ربّ کی رضا

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  اتوار 10 مارچ 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

کورٹ سے فارغ ہوکر دفتر پہنچا تو ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی،یہ بارہ سال قبل کی بات ہے،ایک خاتون دوسری طرف سے ہم کلام تھیں اور لہجے سے غصہ چھلک رہا تھا، یہ فون اخبار کے دفتر سے آیا تھا، ہم ادارتی صفحے کے کالم نگار اور وہ طالب علموں کے صفحے کی انچارج تھیں۔ اخبارات پڑھنے والوں کو شاید خبر نہ ہو کہ قلم کاروں اور اخبا رکے ساتھیوں کا ماضی قریب میں بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔

بعض اوقات اس میں کشمکش کے مراحل بھی آتے تھے ، وہ دور ڈاک کے ذریعے یا فیکس یا دستی طور پر کالم روانہ کرنے کا دور تھا۔ دوسرے صفحے کی آخری یا تیسرے صفحے کی چوتھی سطر پڑھنی ہوتی تھی۔ اب ٹیکنالوجی نے رابطے میں کمی کردی ہے، اب گفتگو کم کم ہوتی ہے۔ نہ رابطہ اور نہ شکوہ شکایت۔ خاتون شدید برہم تھیں۔ وہ اخبار ہماری کالم نگاری کا ابتدائی دور تھا یوں شاید ’’عزم نو‘‘ عمرکے اعتبار سے بزرگ تر قرار پائے۔ ایک انوکھا لیکن دلچسپ واقعہ نا تجربہ کاری کے سبب پیش آیا اور’’وہ مجھ سے ہوئیں ہم کلام اللہ اللہ۔کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ‘‘ جوں جوں واقعات آگے بڑھتے جائیں گے خاتون کا غصہ برحق ہونے لگے گا۔

ایک کالم جو مضمون نما تھا اور نوجوانوں سے متعلق تھا وہ طالب علموں کے صفحے یعنی ان محترمہ کو روانہ کردیا۔ کئی ماہ گزر گئے لیکن شایع نہ ہوا۔ اس دوران ایک وقت وکیلوں پر ایسا آیا کہ مقدمات تیز رفتاری سے چلنے لگے۔ اب نہ اخبار پڑھنے کو وقت تھا اور نہ کوئی کالم وارد ہوتا۔ طالب علموں والے مضمون کو ناقابل اشاعت سمجھ کر ادارتی صفحے کو روانہ کردیا جو دو تین دن بعد شایع ہوگیا۔ جس دن یہ کالم شایع ہوا،اسی دن اخبار کے دفتر سے ایک فون آیا۔ یہ واقعات اخبار میں لکھنے والوں کے لیے اپنے اندر دلچسپی لیے ہوئے ہیں اور نوجوانوں کے لیے ایک کشش۔

خاتون نہایت غصے میں تھیں۔ اخبار کے تعلیمی صفحے کی انچارج شعلے اگل رہی تھیں، ان کی شکایت تھی کہ میں نے جو تحریر طالب علموں کے صفحے کو بھیجی تھی وہی ادارتی صفحے کے لیے کیوں بھجوائی؟ میری دلیل تھی کہ اس بات کو کئی ماہ گزر چکے ہیں، جب اشاعت کا مرحلہ نہیں آیا تو سمجھا گیا کہ آپ نے ہماری تحریر ردی کی ٹوکری کی نذر کردی ہے۔ خاتون مسلسل غصے میں تھیں اور کوئی دلیل بھی ان پر اثر نہیں کر رہی تھی۔ میرا کہنا تھا کہ اس ہفتے عدالتوں میں بہت کام رہا۔ چیف جسٹس نے سابقہ مقدمات ختم کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

جن مقدمات کے لیے دو تین ہفتوں کا وقت ملتا تھا اب ان میں دو تین دن کی تاریخ دی جارہی ہے۔ وکلاء کی ڈائری کے صفحات کم پڑ گئے ہیں، چار چار بجے تک دفتر نہیں پہنچ سکتے کہ موکلین سے کب ملاقات کریں، اخبارات بھی نہیں پڑھ سکتے اور جب پڑھتے نہیں ہیں تو لکھیں کیا۔ اس مجبوری کے سبب اور آپ کی جانب سے اشاعت نہ ہونے پر وہ کالم ادارتی صفحے کو روانہ کردیا۔ انھوں نے یہ دلیل بھی رد کردی ، اب تک یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ خاتون اتنی غصے میں کیوں ہیں؟ کئی ماہ تک عدم اشاعت کی دلیل بھی انھیں قائل نہ کرسکی۔

طالب علموں کے صفحے کی انچارج نے ہماری دلیل یہ کہہ کر رد  کردی کہ ادارتی صفحہ روزانہ شایع ہوتا ہے اور تعلیمی صفحہ ہفتے میں ایک مرتبہ۔ ہمارے پاس بہت رش ہوتا ہے اور اشاعت کی باری کئی کئی مہینے بعد آتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو مواد میں نے اخبار کے ایک صفحے کے لیے بھیجا تھا وہ اس اخبار کے دوسرے شعبے کو نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ گفتگو جاری تھی اور آنے والے وقت میں غصے کی وجہ بھی سمجھ میں آگئی اور میری ایک بات نے اس غصے کو جھاگ کی طرح بٹھادیا۔ سبق سے پہلے سواد نہ آجائے تو پیسے واپس۔

باجی کا کہنا تھا کہ ’’ایک ہی تحریر ایک ہی دن اخبار کے دو صفحات پر شایع ہورہی تھی، انھیں ایڈیٹر صاحب نے فون کرکے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی، وہ طالب علموں والا صفحہ سیٹ کرکے آئی تھیں، وہ دن ان کا آف تھا اور اس مسئلے کی وجہ سے انھیں اخبار کے دفتر آنا پڑا۔ اسی دن انھیں اپنی بہن کے ساتھ شاپنگ کے لیے جانا تھا جو امریکا سے آئی تھیں۔‘‘ خاتون کا کہنا تھا کہ میری غلطی کے سبب انھیں باہر سے آئی ہوئی اپنی بہن کو چھوڑ کر دفتر کی جانب دوڑ لگانی پڑی۔ باجی نے کہا کہ مجھے ذمے داری کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔ اگر یہ تحریر ادارتی صفحے کو بھجوائی تھی تو طالب علموں کے صفحے کی انچارج کو مطلع کرنا چاہیے تھا۔

اف خدا ! اب پتہ چلا کہ خاتون غصے میں کیوں تھیں۔ اب تک ان کی تیزی کم نہیں ہورہی تھی۔ امریکا سے آئی ہوئی بہن کے ساتھ شاپنگ کے ’’رنگ میں بھنگ‘‘ پڑ گیا تھا۔ میں نے پہلے مرحلے پر سوری کہہ کر اپنی بات کہنے کی گنجائش پیدا کی۔ کہا کہ محترمہ! ہم مسلمان سمجھتے ہیں کہ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہوتی ہے، ممکن ہے آپ بازار میں اپنی بہن کے ساتھ جاتیں اور کسی ناگہانی واقعے کا شکار ہوجاتیں یا خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آجاتا۔ ممکن ہے قدرت آپ کو چھوٹی مصیبت میں مبتلا کرکے بڑی مصیبت سے بچانا چاہتی ہو۔ یوں ایک خاتون صحافی کی ناراضگی ختم ہوئی۔ یہ واقعہ تو کسی اور کی پریشانی کا تھا جسے اطمینان سے دفتر میں بیٹھ کر ربّ کی رضا کا عنوان دے دیا۔

آئیے! دیکھیں کہ ذاتی طور پر اس قصے میں کیا ہوا۔ہائی کورٹ کی ہفتے کو تعطیل ہوتی ہے یعنی مقدمات نہیں چلتے، اس لیے اس دن سٹی کورٹ میں زیادہ رش ہوتا ہے۔ ہفتے کے دن ہی میرے بیٹے کے اسکول میں والدین و اساتذہ کا اجلاس تھا۔  اسکول میں ایک بجے تک پہنچنا تھا۔ صبح نو بجے راجہ ریاض شہید روڈ پر گاڑی اس طرح پارک کی کہ آسانی سے نکل سکوں۔ سٹی کورٹ سے صدرکا فاصلہ تقریباً دو کلومیٹر ہے، جب ساڑھے بارہ بجے اسکول جانے کے لیے گاڑی دیکھی تو غائب۔ خطرہ تھا کہ لفٹر والے اٹھاکر لے گئے ہیں۔

رکشہ لے کر تھانے پہنچا تو پولیس افسر نے کہا کہ ہم کو اس روڈ سے گاڑیاں اٹھانے کی اجازت نہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ گاڑی چوری ہوگئی ہے۔ اب اسکول بھی پہنچنا تھا۔ تھانے سے دوسرا رکشہ پکڑ کر اسکول پہنچا۔ تین بجے تک اسکول میں مختلف اساتذہ کرام سے بچے کے والدین ملتے رہے۔ صبح عدالت میں مقدمات اور دوپہر کو گاؤں کی تلاش اور پھر ٹیچرز سے میٹنگ۔ اسکول سے فارغ ہوکر تیسرا رکشہ پکڑکر ایک اور تھانے پہنچا کہ پتہ چلے کہ گاڑی پولیس نے اٹھائی ہے یا چوروں نے۔ انھوں نے بھی کہا کہ لفٹر تو نہیں اٹھاتا باقی چوری کا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اب واپس تھکا ہارا سٹی کورٹ کی جانب آرہا تھا کہ ایک وکیل صاحب ملے اور احوال پوچھا۔

بتایا تو وہ بھی ساتھ چل دیے کہ بار ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے بات کرتے ہیں۔ اب جو سٹی کورٹ کی جانب بڑھے اور دیکھا تو گاڑی وہیں کھڑی تھی جہاں پارک کی تھی، گاڑی ملنے کی خوشی اور توجہ نہ دینے کی غلطی، یہ جذبات کا سنگم تھا۔ خاتون صحافی کو ربّ کی رضا والی بات کی یاد نے ساری تھکن دور کردی اور پورے جسم میں اطمینان کی لہر دوڑا دی۔ شاید ان دھکوں کی پریشانی میں ربّ کی رضا ہو۔ گاڑی لے کر جاتا تو ممکن ہے کسی حادثے کا شکار ہوجاتا۔ قدرت ہمیں چھوٹی مصیبت میں ڈال کر بڑی مصیبت سے بچانا چاہتی ہو۔ اگر یہ دل کا بہلانا ہی ہے تو اس میں کس کا فائدہ ہے؟ بعض اوقات بالکل آسان کام مشکل ہوجاتے ہیں اور ممکن ہوکر نہیں دیتے۔ پریشانی اور جھنجھلاہٹ ہمارے اگلے کاموں کو بھی خراب کردیتی ہے۔ ’’جو ہوا سو ہوا‘‘ کہہ کر آگے بڑھنا کہ یہ ہماری قسمت نہ تھا، ہمارے اپنے فائدے میں ہے۔ ہمیں ہر حال میں راضی رہنا چاہیے جس میں ہو ربّ کی رضا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔