جمہوری قدروں کا تقاضا

شبیر احمد ارمان  منگل 28 نومبر 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

پاکستان دنیا کی واحد نظریاتی مملکت ہے، اس نظریے کی اساس دین فطرت اسلام پر ہے جس سے وابستہ دنیا کے ہر گوشے میں بکھرے ہوئے کروڑوں انسان رنگ و نسل، زبان و تہذیب اور ثقافت کے فرق کے باوجود ایک ایسے روحانی رشتے میں منسلک ہیں جس کے سامنے دنیا وی رشتے ہیچ ہیں۔

اس اسلامی رشتے نے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کے خواہ دنیا کے کسی بھی خطہ میں آباد ہوں تمام امتیازات ختم کرکے اسلامی برادری کے رشتے میں منسلک کردیا۔ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا جانے والا واحد نظریاتی ملک ہے، اس لیے یہ ملک دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن اور ان کی امیدوں کا مرکز ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں مختلف نظریات کا پرچار کرکے موجودہ نسل کو نظریہ پاکستان کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا کرکے گمراہ کرنا چاہتی ہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کے معماروں کو ہم نے یکسر فراموش کردیا ہے، دنیا کی زندہ قومیں اپنے محسنوں کو نہ صرف یاد رکھتی ہیں بلکہ ان کو دنیا سے متعارف کراتی ہیں اور اس مقصد کے لیے ایسے ذرائع اختیار کرتی ہیں کہ دوسری قوموں کی توجہ خودبخود ان محسنوں کی جانب مبذول ہو، مگر افسوس ہماری موجودہ نسل ان عظیم محسنوں سے اور ان کی گراں قدر خدمات سے ناواقف ہے۔ ان نوجوانوں کو نظریہ پاکستان اور تحریک پاکستان کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے لاکھوں شہداء کی قربانیوں سے روشناس کرانا انتہائی ضروری ہے۔

آج اگر ہم پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے ملک کا نصف حصہ اس لیے علیحدہ ہوا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو فراموش کردیا تھا۔ ماضی کی حکومتوں نے نظریہ پاکستان کے فروغ کے لیے نہ صرف کوئی عملی کام نہیں کیا بلکہ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ملک کے اندر ایسے عناصر نے جنم لیا جو نظریہ پاکستان کے مخالف تھے۔ سابقہ حکومتوں نے نظریہ پاکستان کے ان مخالفین کی نہ صرف یہ کہ سرکوبی نہیں کی بلکہ ان کو حکومت میں وزارت، سفارت اور دوسرے اعلیٰ عہدے دیے گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مخالفین کو نظریہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ آگیا۔

ملک میں قومیتوں کا نعرہ لگایا گیا، ہر صوبہ کی علیحدہ علیحدہ ثقافت گنوائی گئی،  قومیت کی بنیاد پر نمایندگی اور آزادی کا نعرہ لگایا گیا، یہ سب نعرے اسی پاکستان میں لگائے گئے جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا۔ ان تمام سازشوں اور شرپسندی کا یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ نئی نسل جو نظریہ پاکستان، اکابرین اور شہیدوں کی قربانیوں سے ناواقف تھی، ان خوش کن نعروں کے دھوکے میں آگئی۔

مشرقی پاکستان کے نوجوان طبقے نے اس نعرے پر سب سے پہلے عمل کیا، جس کی وجہ سے ملک کا نصف حصہ ہم سے کٹ کر بنگلہ دیش بن گیا، اسی طرح نظریہ پاکستان کے تمام مخالفین اور اسلام دشمن افراد نے پاکستان کے خلاف جو سازش تیار کی تھی نظریہ پاکستان کے علمبرداروں کے باہمی اختلافات اور کوتاہیوں کی وجہ سے اس میں کافی حد تک کامیابی حاصل کرلی۔

کافی عرصہ بعد ملک میں جنرل ضیاء الحق حکومت نے سب سے پہلے نظریہ پاکستان کو فروغ دیا کہ پاکستان ایک نظریاتی مملکت  ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ملک میں اسلامی نظام کی باتیں زندہ ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عام شہریوں خصوصاً نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا جائے جو کہ حب الوطنی کے لیے ضروری ہے۔

پاکستان کے مغرب نواز سیاست دانوں نے جمہوریت کا واویلا مچا رکھا ہے، جن کا تعلق سرمایہ دار طبقات سے ہے، جنھیں عوام نے معاشی جبر کے تحت قبول کر رکھا ہے۔ اگر خاندانی اور ریاستی جبر نہ ہوتا تو عوام کسی طور بھی اس قیادت کو قبول نہ کرتے جس کی تعداد پاکستان میں کسی طرح بھی دو فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔

کتنے تعجب کی بات ہے کہ یہ دو فیصد طبقہ، نوے فیصد طبقے پر اپنے استحصالی ہتھکنڈوں کے ذریعے حکومت کرتا ہے، جب کہ جمہوری قدروں کا تقاضا یہ ہے کہ نوے فیصد طبقہ دو فیصد طبقہ پر حکومت کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاست دانوں نے 70 سال میں شخصی اجارہ داری قائم کرنے کے سوا کوئی قابل ذکر کام نہیں کیا، سیاست دانوں نے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کی سیاست کو رواج دے کر قوم کے مزاج کو اس معیار سے دور کردیا ہے جو قائداعظم محمد علی جناح چاہتے تھے۔

سیاسی عدم استحکام، معاشی عدم استحکام، معاشرتی بگاڑ آج ہمارے سامنے ہے، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام سیاست کی ہی وجہ سے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ طبقات جمہوریت کا نام لے کر معصوم عوام کو سیاسی میدان میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اکساتے ہیں لیکن اپنی جماعتوں میں جمہوریت کے قیام کے روادار نہیں ہوتے، جس ملک میں خاندانی سیاسی وراثت قائم ہوجائے وہاں جمہوریت کا قیام ناممکن ہوتا ہے، بلکہ جمہوریت ایک استحصالی نعرہ بن جاتی ہے۔

اگر سیاست میں خاندانی وراثت کا وجود نہ ہوتا تو سیاسی کارکن، سیاسی جماعتوں کے سربراہ تک بننے کی توقعات کرسکتے تھے اور وہ بھی اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملک اور قوم کی خدمت کرسکتے تھے، لیکن جو فرسودہ سیاسی نظام رائج ہے، جو سیاسی خاندانی وراثتی سسٹم مسلط ہے، جس نے کارکنوں کو جکڑے رکھا ہے کہ سیاسی کارکن محض استعمال ہی ہوتے رہیں گے۔ اس طرح جابر اقلیت مظلوم اکثریت پر حاوی ہوتی رہے گی۔

بیشتر سیاسی جماعتوں کے متوسط اور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے جمہوریت پسند کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اب اپنا استحصال نہیں ہونے دیں گے اور کسی ایسی جماعت کا ساتھ نہیں دیں گے جس نے جمہوری اقدار کو پامال کرکے خاندانی سیاسی وراثت قائم کی ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں جمہوری انداز سے اپنی قیادت غریب اور متوسط طبقہ کے حوالے کردیں۔

اسلام کے اعلان حق سے پہلے کہیں بھی بنی نوع انسان کو ریاستی آزادی حاصل نہ تھی، ایک عام آدمی شریک اقتدار ہونے کا تصور نہ کرسکتا تھا، کیوں کہ اس دور میں دنیا میں بادشاہوں، گروہی اور قبائلی نظام کا رواج تھا۔ کسی بھی اصول کے بغیر سربراہ مملکت کا فرمان ریاستی قانون کی حیثیت رکھتا تھا، قبائلی گروہی، سرداروں اور بادشاہوں کا ایک خاندان ہوتا تھا جو حق حکمرانی رکھتا تھا اور اقتدار وراثت کو منتقل ہوتا رہتا تھا تاکہ کوئی اور قبیلہ یا گروہ اقتدار پر قبضہ نہ کرے، پرامن انتقال اقتدار کا کوئی رواج نہ تھا۔

پرامن انتقال اقتدار صرف حکمران خاندانوں ہی میں حکمراں کی موت کے بعد ہوا کرتا تھا، بشرطیکہ خاندانی جھگڑے نہ ہوں۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح عرب اور ہندوستان میں بھی اقتدار کے حصول اور اس کے خاتمہ یا اقتدار کی تقسیم کے وہی اصول تھے جو تمام دنیا میں ایک ہی اصول کے ساتھ رائج تھے۔ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جس نے حقیقی جمہوریت سے متعارف کرایا، جو اللہ کے احکام کے تحت منتخب قومی سربراہ مملکت اور اس کی نامزد مجلس مشاورت کا تصور پیش کرتی ہے۔

اس طرز حکومت میں نفاق کی بہت کم صورت تھی۔ یہ وہ نظام تھا جس نے دنیا کو حقیقی معنوں میں انسانیت سے روشناس کرایا۔ اسلام کے اس نظام کو تہہ و بالا کرنے کے لیے یہود و نصاریٰ نے اندرونی اور بیرونی سازشوں سے کام لیا اور یہ نظام معدوم ہوکر پھر خاندانی بادشاہوں کی طرف رجعت کرگیا لیکن چونکہ ایک ایسا نظام اسلام کے پاس موجود ہے جسے کسی بھی وقت احساس زیاں ہونے کے بعد اپنایا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔