مسئلے کی جڑ

وجاہت علی عباسی  اتوار 10 مارچ 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں اس وقت سب سے بڑی تفریح کا ذریعہ ہے ٹی وی پر خبریں دیکھنا۔ نہیں ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اور چیزوں کا شوق نہیں،لیکن ہمارے ہر شوق کو برے حالات کی نظر لگ گئی ہے، پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر میں شادی ہو یا کنسرٹ، کوئی بھی جگہ جہاں تھوڑی بہت بھیڑ جمع ہوتی ہے وہاں یہ خطرہ ہوجاتا ہے کہ کہیں کوئی حادثہ، کوئی حملہ نہ ہوجائے، اسی لیے ہم سب نے خود کو جانے ان جانے ہوسکتا ہے گھر میں قید کرکے شہر اور ملک میں کیا ہورہا ہے کی خبریں دیکھنا اور خود کو اس سے جتنا دور محسوس کرسکتے ہیں کی عادت ڈال لی ہے۔

پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ ریٹنگ نیوز چینلز کی ہے یعنی آسان زبان میں کہا جائے تو سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز نیوزکے ہیں، ہر شخص ہمارے یہاں ملکی حالات سے پوری طرح باخبر ہوتا ہے، بیشتر لوگ اپنی اپنی تھیوریز بھی رکھتے ہیں کہ حالات کیسے صحیح ہوسکتے ہیں اور مسئلے کی جڑ کیا ہے، کوئی گزری ہوئی حکومت کو کوستا ہے تو کوئی موجودہ کو، فرقہ وارانہ فساد پر نہیں تو دہشت گردی کا مسئلہ اس سب کے ساتھ ساتھ، امن وامان کا مسئلہ، بیشتر لوگ ان نظر آنے والے مسئلوں پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ جڑ زمین کے اندر ہوتی ہے جو نظر نہیں آتی اور ہمارے مسئلے کی جڑ بھی اوپر سے نظر نہیں آرہی۔

مانا کہ پاکستان میں غربت اور ناخواندگی ہے لیکن ملک چلانے والے یعنی سیاست دان، پولیس آفیسرز، گورنمنٹ آفیسرز  سب کچھ نہ کچھ تعلیم یافتہ ضرور ہیں اور یہ اسکول ہی ہے جہاں سے ہماری سوچ بنتی ہے۔ انڈیا اس وقت ہم سے کئی چیزوں میں بہت آگے ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں اور اس کی ایک وجہ اپنے تعلیمی سسٹم میں کئی بدلاؤ لانا ہیں، ایک بڑا بدلاؤ جو انڈیا لایا وہ یہ کہ انھوں نے اپنی چھوٹی کلاس کے بچوں کو پاکستان سے نفرت کرو سکھانا چھوڑ دیا، ایسا نہیں کہ انڈیا کے دل میں ہمارے لیے اچانک کوئی پیار جاگ گیا ہے لیکن وہ سمجھ گئے ہیں کہ کچے دماغوں کو یہ سمجھانا کہ کسی بھی دوسری قوم کو اپنا دشمن سمجھنا صحیح نہیں، اس سوچ کو بچوں میں ڈالنے سے بچہ بڑا ہوکر اپنی ہی سوسائٹی میں خود سے مختلف لوگوں سے نفرت کرنا سیکھ لیتا ہے لیکن پاکستان میں ابھی بھی ہم ٹیکسٹ بکس کے ذریعے اپنے معصوم بچوں کو برطانیہ اور انڈیا کے خلاف سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

مبارک علی جنہوں نے انڈیا پاکستان کی تاریخ پرکئی کتابیں لکھی ہیں کہتے ہیں کہ ہماری ٹیکسٹ بکس میں صرف یکطرفہ روداد ہے جب کہ سچ یہ ہے کہ انڈیا سے آنے والی بیشتر ٹرینوں پر حملہ نہیں کیا گیا تھا اور انڈیا جانے والی ٹرینوں پر حملہ کرنے میں مسلمان بھی پیچھے نہیں رہے تھے لیکن ہمارے اسکول کے بچوں کو صرف ’’انڈیا نے ظلم کیا‘‘ کی سیکھ دی جاتی ہے۔پاکستان کے ہر صوبے کے الگ الگ ایجوکیشن بورڈز ہیں لیکن ہر بورڈ کی ٹیکسٹ بکس میں انڈیا، غیر مسلم اور مغربی دنیا کے خلاف باتیں بھری پڑی ہیں۔

عبدالحمید نیئر ایک مشہور مورخ اور ایکٹوسٹ ہیں جنہوں نے لاہور میں باقاعدہ مہم شروع کی ہے جس میں وہ اساتذہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ بچوں کے ذہنوں میں نفرتیں نہ ڈالیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی تنگ نظری اور انگریزوں کے ظلم کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا، قسم کے جملے ہماری ٹیکسٹ بکس میں نہیں ہونے چاہئیں، کسی بھی چھوٹی کلاس کے بچے سے پوچھیں کہ پاکستان کیوں بنا؟ تو اس کے ذہن میں یہی تصور ہے کہ دوسری قوم نے ہم پر ظلم کیا جس کی وجہ سے ہم الگ ہوگئے ہماری کتابیں مسلمانوں کو اور پاکستان کو ’’مظلوم‘‘ کی طرح پیش کرتی آئی ہیں جو بدلنا چاہیے۔ہماری کتابوں کا مواد جو پاکستان بننے کے فوراً بعد مہیا کیا گیا تھا اس میں مزید ہمیں مظلوم بناکر پیش کیا گیا جب ضیاء الحق کی حکومت نے پاکستان میں اسلام پسندی کو فروغ دیا۔

عبدالحمید نیئر نے 2003 میں NCJP (اقلیتوں کی نمایندہ جماعت) کے ساتھ مل کر ایک فہرست تیار کی تھی جس میں وہ باتیں تھیں جو پاکستان ٹیکسٹ بک سے نکال دینی چاہیے تھیں، جس میں سے ان کی ایک تجویز لفظ ’’جہاد‘‘ کو بہت زیادہ اور ان کے خیال میں کئی جگہ غلط استعمال کرنا بھی تھا۔ عبدالحمید نیئر کے مطابق مشرف گورنمنٹ اس فہرست کا نوٹس لے کر نصاب میں کئی بدلاؤ لائی تھی، لیکن کیونکہ مشرف پر مختلف مذہبی جماعتیں پہلے سے ہی کئی طرح کے دباؤ ڈال رہی تھیں اس لیے ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مشرف حکومت نے وہی پرانا نصاب دوبارہ رکھ دیا ہے۔

راولپنڈی کے ایک اسکول نے خود سے اپنا نصاب بدل لیا ہے جس میں وہ بچوں کو کس سے کیوں نفرت کرنی چاہیے نہیں سکھاتے۔NCJP کے زور پر گورنمنٹ کیری کولم کمیٹی کے چیئرمین جناب ریاض احمد نے وعدہ کیا ہے کہ وہ پھر سے جائزہ لیں گے کہ ہماری کتابوں میں ایسا کیا ہے جو ہمارے بچوں کو نہیں پڑھنا چاہیے لیکن ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم کس سوسائٹی میں رہتے ہیں اور ہمیں بچوں کو اسی حساب سے تعلیم دینی چاہیے۔

ہم یہ نہیں کہتے کہ 1947 میں مسلمانوں کے ساتھ سب صحیح ہوا یا انگریزوں نے کوئی ظلم نہیں کیا، لیکن کچھ اچھی چیزیں ہمیں مغرب سے سیکھنی چاہئیں، امریکا اپنی چھوٹی کلاسوں میں نائن الیون کیا ہے نہیں پڑھاتا کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ بچہ بڑا ہوکر اپنے اندر پیدا ہوئی نفرتوں اور غصے کو اپنی ہی سوسائٹی پر نکالے گا اور اس میں ان کا اپنا ہی نقصان ہے، ہم اپنے بچوں کے کچے دماغوں میں کیا ڈال رہے ہیں اور اس سے کس کا نقصان ہے کا فیصلہ ہمیں کرنا ہوگا۔

اگر آپ پاکستان کے کسی اسکول سے پڑھے ہیں تو ہمارا آپ سے یہ سوال ہے کہ آپ کو کب پتہ چلا کہ انڈیا پاکستان کا دشمن ہے؟ اس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ ہمیں اسکول میں ابتدائی جماعتوں سے ہی یہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، اگر کسی قوم کی باگ ڈور سنبھالنے والے کی بنیاد نفرت، غصہ، دکھ اور بدلے پر رکھی جائے گی تو اس وقت کا بچہ بڑا ہوکر مہاجر، پنجابی، پٹھان، سندھی اور بلوچی میں فرق نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔