’’ٹیلنٹ سرحدوں کا محتاج نہیں ہوتا‘‘

قیصر افتخار  منگل 28 نومبر 2017
مجھے امید ہے کہ میرے تمام پراجیکٹس شائقین جب دیکھیں گے تواس کوسپورٹ کرینگے اورخوب لطف اندوز بھی ہوں گے، اداکار۔ فوٹو: ایکسپریس

مجھے امید ہے کہ میرے تمام پراجیکٹس شائقین جب دیکھیں گے تواس کوسپورٹ کرینگے اورخوب لطف اندوز بھی ہوں گے، اداکار۔ فوٹو: ایکسپریس

 

ہمیشہ وہی لوگ ملک وقوم کا نام روشن کرتے ہیں جوزندگی کے مختلف شعبوںمیں ایساانوکھا اورمنفرد کام کریں جس سے ان کے وطن کوایک نئی پہچان ملے۔

اس سلسلے میں زیادہ ترشخصیات کا تعلق کھیل اورفنون لطیفہ سے ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ زندگی کے تمام شعبوں میں یہ دو شعبے ایسے ہیں جن کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ کھلاڑیوں کے کھیل کو پسند کرنے والوں کا تعلق کسی ایک ملک، قوم سے نہیں ہوتا ، اسی طرح فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنے فن سے منفرد پہچان بنانے والے بھی کسی سرحد کے محتاج نہیں ہوتے۔ ان کا فن سرحدوں کو ختم کرتا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے۔

خاص طور پر موسیقی سے وابستہ گلوکاراور میوزیشن اپنے فن کے ذریعے جہاں لوگوں کو تفریح فراہم کرتے ہیں وہیں امن، محبت، بھائی چارے کا پیغام بھی دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ ایسے ہی فنکاروں میں ایک نام یاسر اخترکا بھی ہے۔ جنہوں نے صرف پانچ برس کی عمر میں اداکاری کے شعبے میں قدم رکھا اورپھراپنی فنی صلاحیتوں کے ذریعے سچے سروںکا پرچار بھی کیا۔ انہوں نے جہاں اپنے فنی سفرکے دوران ایکٹنگ اورگلوکاری کے شعبوں میں خوب نام کمایا، وہیں پروڈکشن کے شعبے میں بھی ایسا نمایاں کام کیا، جس کوبرطانیہ میں بسنے والے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب یاسراخترکا نام اعتماد کی پہچان بن چکا ہے۔

اسی لئے تواب وہ اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے کچھ ایسے نئے پروگرام لے کرپاکستان آئے ہیں، جس کی بدولت پاکستان میں معروف اوربہت سے نوجوان فنکاروںکو اپنی صلاحیتوںکے جوہردکھانے کا ایک نادرموقع مل پائے گا۔ وہ گزشتہ بیس روز سے پاکستان میں ہیں اوران دنوں اپنے پراجیکٹس کا شیڈول ترتیب دینے کے ساتھ ساتھ نجی چینلز کے مارننگ شوزمیں شرکت کررہے ہیں۔ کوئی ان کے ماضی کی باتیں کررہا ہے توکوئی مستقبل کی، کوئی پرانے دوستانے یاد کروارہا ہے توکوئی یادگارلمحات۔

بس یوں کہئے کہ یاسراخترکی چھ ، سات برس بعد وطن واپسی نے ان کے قریبی دوستوں اورچاہنے والوںکوایک ایسا سرپرائز دیا ہے، جس کی وجہ سے اب ان کے شب وروز بے پناہ مصروفیت میں گزررہے ہیں۔ پہلے لاہوراوراب کراچی میں دعوتوںکا سلسلہ بھی عروج پر ہے۔ اپنی بے پناہ مصروفیات کے دوران یاسراختر نے ’’ایکسپریس‘‘ کوخصوصی انٹرویودیا ، جوقارئین کی نذر ہے۔

یاسراخترنے بتایاکہ ان کا حالیہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی پروڈکشن کمپنی ویسے توعرصہ دراز سے برطانیہ میں کام کررہی ہے اوروہاں ہم میوزک کنسرٹس، شارٹ فلمیں اوردیگرسرگرمیوں میں حصہ لیتے رہتے ہیں۔ جس کا مقصد دیارغیرمیں پاکستان کا سافٹ امیج متعارف کروانا ہے۔ لیکن اس مرتبہ میں نے پاکستان کے باصلاحیت فنکاروں اورگلوکاروں کیلئے ایک ایسا ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ترتیب دیا ہے، جس سے ان کی زندگیاں سنور جائیں گی۔ جو بھی باصلاحیت لڑکا اورلڑکی عمدہ کام کرے گا، اس کوشوبز کے افق پرچمکنے کیلئے ایسے مواقع فراہم کئے جائیں گے جس کیلئے ایک فنکار کو برسوں انتظارکرنا پڑے گا۔

اس سلسلے میں، میں نے پاکستان کے مختلف پرائیویٹ چینلز سے بھی خصوصی ملاقاتیں کی ہیں، جس کا مقصد اپنے پراجیکٹس کوعملی شکل دینا ہے۔ ہم صرف ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام ہی نہیں بلکہ شارٹ فلمیں اورڈرامہ سیریزبھی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ ٹاسک خاصا مشکل ہے لیکن میں نے اس کیلئے تمام ترتیاریاں مکمل کرلی ہیں۔ اس دورہ کے دوران میں نے بہت سے سینئرفنکاروںکو بھی اپنے ساتھ کام کرنے کیلئے راضی کرلیا ہے، تاکہ جب آئندہ برس ان پراجیکٹس پرکام شروع کریں تواس سے پہلے ہر طرح کی کاغذی کارروائی مکمل ہو اورشیڈول کے مطابق سب کچھ کیاجائے۔

انہوں نے کہا کہ میرا کیرئیر بطورچائلڈ سٹارشروع ہوا، اس وقت تومجھے بھی پتہ نہ تھا کہ مستقبل میں یہی شعبہ میرا پروفیشن بن جائے گا۔ لیکن پھرفنی سفرآگے بڑھتا چلا گیا اورمیں ایکٹنگ کے ساتھ ساتھ میوزک کے شعبے میںکام کرنے لگا۔ پاکستان میں جب میوزک چینل چارٹس بنتے تھے ، اس وقت میرے گیتوںکے ویڈیو بے حدمقبول ہوئے۔ حالانکہ اس وقت وائٹل سائن، علی حیدر، سٹرنگزاوربہت سے میوزک بینڈز اورگلوکارپاپ میوزک میں کام کررہے تھے۔ یہاں پرکام کرتے کرتے ملک بھرمیں میوزک کنسرٹس کئے اورپھرمیں برطانیہ منتقل ہوگیا۔

بطورایک مقبول آرٹسٹ آپ کیلئے یہ خاصا مشکل ہوتا ہے کہ کسی دوسرے دیس میں جا کرزندگی بسرکریں، لیکن میں نے ایساکیا اوربہت سی مشکلات بھی سامنے آئیں، مگرمیں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں نے پیسے کمانے ہیں، کیونکہ میں پاکستان میں کام کرتے ہوئے اچھے پیسے کماتا تھا۔

برطانیہ میں کام کرنے کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ دیارغیرمیں جہاں پڑوسی ملک کے لوگ چھائے ہوئے تھے، وہاں کوئی پاکستانی بھی ایسا کام کرکے دکھائے ، جس پرسب کوفخر ہو۔ میں نے یہ سلسلہ شروع کیا اورپھردیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ میں یاسراخترکا نام چھانے لگا۔ میں نے اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینرتلے اب تک 400سے زائدویڈیوپروڈیوس کئے ہیں۔  اس کے علاوہ ٹیلی فلمیں، ڈرامے اورمیوزک پروگراموں کا انعقاد معمول کی بات تھی۔

یاسراخترنے اپنے مختصر انٹرویومیں مزید بتایا کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کبھی بھی کمی نہیں رہی۔ میرے پراجیکٹس کے حوالے سے ابھی توکچھ لوگ خوفزدہ ہیں لیکن میں یہ بات بخوبی جانتا ہوں کہ پاکستان کے کونے کونے میں ٹیلنٹ بھرا پڑا ہے ۔ انہیں صرف ایک بہترین پلیٹ فارم مہیاکرنے کی ضرورت ہے۔ پھریہ ٹیلنٹ ملک کی سرحدوں کوپارکرتے ہوئے دنیا بھرمیں امن، دوستی اوربھائی چارے کا پیغام پہنچائے گا۔

اسی نیک مقصد کے ساتھ میں نے اس کام کوشروع کیا ہے۔ ابھی تومیں اکیلا ہوں، لیکن بہت جلد میری یہ کاوش ایک کاروان کی شکل اختیارکرے گی جس کی خوشبو سب محسوس کریں گے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ میرے تمام پراجیکٹس شائقین جب دیکھیں گے تواس کوسپورٹ کرینگے اورخوب لطف اندوز بھی ہوں گے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔