پاکستان سے وابستہ بھارتی وزیر کی توقعات

تنویر قیصر شاہد  پير 27 نومبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھارت کے پینسٹھ سالہ مرکزی وزیر، ہردیپ سنگھ پوری، نے کہا ہے: ’’کاش، پاکستان سے بھارت کے تعلقات بہتر ہوتے۔اگر ایسا ہوتا تو مَیں خود پاکستان اور پاکستانیوں سے درخواست کرتا کہ وہ اپنے ہاں سِکھ ورثے اور سِکھ مقدس مقامات کی دل سے دیکھ بھال کریں اور نگرانی بھی۔

ہم بھارتی سِکھوں کا تمام مذہبی اور ثقافتی ورثہ تو پاکستان ہی میں رہ گیا ہے۔اب ان کی حفاظت کتنی اور کہاں تک ہوتی ہے، اس سب کا انحصار پاکستان اور پاکستانیوں پر ہے۔ ہم تو بس اُن سے سِکھ مقامات کی رکھوالی کی درخواست ہی کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ گزشتہ روز نئی دہلی میں ایک کتاب (The Sikh Legacy in Pakistan) کی تقریبِ رُو نمائی سے خطاب کرتے ہُوئے یہ گفتگو کر رہے تھے جو پاکستان میں سِکھ ورثے کے موضوع پر لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف امردیپ سنگھ ہیں۔

ہر دیپ سنگھ پوری صاحب بھارتی سیاست میں تو چند برس قبل ہی آئے ہیں۔ ابتدا میں وہ دہلی کالج میں لیکچرار رہے لیکن اُن کی ساری زندگی بھارتی وزارتِ خارجہ میں سفارتی فرائض ادا کرتے گزری ہے۔ وہ چالیس سال یہ ملازمت کرتے رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ، برطانیہ اور برازیل میں بھارتی سفیر بھی رہے اور نیویارک کے ایک تھنک ٹینک (انٹرنیشنل پیس انسٹی ٹیوٹ) کے نائب صدر بھی۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یہ بھارتی سِکھ وزیر خاصا پڑھا لکھا اور تجربہ کار شخص ہے۔

افسوس مگر یہ ہے کہ انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ پاکستان میں سِکھوں کے تمام مقدس مقامات اور سِکھ عبادت گاہیں ہر لحاظ سے محفوظ اور مامون ہیں۔ ضلع شیخوپورہ میں ننکانہ صاحب، حسن ابدال (ضلع راولپنڈی) میں پنجہ صاحب، سیالکوٹ شہر میں بے بے کی بیری گردوارہ اور کرتار پور (تحصیل شکرگڑھ ،ضلع نارووال) میں ڈیرہ بابا نانک گردوارہ صاحب ایسے سِکھ مقدس مقامات کی ہر پہلو سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔

پاکستان کی وزارتِ اطلاعات نے(جناب محمد سلیم بیگ کی زیرِ نگرانی)کرتار پور میں موجود ڈیرہ بابا نانک پر ایک شاندار فلم بھی ریکارڈ کی ہے جسے دنیا بھر کے سِکھوں نے بے حد پسند کیا ہے۔ بھارت، برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا وغیرہ سے جتنے بھی سِکھ حضرات اپنے مذہبی مقامات کی زیارات اور پوجا پاٹھ کے لیے پاکستان آتے ہیں، ہمیشہ سبھی نے اپنے ان مقامات کے بارے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان کی دیکھ بھال کی تعریف وستائش ہی کی ہے۔

بھارتی وزیر، ہر دیپ سنگھ پوری، نے مگر ’’بی جے پی‘‘ حکومت کی پاکستان مخالف پالیسیوں کے عین مطابق پاکستان کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر کے مناسب اخلاق کا مطاہرہ نہیں کیا۔ انھوں نے متذکرہ کتاب کی تقریبِ رُونمائی میں گفتگو کرتے ہُوئے یہ بھی کہا: ’’پاکستان اور بھارت کو ایک ہی ’’ماں‘‘ نے جنم دیا۔ پاکستان جن تفرقات اور اختلافات کی بنیاد پر بنا تھا، وہ اختلافات روکے جاسکتے تھے اور یوں تقسیم کا المیہ بھی رُک سکتا تھا۔‘‘

ہر دیپ سنگھ پوری نے دانستہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لے کر متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا سارا ملبہ بانیانِ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ انھیں یہ ڈنڈی مارنی چاہیے تھی۔ یہ ہندوقیادت تھی جنہوں نے برِ صغیر کی ممتاز مسلم قیادت کو ایک علیحدہ وطن، پاکستان، بنانے کی طرف متوجہ کیا اور یوں قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کی قیادت میں پاکستان معرضِ عمل میں آیا۔ بغض وعناد کی حامل ہندو قیادت پھر بھی یہی کہتی اور پروپیگنڈہ کرتی رہی کہ پاکستان تھوڑے ہی دنوں میں دوبارہ بھارت میں ضَم ہو جائے گا۔ اللہ کے فضل وکرم سے مگر یہ موقع آیا ہے نہ آئے گا۔ انشاء اللہ!

پاکستان سے وابستہ جن تازہ توقعات کا اظہار ہردیپ سنگھ پوری نے کیا ہے، اگر وہ توازن کا ترازو تھامتے تو اُن پر واضح ہوتا کہ پاکستان نے تو ہمیشہ ہی بھارت سے بہتر تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے اور اس خواہش میں عمل کے رنگ بھرنے کی بھی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ پچھلے سات عشروں پر پھیلی تاریخ میں پاکستان کی طرف سے کیے گئے لاتعداد اقدامات اور اعلانات ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔

بھارتی حکمرانوں، حکومتوں، خفیہ اداروں اور اسٹیبلشمنٹ نے مگر پاکستان کی طرف سے کی گئی دوستی، امن اور بہتری کی ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کر دیا۔ اب پاکستانی کوششوں کی طرف جناب ہردیپ سنگھ پوری کی نظریں ہی نہ اُٹھیں تو پاکستان اور پاکستانیوں کا کیا قصور؟ پاک بھارت تعلقات کو بھارت کی طرف سے کس طرح خراب کیا جاتا ہے، اس کی ایک حالیہ مثال بھی دیکھی جاسکتی ہے:گزشتہ سے پیوستہ ماہ کراچی میں بوہرہ فرقہ والوں کا سالانہ اجتماع ہورہا تھا۔

بھارت میں بسنے والے کئی بوہرہ اس اجتماع میں شریک ہونے کے متمنی تھے تاکہ وہاں اپنی مذہبی رسومات بھی ادا کر سکیں اور اپنی مرکزی مذہبی قیادت کے دیدار بھی کر سکیں۔ بھارت میں بروئے کار پاکستانی ہائی کمیشن نے سیکڑوں بوہروں کو ویزے جاری کیے۔ یہ بھارتی بوہرے کراچی آئے، اجتماع میں شریک ہُوئے اور واپس بھارت چلے گئے۔ پاکستان آنے والے ان تمام بھارتی بوہرہ صاحبان سے حکومتِ پاکستان نے نہایت احترام کا سلوک بھی کیا اور انھیں تمام مطلوبہ سہولیات بھی فراہم کیں۔ جب وہ واپس بھارت گئے تو واہگہ بارڈر پر انھیں کوئی تکلیف نہ پہنچنے دی۔

اب دسمبرکے دوران بھارت میں بوہروں کا ایک مذہبی اجتماع ہورہا ہے۔ پاکستانی بوہرے بھارت جانے کے خواہشمند ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستانی بوہرہ کمیونٹی کے قائدین نومبر 2017ء کے آغاز میں اسلام آباد میں بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر(جتندر پال سنگھ) سے ملے اور ویزوں کے اجرا کی درخواست کی۔ بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر نے بوہرہ قیادت کو ویزوں کے اجرا سے صاف انکار کرتے ہُوئے کہہ دیا گیا:’’مَیں اس سلسلے میں تم لوگوں کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ ویزے لینے ہیں تو بھارتی سیاسی قیادت سے بات چیت کی جائے۔‘‘

پاکستانی بوہروں کی امن پسندی معروفِ عالم ہے۔بھارت مگر انھیں بھی ویزے جاری نہیں کررہا۔توکیا نریندر مودی کابینہ کے بزرگ وزیر، ہر دیپ سنگھ پوری، بتا سکیں گے کہ آیا پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی عملی کوششیں پاکستان کررہا ہے یا بھارت؟

بھارتی وزیر،ہردیپ سنگھ پوری صاحب، نے پاک بھارت بہتر تعلقات کے حوالے سے جس توقع کا اظہار کیا ہے، فی الحقیقت یہ ایک مستحسن تمنّا ہے۔ پوری صاحب پر مگر واضح ہونا چاہیے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا دروازہ بھارت کی طرف سے بند ہے۔ مسٹر پوری یقینا جانتے ہوں گے کہ بھارت کیسے کیسے مہلک ہتھکنڈوں کے ساتھ، براستہ افغانستان، پاکستان کے خلاف بروئے کار ہے۔

کلبھوشن یادیو ایسے بھارتی جاسوس کا پاکستان کے خلاف کارروائیاں کرتے ہُوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جانا ایک بڑا ثبوت ہے۔ کیا یوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری لائی جا سکتی ہے؟ بھارت کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر پاکستان اور اہلِ پاکستان کو خون کے آنسو رُلا رہا ہے۔ کیا ایسے میں پاک بھارت تعلقات میں بہتری آسکتی ہے؟ مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر یہ توقع پوری ہو سکتی ہے؟ ہر گز نہیں۔

اب تو یہ مصدقہ، افسوسناک اطلاعات بھی آئی ہیں کہ انڈین سیکیورٹی فورسزمقبوضہ کشمیر میں علیحدگی پسندوں اور مجاہدین کو سزا دینے کے لیے اُن کے گھروں، دکانوں اور تعلیمی ادروں کو ’’سفید فاسفورس‘‘ ایسے کیمیاوی بموں سے تباہ کررہے ہیں۔ ان بموں کی زَد میں آنے والے انسانوں کی لاشیں اتنی مسخ ہوجاتی ہیں کہ انھیں پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے۔ بھارت یہ ظلم کرکے دراصل اقوامِ متحدہ کے مسلّمہ اصولوں کو بھی پاؤں تلے روند رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کی طرف عالمی آنکھیں کیوں بند ہیں؟

کیا مظلوم اور بے بس کشمیریوں پر کیمیاوی بم برسا کر پاک بھارت تعلقات بہتر بنانے کی کوششیںہو رہی ہے؟ 22 نومبر 2017 کو بھارتی ائر فورس نے اپنے سخوئی جنگی طیاروں سے سُپر سونک کروز میزائل (براہموس) کو سمندر میں اپنے ہدف پر داغنے کا پہلا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اور ساتھ ہی پاکستان کو بھی دھمکی دے ڈالی ہے۔ کیا یوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری پیدا ہوگی؟ ہردیپ سنگھ پوری ایسے بھارتی وزیر پاکستان سے شکوہ کرنے کے بجائے اپنی اور اپنی حکومت کی اداؤں پر غور فرمائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔