دوستوفسکی کی کہانیوں کا حشرنشر

غلام محی الدین  پير 11 مارچ 2013
gmohyddin@express.com.pk

[email protected]

ہفتہ دس دن کی بات ہے کسی کام سے انار کلی جانا ہوا تو نیلا گنبد کے فواروں کے ساتھ شامیانوں کے سائے میں آراستہ کتاب میلے نے متوجہ کیا۔

ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ خواہ کوئی کتاب نہ خرید پاؤں لیکن دیکھنے سے خود کو نہیں روک پاتا‘ وہاں پڑی چند کتابوں نے ماضی کی خوبصورت یادوں کا در وا کر دیا۔ ایک تو دو جلدوں پر مشتمل لیوٹالسٹائی کے شہرہ آفاق ناول War and peace کا شاہد حمید کے قلم سے اُردو ترجمہ تھا اور دوسرا ’دوستوفسکی کہانیاں‘ کے نام سے عظیم روسی ادیب اور ناول نگار فیودور دوستوفسکی کی تین طویل کہانیوں پر مشتمل کتاب تھی۔ اس کتاب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس کے مغربی انداز کے سرورق پر ترجمہ نگار کا نام ظ۔ انصاری تحریر تھا، جب کہ ناشر کے طور پر ’’بک ٹائم اردو بازار کراچی‘‘ کا پتہ درج تھا۔

یقیناً سوویت دور میں روس سے جو کتابیں اُردو زبان میں چھپ کر یہاں آتی تھیں، ان میں سے کوئی نسخہ اُٹھا کر اس کے متن کو دوبارہ استعمال میں لایا گیا ہے۔ روس اور دیگر مغربی ممالک میں بچوں کے لیے چھپنے والی کتابوں سے بچپن ہی سے شناسائی تھی لیکن روسی ناولوں سے میری واقفیت اس دور میں ہوئی جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تھا۔ ’دارورسن کی آزمائش‘ وہ پہلا ناول تھا جس نے روسی ادب کی اولین لذت سے آشنا کیا۔ نکولائی آستروفسکی کا یہ ناول ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔

لاہورکی مال روڈ پر پیپلز پبلشنگ ہاؤس کے نام سے کتابوں کی ایک دکان ہوا کرتی تھی جہاں سے ہم روسی ادب کے اُردو تراجم خریدا کرتے تھے۔ اور ڈاکٹر ظ۔ انصاری کے ہنر اور صلاحیتوں سے ہمارا تعارف انھی کتابوں کے توسط سے ہوا۔ انصاری صاحب نے لسانیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی اور اردو‘ روسی‘ عربی‘ انگریزی اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ انھوں نے برنارڈشاء‘ الیگزینڈر پُشکن، چیخوف اور دوستو فسکی جیسے ادیبوں کے فن پاروں کو اُردو میں منتقل کر کے اُردو سمجھنے والے کروڑوں لوگوں کو بدیسی ادب سے متعارف کرایا۔ اس کے علاوہ حضرت امیر خسرو‘ غالب اور علامہ اقبال پر ان کا کام بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے۔ اردو‘ روسی لغت مرتب کرنے کا سہرا بھی انھی کے سر ہے۔

کسی ادبی تخلیق کو دوسری زبان میں منتقل کرنا کسی طرح بھی تخلیق سے کم تر درجے کا کام نہیں ہوتا بشرطیکہ اسے اصلی تحریر کے تمام تر احساسات کے ساتھ قاری تک پہنچایا جائے۔ ظ۔ انصاری کے تراجم میں یہ صفت اپنے تمام تر لوازمات کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ ان کے تراجم پڑھنے والے کے گرد ایک پورا ماحول قائم کر دیتے ہیں ۔ ایسا بھرپور ماحول جسے تمام تر تفصیلات کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے‘ یوں جیسے قاری خود کتاب کے صفحات پر پھیلے ہوئے منظر نامے میں سانس لیتا ہو‘ کتاب کے اندر جا کر رہ سکتا ہو‘ جیسے کتاب ایک زندہ شخصیت رکھتی ہو اور آپ سے بات کرتی ہو۔

روس سے چھپ کر آنے والی کتابوں کا ایک خاص رنگ روپ ہوا کرتا تھا۔ چکنے‘ چمکدار کاغذ پر اردو ٹائپ رائٹر کی طرز کے حروف ہوا کرتے تھے اور اکثر ناول نہایت شاندار مصوری سے مزین ہوتے تھے۔ نوجوانی کے اس دور میں ان کتابوں کے ساتھ ایک طرح کا رومانس وابستہ تھا جو اب بھی قائم ہے۔ پھر جب سوویت یونین کا خاتمہ ہوا تو ان سستی اور معیاری کتابوں کی ترسیل بھی منقطع ہو گئی۔ کتاب میلے میں اس کتاب پر ’’ترجمہ۔ ظ انصاری‘‘ لکھا ہوا دیکھا تو پہلا احساس یہ تھا کہ چلو کچھ لوگوں کا اس طرف بھی دھیان ہے کہ ان نادر فن پاروں کی کسی نہ کسی شکل میں اشاعت کا اہتمام ہونا چاہیے۔ لیکن اس کتاب کو پڑھنا شروع کیا تو وہ خوشی کافور ہوتے دیر نہیں لگی جو اسے خریدتے وقت ہوئی تھی۔

کسی کہانی کو پڑھتے ہوئے تحریر کا تسلسل بہت اہم ہوتا ہے لیکن اس کتاب کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جہاں پروف کی غلطی نظر نہ آئے۔ کتاب میں کُل تین کہانیاں ہیں۔ آخری کہانی ’’جواری‘‘ سب سے زیادہ طویل ہے اور اس کا تو یہ حال ہے کہ بعض صفحات پر تو شاید ہی کوئی سطر ایسی ہو جو غلطی سے پاک گزر جائے۔ ذرا غور کریں کہ ترجمہ شدہ مسودہ سامنے رکھ کر اس کو دوبارہ لکھا گیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ روس سے چھپ کر آنے والی کتابوں میں پروف کی غلطی کا سوال پیدا نہیں ہوتاجب کہ اس کتاب میں اردو کی ایک تحریر کو سامنے رکھ کر لفظ بہ لفظ نقل کیا گیا ہے۔

اس کے باوجود کتاب میں پروف کی سیکڑوں غلطیاں ہیں۔ ذرا ہمارے ہاں رائج کاروباری دیانت کو دیکھیں کہ لوگوں سے رقم لے کر انھیں ایک چیز بیچی جا رہی ہے لیکن اس چیز کے بے عیب ہونے کا کوئی اہتمام نہیں۔ اس بات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ایک پہلے سے چھپی ہوئی کتاب کو کسی اجازت کے بغیر چھاپ دینا بھی درست نہیں ہوتا لیکن یہ رعایت دی جا سکتی ہے کہ ’چلو‘ ایک اچھی تخلیق لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام تو ہوا‘ لیکن یہ کون دیکھے گا کہ آیا جس چیز کے عوض رقم وصول کی جا رہی ہے وہ مطلوبہ معیار پر پوری اترتی ہے یا نہیں۔

صاف ظاہر ہے کہ کتاب چھاپنے والوں نے اصل مسودہ سامنے رکھ کر کمپیوٹر کمپوزنگ کرنے والے کی صوابدید پر انحصار کیاگیا۔ کسی نے یہ زحمت ہی نہیں کی کہ اصل مسودہ سامنے رکھ کر اس کا جائزہ لے لے۔ ابھی چند ماہ پہلے یہ خبر نظروں سے گزری تھی کہ جاپان کے ایک بڑے موٹر کاریں بنانے والے ادارے نے اپنی کار کے ایک ماڈل میں تکنیکی خرابی ظاہر ہونے کے بعد نہ صرف دنیا بھر کے شورومز میں پڑی اپنی کاریں واپس منگوا لی ہیں بلکہ جن لوگوں نے یہ گاڑیاں خرید لیں تھیں ان کے نقصان کا ازالہ بھی کیا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے جب میں بہت زچ ہو گیا تو قلم پکڑ کر غلطیاں درست کرنے لگا کہ اگر کسی اور کو پڑھنے کے لیے دوں گا توا سے آسانی رہے۔ لیکن کچھ صفحات کے بعد مجھے یہ مشقت ترک کرنا پڑی۔

کسی بھی کامیاب معاشرے کی اہم صفت احساس ذمے داری ہوتا ہے‘ یہی وہ احساس ہے جو اپنے حقوق پر اصرار کے فطری تقاضے کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی پر آمادہ کرتا ہے۔ احساس ذمے داری اس وقت بھی انسانی افعال پر اثر انداز ہوتا ہے جب اسے کوئی نہ دیکھ رہا ہو‘ جب دھوکا دینا‘ غفلت برتنا اور ناروا مفادات کا حصول آسانی سے ممکن ہوتا ہے۔ مجھے اس صورتحال پر ایک واقعہ یاد آ رہا ہے جو زندگی کا بڑا حصہ برطانیہ میں گزارنے والے ہمارے دوست ڈاکٹر طارق رضا مرحوم نے سنایا تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ گلاسکو میں ایک عجیب و غریب بلکہ مضحکہ خیز بینک ڈکیتی ہوئی۔ ڈاکو ایک ہاتھ میں نقلی پستول اور دوسرے ہاتھ میں رقم بٹورنے کے لیے تھیلا ہاتھ میں لیے بینک میں داخل ہوا اور کاؤنٹر پر جا کر بینک ملازمین کو اپنی پستول کی زد پر رکھ لیا۔

کیشیر خاتون نے فوراً نوٹوں کے بنڈل اور ساری ریزگاری نکال کر ڈاکو کے سامنے ڈھیر کر دی۔ اب ڈاکو صاحب نے رقم اٹھانے کے لیے بیک وقت دونوں ہاتھ شیشے میں بنی کھڑکی میں گھسیڑ دیے‘ ہاتھ میں پستول ہونے کی وجہ سے رقم نہیں اٹھائی جا رہی تھی۔ لہٰذا کیشیر خاتون نے شیشہ کی سلائیڈ کو ہٹا دیا تاکہ ڈاکو جلدی فارغ ہو کر بینک سے نکل جائے۔ اس نے نوٹوں کے بجائے ساری ریز گاری (سکے) جمع کر کے تھیلے میں ڈالے اور بینک سے نکل بھاگا‘ پہلے تو دروازے کے قریب ایک شخص کے ساتھ ٹکرا کر گرا‘ وہاں سے اٹھا تو بجائے بینک کے سامنے لگی فینس (باڑھ) کے درمیان بنے راستے سے نکلتا۔

اس نے باڑھ پھلانگنے کی کوشش کی اور اس بار منہ کے بل سڑک پر آ رہا۔ ساری ریز گاری دور دور تک بکھر گئی اور لوگوں نے اسے پکڑ کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس پر مقدمہ چلا اور جس روز فیصلہ سنایا جانا تھا جج نے سزا سنانے کے ساتھ یہ ریمارکس بھی دیے ’’ میں تمہیں زیادہ سے زیادہ سات سال کی قید کی سزا دینے پر مجبور ہوں، حالانکہ میرا بس چلے تو میں تمہیں اس سے کہیں زیادہ سزا سناؤں کیونکہ تم نے اس واردات میں جس نااہلی اور پھوہڑ پن کا مظاہرہ کیا وہ ساری قوم کے لیے باعث ندامت ہے۔‘‘ صرف وہی اقوام دنیا میں سر بلند ہوتی ہیں جن میں معیار کا جنون پیدا ہو جاتا ہے۔

اگر کوئی غلط کام بھی غیر معیاری انداز میں کیا جائے تو انھیں اس کام کی بری نوعیت سے بڑھ کر اس کا غیر معیاری پن تکلیف دیتا ہے۔دوستوفسکی کی کہانیوں کا حشر نشر کر کے رکھ دینے والے اس ادارے کے لیے اس سے بُری بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ پہلے سے لکھے کو بھی درست انداز میں نقل نہیں کر پائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔