ذرا غورکیجیے!

مقتدا منصور  جمعرات 30 نومبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

بالآخر22دن سے جاری دھرنا اپنے اختتام کو پہنچا۔ کہانی کا پس منظر اور پیش منظر ہر ذی شعور کی سمجھ میں آ گیا ، اپنوں اور پرایوں کا فرق بھی سمجھ میں آگیا ۔ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آئین کی دھجیاں بکھیرے، پوری ریاستی انتظامیہ کو مغلظات بکے پھر بھی قابل ستائش ۔

یہ بھی اندازہ ہوگیا کہ اگر کچھ حلقے حکومت کے خاتمے کے درپے ہیں، تو حکومت بھی اپنی کوتاہ بینی اور غلط حکمت عملیوں کے ذریعے انھیں مزید مواقعے فراہم کررہی ہے۔ جمہوریت کی طلب قلمکاروں سے زیادہ اور کسے عزیز ہوسکتی ہے، کیونکہ آزادیِ اظہار جمہوریت سے مشروط ہوتا ہے، مگر جب منتخب حکومت اقتدار کے نشے میں بدمست ہوکرجمہوریت کے اصل فورم یعنی پارلیمان کی اہمیت کو نظر انداز کرنے لگے، تواسے آئینہ دکھانا ضروری ہوجاتا ہے۔

مسلم لیگ(ن) کی قیادت پر منیر نیازی کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں‘‘ انھیں تیسری بار حکومت ملی ہے ۔اس کا مطلب ہے کہ عوام ان سے توقعات رکھتے ہیں، لیکن وہ اپنے اقدامات سے ہر بارخود اپنے لیے ہی نہیں، بلکہ جمہوری عمل کے تسلسل کے لیے بھی مشکلات پیدا کر دیتی ہے۔اس میں شک نہیں غیر جمہوری قوتیں اس ملک میں بہت مضبوط اور فیصلہ سازی پر حاوی ہیں، مگر قومی سیاسی جماعتیں بھی سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے معذرت خواہانہ رویہ اختیارکر کے ان قوتوں کو مزید مستحکم ہونے کا موقع فراہم کردیتی ہیں۔

جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کسی بھی مسئلے کے حل میں اتنی تاخیر کردیتی ہے کہ وہ مسئلہ بحرانی شکل اختیار کرلیتا ہے ۔اس صورتحال کی کئی مثالیں ہیں ۔ مثلاً 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگانے کے بعد عمران خان نے صرف چار حلقوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا تھا۔ سب سے پہلے تو حکومت کو اس پہلوپر غورکرنا چاہیے تھا کہ اس مطالبے کے پس پشت کیا عزائم ہیں ، مگر حکومت نے نوشتہ دیوار پڑھنے اور مسئلے کو سیاسی انداز میں حل کرنے کے بجائے اپنی روایتی ہٹ دھرم کا سہارا لیا۔جس کا نتیجہ 126دن کے دھرنے کی شکل میں ظاہر ہوا۔ دوسرے اگر چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے۔

ان حلقوں میں دوبارہ گنتی کرادی جاتی، تو نہ سیاسی بحران کھڑا ہوتا اور نہ معیشت کو اتنے بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑتا۔یہی کچھ معاملہ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے نمٹنے کے سلسلے میں پیش آیا۔ متوشش شہری تسلسل کے ساتھ مطالبہ کررہے تھے کہ شدت پسند عناصر کی کارروائیاں حد سے بڑھ چکی ہیں، جنھیں لگام دینے کی ضرورت ہے۔ مگر حکومت مسلسل گومگو کی کیفیت میں مبتلا رہی بلکہ اس نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کر لیا۔ جنھیں نہ کامیاب ہونا تھا اور نہ کامیاب ہوئے۔ بالآخر APSکا سانحہ ہوگیا اور فوج نے ’ضرب عضب‘ کے نام سے آپریشن شروع کردیا۔اس عمل میں مسلم لیگ (ن ) کی حکومت کا نہ کوئی مشورہ تھا اور نہ کوئی کردار۔ مگر اس نے اس آپریشن کے نتائج کو اپنی جھولی میں ڈالنے کی کوشش کی، جو ناکام ہوئی۔

اسی دوران پارلیمان نے نیشنل ایکشن پلان (NAP)اور نیکٹا کے نکات منظور کیے۔ مگر حکومت کی بے دلی کے سببNAP کے 20میں سے محض چند نکات پر بڑی مشکل سے عمل ہوسکا ہے۔ باقی نکات ہنوز تشنہ تعبیر ہیں۔ ذرایع ابلاغ اور متوشش شہریوں کے تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمان کے ذریعہ فوجی عدالتیں قائم کیں اور ریمانڈ کی مدت7دنوں سے بڑھا کر90روز کردی جب کہ کراچی آپریشن کے لیے مانیٹرنگ کمیٹی کے قیام کا وعدہ کرنے کے باجود اس کے قیام میں لیت ولعل کا سلسلہ چار برس سے جاری ہے۔ اگر یہ فیصلے کسی دباؤ کے تحت تھے، تو انھیں منظر عام پر لانا چاہیے تھا۔ جس طرح اپنے معاملات کے بارے میں بہت سی باتیں کبھی کھل کر کبھی بین السطور میں بیان کی جاتی ہیں۔ مگر حکومت کوئی قابل قبول جواز دینے میں ناکام ہے۔اس میں شک نہیں کہ پاکستان میں سیاسی حکومتیں دباؤ میں رہتی ہیں ۔

ان کے سروں پر ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کی تلواریں لٹک رہی ہوتی ہیں، لیکن سیاسی جماعتوں میں پائی جانے والی فیوڈل ذہنیت، اقتدار میں آتے ہی انھیں اختیارات کی مرکزیت قائم کرنے پر اکساتی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ پارلیمان کو نظر انداز کرتے ہوئے اس  سے بالا ہی بالا فیصلے کرنے لگتی ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پارلیمان میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں جن میں اپوزیشن کے علاوہ حکمران جماعت کی حلیف جماعتیں بھی شامل ہوتی ہیں، فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ یہی کچھ روش اپوزیشن کی بھی ہے۔دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہماری مقدر اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) آئین کی اہمیت سے نابلد ہے۔ جس کی وجہ سے عوام کی نظروں میں بھی آئین کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

جب ایک آمر یہ کہہ کر آئین کی توہین کرتا ہے کہ ’’چند صفحات کی اس کتاب کو جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں‘‘ تو نہ کوئی ماہر قانون اور نہ ہی کوئی اہل دانش اسے چیلنج کرنے کی جرأت کرتا ہے ۔ اسے یہ باور کرانے کی کوشش نہیں کی جاتی کہ مہذب معاشروں میں الہامی کتب کے بعد دوسرا محترم و مقدس صحیفہ کسی ملک کا آئین ہوتا ہے، جو ریاست کے وجود اور اس کی سمت کا تعین کرتا ہے۔ جو معاملات آئین میں طے کردیے گئے ہیں، خواہ غلط ہیں یا صحیح ، ہر شہری کا فرض ہے کہ انھیں تسلیم کرے۔لہٰذا یہ یقین کرلیناچاہیے کہ جو آئین میں درج ہے، وہی ریاست کا حتمی اصول و ضابطہ ہے۔ جو نکات آئین کا حصہ ہوں، ان پر عمل کرنا ہر خاص وعام کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ آئین کے بعض حصے اور شقیں ایسی ہوتی ہیں جنھیں پارلیمان اکثریتی فیصلے کے ذریعے تبدیل کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔جن میں ریاست کا منطقی جواز اور انسانی حقوق سے متعلق شقیں شامل ہیں۔

تو صاحبو! حب الوطنی کا تعین زندہ باد کے نعرے لگانے سے نہیں ہوتا،بلکہ جو جتنا آئین کا پابند ہوگا، وہ اتناہی محب وطن ہوگا ۔ لہٰذا جو عناصر اور حلقے جوآئین کو اہمیت نہیں دیتے وہ دراصل ریاست کو اہمیت نہیں دیتے۔ حکومتیں آنی جانی ہوتی ہیں۔ جب کہ ریاست کو نہ صرف قائم و دائم رہنا ہوتا ہے، بلکہ اس کا استحکام سے عوام کی سلامتی اور خوشحالی مشروط ہوتی ہے۔اس لیے ایسے اقدامات سے گریز ضروری ہے، جو ریاست کو کمزور کرنے کا باعث بنیں۔

گو کہ اس بات میں دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اس فہم و فراست سے عاری ہے، جو اچھی حکمرانی کے لیے درکار ہوتی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عوام نے اسے پانچ برس کے لیے منتخب کیا ہے ۔ اس لیے اسے اپنی مدت مکمل کرنے کا پورا حق ہے۔ یہ عمل ریاست کے استحکام، روشن مستقبل اور جمہوریت کے تسلسل کے لیے بھی ضروری ہے۔ ہم ستر برسوں کے دوران حکومتوں اور سیاسی عمل کو غیر مستحکم کرنے کے نتائج بھگت چکے ہیں ۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح وطن عزیز خوشحال راہوں سے پسماندگی کی طرف بڑھا ہے۔ کس طرح اناؤں کا شکار ہوکر دولخت ہوا ہے۔ آج جب کہ ایشیا معاشی ترقی کا مرکز و منبع  بن رہا ہے، توہم اس دوڑ کا حصہ صرف اپنے اندرونی خلفشار کی وجہ سے نہیں بن پا رہے۔ کیونکہ ہماری حکومتیں مختلف نوعیت کے خوف کا شکار ہونے کے باعث جرأت مندی کے ساتھ فیصلہ سازی نہیں کر پاتیں۔ انھیں عزم وحوصلہ اور اعتماد سے عاری بنانے میں کسی بیرونی قوت نہیں، بلکہ اپنوں کا کردار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔