ایک فوجی جریدہ

عبدالقادر حسن  پير 11 مارچ 2013
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ناگفتہ بہ حالات کے دھندلکے سے سر نکال کر میں آج کے حالات کو پرے جھٹک کر ایک فوجی تعلیمی ادارے کا ذکر کر رہا ہوں۔

نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی۔ یہ ادارہ اسلام آباد میں موجود ہے اور سائنس کی دنیا میں پاکستانی نظریات کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کا مخفف نام ’نسٹیئن‘ بنتا ہے اور یہ اسی نام سے معروف ہے۔ اس ادارے کے ایک جریدے کا تازہ شمارہ میرے سامنے ہے۔

فوج ہمارے ہاں یا تو ملک کا دفاع کرنے والا ادارہ ہے یا مارشل لاء لگانے والا لیکن علمی اور سائنسی میدان میں ملک کا دفاع کرتے میں اسے پہلی بار اس یونیورسٹی کے ذریعہ دیکھ رہا ہوں۔ اس شمارے کا اداریہ جو ظاہر ہے کہ اس کے ایڈیٹر ممتاز اقبال ملک نے لکھا ہے افسوس کہ میں تنگنائے کالم میں بند ہوں اور اس کا خلاصہ کرنے پر مجبور ہوں ورنہ یہ نئی نسل کے نام حقیقی مسلمان فوج کا ایک پیغام ہے جو یک گو نہ مارشل لاؤں کا کفارہ بھی ہے۔

یونیورسٹی کا یہ جریدہ بے حد خوبصورت اور اردو اور انگریزی کے بیش قیمت مضامین سے آراستہ ہے۔ ان تحریروں سے ایک ایسی نسل تیار کرنے کی نوید ملتی ہے جو سراپا پاکستانی ہو، مکمل ’میڈ ان پاکستان‘ اس جریدے میں سینئر لوگوں جیسے پروفیسر فتح محمد ملک اور ان کے ہم عصر دانشوروں کے مضامین شامل ہیں اور ان کے ساتھ طلبا کی نگارشات بھی ہیں۔ نوجوان تحریروں میں تازگی ہے اور پاکستان ہے۔ اس جریدے کے سرپرست انجینئر محمد اصغر ہیں اور مجلس مشاورت میں بھی انجینئر محمد شاہد اور ڈاکٹر آصف جیسے سائنس دان شامل ہیں۔ یہ سائنسی تعلیمی ادارہ فوج کی علم دوستی اور پاکستانی نظریات کی زندہ علامت ہے۔ اب آپ اس کے اداریے کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔

اللہ تعالیٰ رحم و کرم فرمائے پاکستان اور اہل پاکستان پر کہ انھیں اعصاب شکن اندرونی مشکلات اور تشویشناک بیرونی معاملات کا سامنا ہے۔ بیرونی کھلاڑیوں کے کھیل کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ شرار بو لہبی ازل ہی سے چراغ مصطفوی سے پنجہ آزما ہے۔ سوال ہو سکتا ہے کہ یہ جو اندرونی بروکر ہیں۔ ان کا مسئلہ اور بیماری کیا ہے؟ جواب سیدھا ہے اور آسان بھی۔ اور وہ یہ کہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قیام پاکستان کی بدولت ان کی اوقات سے زیادہ دے دیا! یہ بتائیں بھلا یہ کیا تھے۔

ان کا ٹارگٹ نوجوان نسل خصوصاً ہونہار طلبا و طالبات ہیں۔ یہ لوگ ٹی وی چینلز پر ان نوجوانوں سے کھلم کھلا کہتے ہیں کہ ’’یہ ملک بھلا آپ جیسے ہونہاروں کے لیے کوئی رہنے کی جگہ ہے‘‘۔ مخصوص چینلز پر یہ کس کا ایجنڈا پیش کر رہے ہیں‘ کون نہیں جانتا؟ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے علاقے کی تین جوہری طاقتوں چین‘ روس اور بھارت کا ہمسایہ پاکستان کوئی معمولی نہیں‘ بڑا اہم ملک ہے جو بڑے بڑوں کے عزائم کا راستہ روکے کھڑا ہے۔

پاکستان اس ایران کا پڑوسی ہے جس کو جلد یا بدیر زیر کرنے کے لیے اربوں کھربوں کے منصوبے روبہ عمل ہیں۔ پاکستان اس عوامی جمہوریہ چین کا قابل فخر پڑوسی اور بہترین دوست ہے جو آنے والے دنوں میں مغرب کو ہر میدان میں للکارے گا۔ پاکستان اس افغانستان کا پڑوسی ہے‘ مخلوق خدا کو پتھر کے زمانے میں لے جانے کی دھمکی دینے والوں کو‘ جہاں سے جگ ہنسائی سے آلودہ پسپائی اور شرمناک فرار کے لیے پاکستان ہی کی مدد درکار ہو گی۔ کل کی بات ہے‘ سابق امریکی سیکریٹری خارجہ جارج شلز نے CNN کے ایک پروگرام کے دوران کہا:’’وسطی‘ مغربی اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع پاکستان کا وجود آزاد دنیا‘ حتیٰ کہ جاپان تک کی سلامتی کے لیے اہم ہے۔ خشکی میں گھری وسطی ایشیائی دنیا کے لیے یہ آکسیجن کی حیثیت رکھتا ہے…‘‘

اپنی ساری کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود ملت پاکستان میں بے حد صلاحیت‘ بے حساب امکانی قوت اتحاد اور غیر معمولی جذبہ خیر و فلاح موجود ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پاکستان پہلا ملک ہے جسے فوجی جارحیت کے ذریعے دو ٹکڑے کر دیا گیا لیکن اہل پاکستان ادھر ڈوبے‘ ادھر نکلے کی اقبالیؒ تعبیر بن کر ہر میدان کی صف اول میں نظر آنے لگے۔ بس ضرورت ہے بے لوث اور بے خوف قیادت کی جو قوم کی خوشحالی و ترقی کے لیے واضح حکمت عملی اور جرات مندانہ پالیسی اپنا سکے۔

اب اہل پاکستان کو فکری انتشار سے دوچار کر کے ذہنی عدم استحکام کا شکار بنانے کا محاذ کھول دیا گیا ہے۔ کہا‘ لکھا اور کہلوایا جا رہا ہے کہ ’’قیام پاکستان کی بنیاد پرانی ہو چکی‘ اس لیے (اللہ نہ کرے) اس کے وجود کو خطرہ ہے‘‘۔ عرض یہ ہے کہ عقیدے اور نظریے لباس کی طرح صبح شام یا گرمی سردی میں بدلنے کی شے تو نہیں۔ ایسا ہو تو ہر قوم اپنی شناخت سے محروم ہو جائے۔ تحریک پاکستان قائداعظمؒ کے اس فرمان کی روشنی میں برپا ہوئی’’کہ مسلمان بھارت میں بسنے والی کوئی اقلیت نہیں بلکہ ایک ایسی جدا قوم ہے جس کا ربّ‘ دین‘ ایمان اور نظام عبادات ہندوستان میں بسنے والی دیگر اقوام سے قطعی جدا ہے۔

ہم پہلے مسلمان ہیں اور پھر کچھ اور…‘‘ نتیجے میں 65 برس پہلے دنیا میں وہ ریاست وجود میں آئی جو انسانی تاریخ میں پہلی بار دینی تشخص اور عقیدے کی بنیاد پر طلوع ہوئی۔ 1976ء میں عبدالولی خان کیس میں سپریم کورٹ نے قائداعظمؒ کی پاکستان بننے سے پہلے اور بعد کی متعدد تقریروں کا حوالہ دیا جن میں دو قومی نظریے کو تخلیق پاکستان کا بنیادی سبب اور اصل جواز قرار دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو بنام وفاق پاکستان کیس میں بھی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ’’…اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ نظریہ پاکستان مسلم قومیت پر مبنی اور اسلامی نظریہ حیات پر مشتمل ہے۔ اسلامی نظریہ زندگی کا تصور نظریہ پاکستان کے ساتھ قطعی پیوست ہے۔ اسے اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

اللہ کی مرضی! اس ملک میں رہ کر‘ اس ملک کا کھا کر بیرونی مفادات و افکار کی جگالی کرنے والے بیچو لیے اس ملک کے (خاکم بدہن) ٹوٹنے کی بات یوں کرتے ہیں جیسے کانچ کی چوڑی توڑنے کا ذکر ہو رہا ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں دنیا میں ایسی قوتوں کا دبدبہ و غلبہ رہا ہے جنھیں آج کے محاورے میں سپر پاور کہا جاتا ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران ہر سپر پاور کی سر توڑ مخالفت اور مسلمانان ہند کی بے سروسامانی کے باوجود صرف سات سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان کا معرض وجود میں آجانا ایک عجوبہ ہے۔ اس عجوبے کے ظہور سے کیا یہ حقیقت واضح نہیں ہو جاتی کہ قیام پاکستان اس ذات پاک کا نمونہ قدرت ہے جو دنیا کی تمام سپر پاورز سے عظیم تر ہے۔ جو جب چاہے کسی ناتواں‘ بے سرو ساماں کو قوت و عظمت بخش دے اور جب چاہے کسی صاحب جبرو قوت کو خاک پر پٹخ دے۔

عزیز طلبا و طالبات سے جاتے جاتے آخری گزارش کہ پاکستان اللہ تعالیٰ کی منشا سے قائم ہوا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ ہی اس کی محافظ و دستگیر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے عطا کردہ پاکستان کو ہمیشہ یا لمبے عرصے کے لیے کسی مصیبت یا آزمائش یا سزا سے دو چار نہیں رکھے گا۔ جس شخص یا گروہ نے اس ملک میں اپنی کبریائی کا تخت بچھانے کی کوشش کی۔ ہم دیکھ چکے ہیں۔ وہ نشان عبرت بنا۔ اس لیے اندرونی و بیرونی شر‘ تخریب کے اندھیروں سے ہرگز بددل نہ ہوں۔ انھیں صرف چار کام کرنا ہیں‘ آگے اس ملک خداداد کا خالق و مالک جانے اور اس کا انتظام و انصرام:

پہلا: مطالبہ پاکستان کے وقت اللہ تعالیٰ سے کیے گئے وعدوں پر عمل پیرائی کا عملی مظاہرہ
دوسرا: اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمت۔اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ سے بے لوث وفاداری کا حق ادا کرنا
تیسرا: زبان‘ قبیلے‘ طبقے اور صوبہ پرستی کی بدروح کو ذہن اور سوچ میں گھسنے نہ دینا
چوتھا: دوران تعلیم اپنی تمام تر توجہ تعلیم پر۔ بعدازاں کام‘ کام‘ کام اور خدمت ملک و عوام

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔