چوروں پر مور

جاوید قاضی  پير 27 نومبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کتنا بدل گیا ہے سندھ۔ اور سب کچھ ٹھیک ہی تو ہے۔ لوگ اف کرتے نہیں اور ایوانوں کے بام و در بند ہیں۔ اتنا بھرپور میڈیا پاکستان میں اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ سب کچھ ہی تو دکھاتا ہے میڈیا، پھر بھی سب کچھ ٹھیک ہی تو ہے۔ اس صوبے کے 90 فیصد لوگ صاف پانی کی فراہمی سے محروم ہیں۔ یرقان ہے جو اس صوبے کی 25 فیصد آبادی کو لاحق ہے۔ دنیا میں ذہنی پسماندہ بچے سب سے زیادہ سندھ کے صوبے میں ہیں۔

اسکولوں سے باہر جن بچوں کا اندراج نہیں، جو اسکول جاتے نہیں، اگر اس طرح سے پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے تو سندھ پورے پاکستان میں پہلے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ Malnourished  بچے سندھ میں ہیں۔ اساتذہ رجسٹرڈ تو ہیں لیکن لگ بھگ 20 فیصد ایسے اساتذہ ہیں جو فرضی ہیں اور جو فرضی نہیں، وہ آتے نہیں۔ اتائی ڈاکٹرز لاتعداد ہیں۔

یرقان کی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ ایک ہی syringe بار بار استعمال ہوتی ہے ۔ یوں کہیے کہ حد نگاہ تک غبار ہی غبار ہے۔ اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ حال ہی میں اسٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ میں اس بات کا  ذکر  ہوا ہے کہ اس ملک میں سب سے پسماندہ کارکردگی سندھ کی ہے۔

آخر یہ ماجرا کیا ہے؟ جب کہ ماضی کی بہ نسبت سندھ کی طرف NFC کے فنڈز بڑھے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمیں وفاق سے اپنا پورا حق اب بھی نہیں ملتا۔ مگر پھر بھی جو بات نہیں بدلی وہ یہ ہے کہ لوگوں کا معیار زندگی نہیں بدلا۔ اب سندھ کے چیف سیکریٹری کو کسی ضلع کے ٹھیکیداروں نے جواب میں خط لکھا ہے کہ کیا کریں ہمارے کام اچھی کوالٹی کے اس لیے بھی نہیں ہیں کہ اب کمیشن کا مارجن 60 فیصد ہوگیا ہے۔

کچھ دنوں پہلے کسی نے اعداد وشمار کچھ اس طرح پیش کیے کہ 2013 سے آج تک 800 ارب روپے تعلیم پر سندھ کے صوبے میں خرچ ہوئے ہیں، مگر کارکردگی صفر بٹا صفر۔ میں نے دیکھا ہے کہ تعلیم کے ساتھ سندھ حکومت کی نگرانی میں ورلڈ بینک کے فنڈ سے کچھ NGO بھی کام کر رہی ہیں اور ان کی کارکردگی بھی نل بٹا نل۔ اور اگر سندھ کی وزارت خزانہ میں ترقیاتی پروگراموں کے لیے جو فنڈز رکھے جاتے ہیں ان کو ریلیز کروانے کے لیے بھی لفافے میں کچھ دینا پڑتا ہے اور وہ ’’کچھ‘‘ بھی اب فیصد کے اعتبار سے بڑھ گیا ہے۔

میں نے پچھلے مضمون میں سندھ اور سندھیوں میں پسماندگی کی شکل دکھائی تھی، جو مڈل کلاس میں پائی جاتی ہے۔ لیکن جو بھی سندھیوں کی مڈل کلاس ہے وہ نوکری پیشہ لوگوں کے خاندانوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ سیالکوٹ، گوجرانوالہ، گجرات، لاہور وغیرہ کی طرح ہنرمند کلاس نہیں۔ یہ پنکھے، سرجیکل پرزے، آلات و فرنیچر وغیرہ نہیں بناتے۔

سندھ کی مڈل کلاس نوکری پیشہ لوگوں کا مجموعہ ہے اور ان نوکری پیشہ لوگوں کی کمزوری یہ ہے کہ ان کو اچھی پوسٹنگ و پروموشن چاہیے۔ اور وہ میرٹ پر نہیں ہوتی۔ وہ ہوتی ہیں کہ کون سا افسر صاحب اقتدار کا نور نظر ہے، اور صاحب اقتدار کے قریب وہی ہوگا جو ان کے مطابق کام کرے۔ اور پھر اس مڈل کلاس بندے کی بنیاد بھی  وہی ہے جو وڈیرے کی اوطاق میں درباری کی ہوتی ہے۔ یوں کہیے کہ

چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

اور پھر اس طرح بھی ہوتا ہے کہ یہ افسر اسی صاحب اقتدار شخص کے ساتھ اس کے حلقہ میں Cartel بناتے ہیں۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جو آسامیاں خالی ہوتی ہیں وہ ان صاحب اقتدار لوگوں کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے پُر کرتے ہیں۔ اس پورے کاروبار کو سندھی میں ’’چورن متھاں مور‘‘ کہتے ہیں۔

کراچی اور باقی ماندہ سندھ میں بھی دن اور رات کا فرق ہے۔ یہ فرق شاید لاہور اور گجرات میں نہ ہو۔ جوں جوں آپ سندھ کے اندر چلتے جائیں گے تاحد نگاہ پنجاب کی سرحد تک یہ نظام آپ کو بد سے بدتر ملے گا۔یوں کہیے کہ ’’اندھیر نگری چوپٹ راج‘‘ کی طرح اندھیروں کا پھیلاؤ ہے۔

سندھ کی مڈل کلاس مجموعی طور جو بھی ہے Collaborator ہے، وہ اس کرائم میں جو سندھی قوم کے ساتھ ہورہا ہے برابر کی شریک ہے۔ مڈل کلاس وہ تبدیلی لاتی ہے جو میرٹ کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے کاروبار یا ہنر سے جڑ کر بنتی ہے، سرکاری نوکریوں سے نہیں۔ مگر یہ ہے کہ ایک اور چھوٹی موٹی شکل سندھ میں، اس مڈل کلاس کی ہے جو سرکاری نوکریوں کے اس حصے سے جڑی ہوئی ہے جہاں کمیشن پر کام نہیں ہوتا۔ یہ یا تو اسکول ماسٹر ہوتے ہیں وکیل و صحافی یا پھر دانشور وغیرہ۔ ان کے ساتھ مجموعی طور پر بیانیہ کا مسئلہ ہے۔ یہ وہ بیانیہ ہے جو بلوچ قوم پرستوں کی طرح خیر بخش مری یا غوث بخش بزنجو کی طرح بٹا ہوا ہے۔

ایک وہ ہیں جو لکھتے ہیں کہ ان مسائل کا حل سندھ کی آزادی میں موجود ہے، اور بہت اقلیت میں ہوں گے جو میری سوچ سے متفق ہوں گے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سندھ کا مسئلہ سندھ کے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ ان کو وڈیرہ شاہی سے آزاد کرانا ہے، یہ نہ ہو کہ کل پھر کوئی اور تانیہ خاصخیلی کی ماں سندھ کے وزیراعلیٰ کے پیروں میں انصاف کی خاطر گری ہوئی ہو۔

اس چوروں کے اوپر مور والی سندھ میں اب کوئی Audit نہیں، پھر 2018 میں ایک نیا بیلٹ باکس تو سجے گا مگر…۔

کل تک یہ ٹھیک بھی تھا، جب بھٹوز اس نظام کو لے کر تو چلتے تھے مگر ان وڈیروں کو ملک کی مجموعی جمہوری قوت کا حصہ بناتے تھے۔ اب زرداری کے زمانے میں ایسا نہیں ہے۔ زرداری اس پارٹی کے وارث ہیں جو بے نظیر کی تھی۔ پاکستان کی تاریخ کی واحد لیڈر جس نے اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر سیاست کا آغاز نہیں کیا تھا اور زرداری بالآخر لے کر آئے اس پارٹی کو وہاں ’’یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے‘‘۔ سندھ کی 2018 میں جو ووٹ کی نسبت بنے گی وہ یہی ہوگی جو سینٹرل پنجاب کی کل تھی، یعنی ہر آمریت کے ساتھ ہاتھ ملا کر کھڑے ہونا۔

انسانی معیار سے جس کو سب سے زیادہ تیزی سے پیچھے دھکیلا گیا ہے وہ دیہی سندھ ہے۔ یہ نہیں کہ ہم سے بدتر اور نہیں ہوں گے لیکن ہم اتنے بدتر اس سے پہلے کبھی نہیں تھے۔دیہی سندھ کو دیکھ کر میں جب کراچی میں اپنے آپ کو پاتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کتنا خوش نصیب ہوں میں۔ یہ اور بات ہے کہ خود کراچی کی کہانی بھی عجیب اور نرالی ہے۔ یہ شہر جو دبئی سے بھی کئی گنا اونچا تھا وہ کس طرح سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مگر جو میرے گاؤں کا حال ہے اس کا تذکرہ پھر ایک نئے عنوان کے ساتھ پھر کسی نئے مضمون میں کروں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔