بوڑھی عورتوں پر تشدد

مہ ناز رحمن  پير 11 مارچ 2013

بوڑھی عورتوں کے بارے میں لکھنے بیٹھی تو ایک کہانی یاد آگئی۔ ایک بوڑھی عورت جو اپنے بیٹے، بہو اور پوتے کے ساتھ رہتی تھی۔ ہاتھوں میں رعشہ تھا، اس لیے کبھی گلاس ہاتھ سے گر کر ٹوٹ جاتا تھا اور کبھی کوئی اور قیمتی برتن ٹوٹ جاتاتھا۔ اس لیے بیٹے اور بہو نے اس کے لیے ایک لکڑی کا پیالہ خریدا تھا اور اسی میں اسے کھانا دیتے تھے۔

ایک روز میاں بیوی گھر آئے تو دیکھا کہ ان کا سات سالہ بچہ لکڑی کا ٹکڑا اور آری ہاتھ میں لیے کچھ بنانے کی کوشش میں مصروف تھا۔ والدین نے پوچھا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ ان کے لیے لکڑی کا پیالہ بنا رہا ہے تاکہ جب وہ بوڑھے ہو جائیںتو ان کو اس میں کھانا دیا جائے۔ والدین بچے کی بات سُن کر بہت پشیمان ہوئے اور بوڑھی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے لگے۔

بوڑھی عورتوں پر تشدد اور زیادتی کے خلاف بات کرنا آج بھی ایک ممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے حالانکہ اسے دنیا بھر میں ایک سماجی مسئلہ مانا جاتا ہے۔ پاکستان میں اعلیٰ طبقے کے رہائشی علاقوں کا جائزہ لیں تو ہر چوتھے گھر میں بوڑھے ماں باپ اکیلے رہ رہے ہیں اور اولاد بیرون ملک مقیم ہے۔ بڑھاپے میں یادداشت بھی کمزور ہو جاتی ہے اور نوکر چاکر اس کمزوری کا خوب فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ بوڑھے لوگوں کے حوالے سے کراچی میں کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے سارے شہر کو ہلاکے رکھ دیا۔ایک تو پروفیسر ذکیہ زیبا کا واقعہ جنھیں ان کے ملازمین نے قتل کر کے ان کی لاش جھاڑیوں میں پھینک دی تھی۔ اس طرح ایک اور پروفیسر صاحب تھے جنھیں محکمہ تعلیم کے کلرکوں نے پنشن کے معاملے میں اتنا تنگ کیاکہ دونوں میاں بیوی فاقوں سے مرگئے۔

پاکستان میں گھروں میں بیٹھنے والی بوڑھی عورتوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ان میں سب سے زیادہ لاچار اور بے بس وہ ہوتی ہیں جو دوسروں کی دیکھ بھال کی محتاج ہیں بوڑھی عورتیںمختلف طرح کے تشدد اور زیادتی کا شکار ہوتی ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ عام جذباتی تشدد ہے اقتصادی طور پر خوشحال ہونے کے باوجود بوڑھے لوگ ذہنی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور نئی نسل کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ ان کی تنہائی کو دور کر سکے۔ متوسط اور نچلے متوسط طبقے میں بوڑھے افراد کو یہ خیال بھی ستاتا رہتا ہے کہ اب وہ خاندان کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے قابل نہیں رہے اور وہ خود کو خاندان پر بوجھ تصور کرنے لگتے ہیں۔

پشاور یونیورسٹی کے ایک تحقیقی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ پاکستان میں بوڑھے لوگ بہت سے سماجی اور اقتصادی مسائل کا شکار رہتے ہیں خاندانی اُمور میں ان کو شریک نہیں کیا جاتا، انھیں سیرو تفریح کے مواقعے نہیں ملتے۔ اس تحقیق میں بوڑھوں کے لیے وظیفہ مقرر کرنے اور ایک کیئرہوم قائم کرنے کی تجویز دی گئی۔ شہروں میں رہنے والے بوڑھے افراد کے لیے انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے اور میڈیا پر ان کے مسائل اُجاگر کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے(پاکستان جرنل آف لائف اینڈ سوشل سائنس2009)

زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی تحقیق کے مطابق مردوں اور عورتوں پر بڑھاپا مختلف طور پر اثر انداز ہوتاہے۔ پڑھے لکھے لوگوں کو نسبتاً کم مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بُڑھاپے میں رفیق حیات کا ساتھ چھوٹ جانا بھی ایک بڑا صدمہ ہوتا ہے۔ اور پیچھے رہ جانے والے کو تنہا ہی سارے مسائل سے نمٹنا پڑتا ہے۔

پاکستان اور ہندوستان کی ثقافت بوڑھوں کا ادب اور احترام سکھاتی ہے لیکن مالی مشکلات، بیروزگاری اور غربت کبھی کبھی بوڑھوں کو اولڈ ہومزپہنچا دیتی ہے یا پھر ساس بہو کے جھگڑے چلتے رہتے ہیں۔

ہم لوگ جو یونیورسٹیوں یا ایڈوکیسی آرگنائزیشنز میں کام کرتے ہیں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم Awareness Raising اور ریسرچ کے ذریعے اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش کریں۔ مثال کے طور پر ہم ایسے ریسرچ پراجیکٹس شروع کر سکتے ہیں جن سے معلوم ہو کہ ہمارے گھروں میںبوڑھی عورتوں پر تشدد ہوتا ہے اور کس قسم کا تشدد ہو تا ہے۔

اس طرح کی تحقیق کے نتائج سے ان بوڑھی خواتین کے لیے سپورٹ سروسز کی منصوبہ بندی میں مدد ملے گی اور تشدد کے اسباب اور تدارک کے اقدامات بھی تجویز کیے جا سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بہت اہم ہے کہ اس ایشو کو visible بنایا جائے اور ہیلتھ کیئر پروفیشنلز ، کیئر ٹیکرز، پالیسی میکرز اور عام پبلک کی آگاہی میں اضافہ کیا جائے ۔اس سلسلے میںمناسب ہوگا کہ ایک ریسرچ اسٹڈی کرائی جائے جس میں گھروں میں بیٹھی ہوئی 60 تا 80سال کی عمر کی عورتوں سے رابطہ کیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران ان کے ساتھ کس قسم کا تشدد اور زیادتی ہوئی اور اس حوالے سے ان کے قریبی حلقوں پر بھی توجہ دی جائے۔

یورپ میں ہو نے والی اس طرح کے تحقیقی مطالعے سے پتا چلا ہے کہ 60 سال سے زیادہ عمر کی ہر چار میں سے ایک عورت پر تشدد ہوتا ہے لیکن ان میں سے آدھی عورتیں کبھی بھی کسی کو اس تشدد کے بارے میں نہیں بتاتیں۔ زیادہ طرح یہ تشدد شوہر کی جانب سے ہوتا ہے لیکن بدسلوکی کا گہرا تعلق کم تر معیار زندگی کے علاوہ، تنہائی ، غربت اور خرابی صحت سے بھی ہوتا ہے۔

بوڑھی عورتوں کے ساتھ جو زیادتیاں ہوتی ہیں، ان میں پہلا نمبر جذباتی، دوسرا مالی، تیسرا حقوق کی خلاف ورزی، چوتھا نظرانداز کیے جانا اور پانچواں جسمانی اذیت کا نمبر ہے، لیکن ہمہ گیر تشدد اور اذیت سب سے زیادہ ہوتی ہے جو زیادہ تر شوہر کی جانب سے ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں جوان اولاد، بہویں اور پوتا پوتی بھی زیادتی کرتے ہیں۔

جب بوڑھی عورتوں پر تشدد ہوتا ہے تو وہ اعصابی کشیدگی، غصہ، نفرت اور بے بسی کی کیفیت میں مبتلاہو جاتی ہیں لیکن ان میں سے شاذ و نادر ہی کسی غیر کو اس تشدد کے بارے میں بتاتی ہیں،عام طور پر نچلے طبقے کی بوڑھی خواتین کے ساتھ تشدد یا بدسلوکی ہوتی ہے۔ یورپی یونین میں یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ بوڑھوں کے ساتھ بدسلوکی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

جہاں تک ریسرچ کا تعلق ہے ہمیں ان معاشرتی عوامل کے بارے میں بھی ریسرچ کرنی چاہیے جو بوڑھوں کے ساتھ بد سلوکی میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بھی پالیسی یا اقدامات تجویز کرتے ہوئے بوڑھے لوگوں کی رائے ضرور لینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔