندہ تھا‘ طائف بچ گیا‘ محمد بن قاسم کے آباؤاجداد بچ گئے اور آخر میں ہندوستان کے لوگ کفر سے بچ گئے۔ آپؐ نے مکہ کے ان لڑکوں کو بھی سینے سے لگا لیا جو آپؐ پر پتھر برساتے تھے۔

آپؐ نے ان لوگوں کو بھی معاف فرما دیا جو کعبہ کے سائے میں آپؐ پر اونٹ کی اوجھڑی ڈال جاتے تھے‘ آپؐ کی صاحبزادیاں آ کر وہ اوجھڑی اتارا کرتی تھیں‘ وہ روتی جاتی تھیں اور آپؐ کا سر مبارک دھوتی جاتی تھیں اور آپؐ آخر میں ان کا ماتھا چوم کر فرماتے تھے غم نہ کرو اچھا وقت بھی آئے گا‘ ہمارے رسولؐ نے پوری زندگی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا‘ چندہ جمع نہیں کیا‘ کپڑوں کا تیسرا جوڑا نہیں بنایا‘ پوری زندگی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا‘ کبھی دانت صاف کیے بغیر نہیں سوئے۔

آپؐ نے وصال سے پہلے بھی مسواک فرمائی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ کبھی گندے کپڑے نہیں پہنے‘ بدن اطہر سے کبھی بو نہیں آئی‘ کبھی پکا مکان نہیں بنایا‘ پوری زندگی کسی غلام‘ کسی خادم کو نیند سے نہیں جگایا‘ کسی کو اوئے نہیں کہا‘ کبھی کسی غیر محرم کو آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا‘ گلی یا سڑک کے درمیان میں نہیں چلے‘ کبھی گند نہیں پھیلایا‘ کبھی راستے میں نہیں بیٹھے‘ کبھی لوگوں کے معاملات زندگی میں مداخلت نہیں کی‘کبھی کسی کے خدا‘ کسی کے مذہبی رہنما کو برا نہیں کہا۔

آپؐ نے پوری زندگی بتوں کو بھی گالی نہیں دی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ کسی کا قرض نہیں دبایا‘ پوری زندگی ممتاز ہو کر نہیں بیٹھے‘ حاتم طائی کی صاحبزادی بھی قیدی بن کر آئی تو اس کا اٹھ کر استقبال کیا‘ غزوات میں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی‘ دشمن کے بچوں کو قتل نہیں کیا‘ کسی عورت پر تلوار نہیں اٹھائی‘ میدان جنگ میں بھی درخت نہیں کاٹا‘ زخمی دشمن کو قتل نہیں کیا‘ پوری زندگی امانت میں خیانت نہیں کی۔

کسی شخص کو زبردستی نماز نہیں پڑھائی‘ کسی کو روزے کے لیے مجبور نہیں کیا‘ کسی کو جبراً داڑھی نہیں رکھوائی‘ کسی کو زبردستی عمامہ نہیں باندھا اور کسی کو جبہ پہننے پر مجبور نہیں کیا‘ کوئی بازار بند نہیں کرایا‘ کوئی میلہ نہیں رکوایا اور کسی کے ہنسنے‘ کھیلنے اور خوش ہونے پر پابندی نہیں لگائی‘ کبھی کم نہیں تولہ‘ کبھی کم نہیں ناپا‘ کبھی دودھ میں پانی نہیں ملایا‘ کبھی خوراک اور ادویات میں ملاوٹ نہیں کی‘ کبھی رقم جمع نہیں کی اور کبھی کسی بھی چیز کی ذخیرہ اندوزی نہیں کی۔

آپؐ جس سے بھی ملے مسکرا کر ملے‘ جس کو بھی رخصت کیا کھڑے ہو کر گرم جوشی سے رخصت کیا‘ جس کو دیکھا اسی کو اہمیت دی‘ جس نے پوچھا اس کو پورا سمجھایا‘ پورا بتایا‘ گستاخوں کی گستاخی کو مسکرا کر اگنور کر دیا‘ نفرت کرنے والوں کی نفرت کو ہنس کر ٹال دیا‘ کانٹے بچھانے‘ کوڑا پھینکنے والوں کی عیادت کی‘ گرے ہوئے پر وار نہیں ہونے دیا۔

حضرت امیر حمزہؓ کا کلیجہ چبانے اور خود کو ابتر کہنے والوں کو بھی معاف کر دیا‘ اللہ تعالیٰ نے بھی جہاں بس اور بس فرما دیا آپؐ نے وہاں بھی شفقت اور محبت کا سلسلہ نہیں ٹوٹنے دیا‘ آپؐ نے اپنی صاحبزادی کو تکلیف دینے والوں کو بھی معاف کر دیا اور کعبے کے دروازے بند کرنے والوں کے سر پر بھی ہاتھ رکھ دیا۔

آپؐ نے پوری زندگی اپنا کام خود کیا‘ اپنے کپڑے مرمت کیے‘ جھاڑو دیا‘ اپنے جوتے گانٹھے‘ جانورں کو چارہ کھلایا اور اپنا بستر سیدھا کیا‘ پوری زندگی سادہ خوراک کھائی‘ فاقے بھی کاٹے‘ دھوپیں بھی سہیں اور سردیاں بھی برداشت کیں‘ آپؐ کی چھت بھی ٹپکی اور صحن میں کیچڑ بھی ہوا‘ لوگوں نے آپؐ کے مال پر بھی قبضہ کیا اور آپؐ نے پوری زندگی لوگوں کے طعنے بھی سہے‘ آپؐ نے پوری زندگی خوش حالی نہیں دیکھی اور آپؐ کو پوری زندگی نرم بستر نہیں ملا۔

ہم اگر اس رسولؐ کے عاشق ہیں تو پھر ہم میں ان کی کون سی خوبی موجود ہے‘ کیا ہماری زبانیں اور ہمارے ہاتھ کنٹرول میں ہیں‘ کیا ہمارے دل نفرت اور کدورت سے پاک ہیں‘ کیا ہم مال ودولت اور خوش حالی کی علتوں سے ماورا ہیں‘ کیا معاف کرنا‘ خدمت کرنا اور دوسروں کی مدد کرنا ہماری روٹین ہے‘ کیا ہم اپنی اور اپنے ماحول کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں‘ کیا ہماری زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہیں‘ کیا اعتدال ہماری زندگی ہے‘ کیا ہم ہاتھ‘ منہ اور پیٹ روک کر کھانا کھاتے ہیں‘ کیا ہم نے غرور‘ حسد اور غصے کے جذبے ختم کر لیے ہیں۔

کیا ہمارا سینہ اتنا چوڑا اتنا وسیع ہو چکا ہے کہ ہم عیسائیوں‘ یہودیوں اور ہندوؤں کو سینے سے لگا لیں‘ کیا ہم عورتوں‘ بچوں اور بوڑھوں کو عزت اور محبت دیتے ہیں‘ کیا ہم پانی کی پاکیزگی اور درختوں کی طراوت کی حفاظت کرتے ہیں‘ کیا ہم امن کو جنگ اور محبت کو نفرت پر فوقیت دیتے ہیں‘ کیا ہم گورے اور کالے‘ عربی اور عجمی اور امیر اور غریب دونوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں‘ کیا ہم جھوٹ‘ منافقت اور فریب سے مبریٰ ہو چکے ہیں‘ کیا ہم نے تصنع اور بناوٹ کو اپنی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔

کیا ہم اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں‘ کیا ہمارے چہروں پر ہر وقت مسکراہٹ اورہمارے ہاتھوںمیںہروقت گرمی رہتی ہے‘ کیا ہمارے دسترخوان وسیع اور اختلافات کے دفتر چھوٹے ہو چکے ہیں‘ کیا ہم ہمسایوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں‘ کیا ہم بنیادی انسانی حقوق کی عزت کر رہے ہیں‘ کیا ہم راستوں‘ گلیوں اور شاہراہوں کی حرمت کا خیال رکھ رہے ہیں اور کیا ہماری نگاہیں صاف اور زبانیں پاک ہیں؟ خدا کی قسم نہیں‘ ہم دنیا کی ایسی بدترین قوم ہیں جس کے ہاتھ‘ زبان اور شر سے اپنے محفوظ ہیں اور نہ ہی پرائے‘ ہم کلمہ پڑھ کر دوسروں کو گالی دیتے ہیں۔

ہم منبر رسولؐ پر بیٹھ کر دوسروں کو کافر قرار دیتے ہیں‘ ہم قرآن اور احادیث سے نفاق کی پنیری نکال لیتے ہیں‘ ہم نماز پڑھتے ہیں اور پھر اٹھ کر دوسرے نمازی کو قتل کر دیتے ہیں‘ ہم مسجدوں‘ درگاہوں اور مزاروں کے چندے کھا جاتے ہیں اور ہم کبھی ڈبل شاہ اور کبھی مفتی مضاربہ بن کر لوگوں کی کمائی لوٹ لیتے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود عشق رسولؐ کے دعوے دار بھی ہیں‘ ہم سچے عاشق رسولؐ بھی ہیں؟ ہم کیسے عاشق ہیں جن میں اپنے محبوب کی ایک بھی خوبی‘ ایک بھی صفت موجود نہیں‘ ہم کیسے عاشق ہیں‘ ہم گالی بھی دیتے ہیں‘ راستے بھی روکتے ہیں‘ ڈنڈے بھی دکھاتے ہیں اور عشق رسولؐ کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔

ہم قیامت کے دن اپنے رسولؐ کو کیا منہ دکھائیں گے‘ آپ اس 12 ربیع الاول پر ایک لمحے کے لیے یہ ضرور سوچئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔