سوشل ویلیوز اور سوشل میڈیا

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 27 نومبر 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

برطانیہ کی رائل سوسائٹی فور پبلک ہیلتھ کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق ذہنی صحت کے لیے سوشل میڈیا انسٹاگرام اور اسنیپ چیٹ انتہائی مضر ہے، کیونکہ ان دونوں پلیٹ فارمز میں تصویروں پر زیادہ تو جہ دی جاتی ہے جس کے باعث اس کو استعمال کرنے والے نوجوانوں میں احساس کمتری، تفاخر اور ذہنی انتشار جیسے نفسیاتی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں اور ایسے نوجوان معاشرتی طور پر دوسروں سے تعلقات ختم کرکے اکیلے پن اور نیند کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ تحقیق چودہ سے چوبیس سال کی عمر کے پندرہ سو نوجوانوں پر کی گئی تھی۔

پاکستان میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے، میڈیکل یونیورسٹی کے ایک سینئر استاد کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ ایک نشہ بن چکا ہے جو سگریٹ اور شراب سے بڑا نشہ ثابت ہوا ہے۔ بات تو درست ہے، کیونکہ یہ ہمارے مشاہدے میں بھی آتا ہے کہ والدین اپنے کسی بچے کو روک ٹوک کریں تو بچے آگے سے طرح طرح کے جواز پیش کردیتے ہیں مگر زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر ہی گزارتے ہیں۔

ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ وہ اپنی نویں جماعت میں پڑھنے والی بچی کو جب بھی یہ نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنا اسمارٹ فون بند کرکے اپنی آنکھوں کو بھی آرام دے تو بچی آگے سے جواب دیتی ہے کہ ’’پاپا آپ کو کیا پتہ میں کتنا اہم کام کر رہی ہوں، اپنے دوستوں سے ہوم ورک لے رہی ہوں، نہ لو تو پھر مجھے ان کے گھر جانا پڑے گا، آپ فکر نہ کریں میری آنکھوں کو کچھ نہیں ہوگا‘‘۔

ہم میں سے بہت سے والدین ایسے روشن خیال بھی ہیں جو اپنے بچوں کو سوشل میڈیا کے زیادہ استعمال کرنے پر نصیحت تک نہیں کرتے، بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد اس جدید ٹیکنالوجی سے واقف ہے اور دنیا بھر سے منسلک ہیں، ان کی معلومات میں اضافہ ہو رہا ہے یا وہ دیگر نوجوانوں سے معلومات میں کہیں آگے ہیں۔ بات یہ ہے کہ ہر ٹیکنالوجی کے استعمال کے یقیناً بہت سے فوائد بھی ہوتے ہیں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ فوائد کے علاوہ اس کے نقصانات بھی کس قدر ہیں۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے نئی نسل بہت زیادہ سوشل ہوجاتی ہے جو ایک اچھی بات ہے، لیکن کچھ لوگوں کے خیال میں سوشل میڈیا سے سوشل ہوجانے والے لوگ اپنی سوشل ویلیو سے الگ ہوجاتے ہیں، یعنی ایسے لوگوں میں سماجی اقدار کی کمی ہوجاتی ہے۔

ایکسپریس اخبار کی ایک تحقیقی خبر کے مطابق سوشل میڈیا کے استعمال سے ایک ہی گھر میں رہنے والے مختلف افراد اپنے اپنے فون پر لگے رہتے ہیں، اس بگاڑ کی وجہ سے معاشرے میں بیشتر منفی اثرات اور برائیاں جنم لے رہی ہیں، نوجوان بچے اور بچیاں مثبت سرگرمیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

راقم کے خیال میں یہ شکوہ تو بجا ہے کہ اس سے ہماری سماجی اقدار ختم ہوتی جارہی ہیں، پہلے کیبل اور ڈش کے گھروں میں آجانے سے یہ ہوا کہ گھر میں آنے والے مہمان بھی میزبان کے ساتھ ٹی وی دیکھنے بیٹھ جاتے تھے، اور اب ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مہمان گھر میں آجائے تب بھی گھر کے زیادہ تر فرد خصوصاً نوجوان اپنے اپنے موبائل پر ہی لگے رہتے ہیں، مہمان کو توجہ اور وقت نہیں دیتے۔

ان سہولیات یا ایجادات سے قبل کا دور یاد کریں تو معلوم ہوگا کہ گھر آئے مہمان کو کس قدر وقت دیا جاتا تھا۔ کہنے کو تو یہ ایک چھوٹی سی بات لگتی ہے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے غلط استعمال کے باعث ہمارے خاندانی رشتے ناتے کمزور پڑ رہے ہیں، اب تو کسی مسئلے پر فون پر ہی تعزیت کرلی جاتی ہے کہ کون وقت نکال کر گھر جاکر کسی سے تعزیت کرے۔

اب پہلے کی طرح دوبدو ملاقاتیں (فیس ٹو فیس کمیونیکشن) کم ہی ہوتی ہیں، جب کہ یہ بات سب کو ہی معلوم ہے کہ سب سے طاقتور کمیونیکشن دوبدو ملاقات ہی میں ممکن ہوتا ہے۔ اس سے ہی رشتے ناتے مضبوط ہوتے ہیں۔ رشتے داروں کو وقت نہ دینے سے رشتے کمزور ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پہلے بیٹیوں کے رشتے گھر بیٹھے ہی آ جاتے تھے اور آج ہم سب اپنی بیٹیوں کے رشتے تلاش کرنے کے لیے میرج بیورو کے چکر کاٹتے ہیں، لڑکیوں کی شادیاں بروقت نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم خود دوسروں سے کٹ گئے ہیں، ہم سب نے اپنی اپنی دنیا بسا لی ہے، ظاہر ہے کہ رشتے دار ہی آپس میں آشنا نہ ہوں گے تو کوئی کسی کو کیسے رشتہ دے گا؟

رشتے داروں، عزیزوں کے علاوہ نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ محلوں میں بھی ہمارا ربط (انٹر ایکشن) کم سے کم ہوگیا ہے۔ کبھی یہ تصور تھا کہ شہروں میں صرف پوش علاقوں میں پڑوسی ایک دوسرے کو نہیں جانتے، مڈل کلاس والے علاقوں میں سب ایک دوسرے سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں اب مڈل کلاس علاقوں میں بھی لوگ کم ہی اپنے پڑوسی کے حالات سے واقف ہوتے ہیں۔ بیگانگی کی یہ کیفیت اب کام کرنے والے اداروں میں بھی نظر آتی ہے۔

حال یہ ہے کہ ہم اپنے برابر والے کمرے کا حال نہیں جانتے، اپنے پڑوس میں کام کرنے والے سے بھی کم ہی ملتے ہیں مگر سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک رسائی رکھتے ہیں اور دوستیاں بھی رکھتے ہیں۔ یہ کیسی ترقی ہے کہ جس میں ہم اپنوں سے بیگانے ہوجاتے ہیں اور سمندر پار بیگانوں سے باتیں کرتے ہیں؟

اس وقت ہمارا ایک بڑا مسئلہ اپنی کھوتی ہوئی سماجی اقدار کو تلاش کرنا ہے، وہ سماجی اقدار جس کے بارے میں لارڈ میکالے نے تاج برطانیہ کو اپنے ایک خط میں لکھ بھیجا تھا کہ یہاں (ہندوستان) کے لوگ پولیس کے خوف سے چوری کرنے سے نہیں رکے ہوئے بلکہ یہ اپنی سماجی اقدار کے باعث ایسا نہیں کرتے کہ کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہے گا؟

لارڈ میکالے کی بات اس کی گواہی دے رہی ہے کہ ہماری سماجی اقدار کس قدر شاندار تھیں، جو رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہیں، ان سماجی اقدار کے ختم ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک مادہ پرستی کی طرف لوگوں کا مائل ہونا ہے اور آج کی ایک اہم وجہ سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال ہے جس کے باعث ہم اپنے خونی رشتوں سے بھی دور ہوتے جارہے ہیں۔ رفتہ رفتہ ہماری مہمان نوازی کی روایات بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔

ایک وقت تھا کہ کوئی مہمان بھی گھر آجائے تو فوراً خاطر مدارات کی جاتی تھی، گھر میں جو کچھ بھی ہو کھانے پینے کو پیش کیا جاتا تھا، آج اگر گھر میں کوئی آجائے تو ہم جاتے وقت پوچھتے ہیں چائے پیئں گے؟ کھانا کھائیں گے؟ مجھے اس وقت اپنے مرحوم ماموں جان یاد آرہے ہیں کہ جو مالی اعتبار سے نہایت کمزور تھے مگر جو کوئی بھی ان کے گھر جاتا وہ کچھ کھلائے پلائے بغیر نہ جانے دیتے، اگر ان کے پاس پیسے نہ ہوتے تو تب بھی وہ باہر جاکر کچھ نہ کچھ بندوبست کرکے کھانے کو لے آتے۔ گزرے وقتوں میں یہ تمام ہماری سماجی اقدار کا حصہ تھیں جو اب ختم ہوتی جارہی ہیں۔

بہرکیف توجہ اس طرف مبذول کرانی ہے کہ ہماری سماجی اقدار روز بروز ختم ہوتی جارہی ہیں، جس میں ایک اہم کردار سوشل میڈیا کا حد سے زیادہ استعمال بھی ہے۔ ہمارے ایک سینئر پروفیسر کا کہنا ہے کہ پاکستان کا سب سے اہم مسئلہ یہاں سماجی اقدار کا تیزی سے ختم ہونا ہے، اگر ہم اپنی سماجی اقدار کو اپنالیں تو بیشتر مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ آئیے غور کریں، ہمارا سوشل میڈیا ہماری سوشل ویلیوز (سماجی اقدار) تو ختم نہیں کر رہا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔