فطرت کے لبادے کو مت نوچیے!

زاہدہ جاوید  پير 11 مارچ 2013

سیاہ اور سفید دو واضح متضاد رخ ہیں لیکن جدید آئیڈیالوجی کے اس فکری جبر اور تسلط کو کیا نام دیاجائے جو تخلیق،اظہار رائے اور انفرادی آزادی کے دلربا تصورات کے نام پر صحیح اور غلط کی ایسی آمیزش بپا کررہاہے جہاں برائی کو برائی تسلیم کرنا ناممکن ہوتا جارہاہے، انتہائی سادہ اور واضح وآسان موضوعات کو بحث اور پیشکش کے دائرے میں لاکر ایسی چوردرزیںایجاد کردی جاتی ہیں جو راستی اور تیقن کے اخراج کو ممکن بناتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ بہت سی جگہوں پر سوال اٹھانے کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ سوال کیاجائے بلکہ اصل جست درحقیقت سوالیہ نشان لگانے کی ہوتی ہے،Point of View کے نام پر بات کرنے اور سننے کا انتہائی جدید اور موثر طریقہ تشہیر اور پرچار وضع کرلیاگیا ہے جس کے تحت برائی کو بے شک روا نہ ماناجائے لیکن ایک گوشہ گداز ضرور اس کے لیے تیار ہوجاتا ہے جو برائی کے خلاف نفرت اور جارحیت کی اس قوت مدافعت کو رفتہ رفتہ کمزور کرتا جا رہا ہے، جو مزاحمت کرتی ہے اور احتجاج بلند کرتی ہے، روشن خیالی کی ایک بساط بچھا دی جاتی ہے جہاں جدت، نظریہ ضرورت اورتقاضائے وقت کے نام پر ایسی چالیںچلی جاتی ہیں جو علم، اخلاقیات اور معاشرتی آداب واقدار کے تمام اصول و دلائل کو بے وزن بنا دیتی ہیں اور انھیں قدامت پسندی وروایات پرستی کے نام پرشکست سے دو چار کرتی چلی جاتی ہیں۔انسان جب روشن خیالی کی مخصوص کیفیت کا مریض ہوجاتاہے تو!

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

کے عین مطابق عجیب وغریب کوڑیاں دریافت کرتا ہے، کھونٹے سے رسی تڑاکر بھاگے ہوئے جانور کی طرح اس کی بد مستیاں بھی عالم کو تہہ وبالا کردینے پر تلی نظر آتی ہیں۔ پھیکے پڑتے نقوش اور ڈھلتی ہوئی عمر کی کسی عورت کا جو ناز و ادا اور زیبائش کے کسی حربے سے بھی کم سن وحسین نظر آنے میں ناکام ہے اپنے جسم وجوانی سے خراج وصول کرنیکا گھٹیا طریقہ اختیار کرتی ہے، شہرت وناموری اور بد نامی کی دو قطعاً متضاد کیفیات کو باہم خلط ملط کرنے کی یہ ایک سیاہ ترین مثال ہے، خبروں کے ہتھکنڈے سے مارکیٹ میں Inہونے کی قیمت اگر انسان کی عزت، عزت نفس اور اس کا دین ایمان ہے تو یہ گویا آخری حد ہے، اس سے آگے کیا رہ جاتاہے ۔ یہ ہے نئی تہذیب کا حوصلہ، اعتماد، جرأت اور عزم جن کے بارے میں اقبال فرماچکے ہیں کہ نئی تہذیب کے گندے انڈے گلی میں پھینک دیے جائیں، انسان دوستی اور ترقی کا یہ مظاہرہ ایک گم گشتہ بات بیان کرنے کا موقع بنارہاہے جب اپنے وقت کی ایک ایسی ہی شاہین صفت خاتون نے مرد وعورت کی مساوات قائم کرنے کی خواہش میں یہ بیان دے ڈالاتھا کہ’’عورت کو بھی چار شادیوں کی اجازت ہونی چاہیے،،

ایک اور حساس موضوع جو میڈیا کے ذریعے عام فہم تک رسائی پاچکا ہے وہ ہے آبرو باختگی کا ہے ۔ جس طرح اکثر پرانی فلموں میں طوائف کے کردار کو حالات کی مجبوری اور ظلم وجبر کا شکار دکھاکر مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی تھی اسی طرح آجکل ایسی خواتین بھی روزی روٹی کی منطق گھڑتی نظر آتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایسی خواتین بھی سامنے آتی ہیں جو ذاتی رجحان ورضا سے اس پیشے سے منسلک ہیں اور اسے پیسے کے حصول کا منفعت بخش قرار دیتی ہیں ۔

حیا وپاکدامنی اور فحاشی کے انتہائی حساس موضوعات جو قبل از سادہ لوح مردوں کے دائرہ علم سے بھی باہر ہوتے تھے آج گھریلو خواتین سے لے کر بچوں تک کی فہم کا حصہ بن چکے ہیں، تفہیم کے فلسفے کے تحت جس طرح انھیں عام شعور کا حصہ بنایا جا رہا ہے ان سے مذمت اور ملامت کا مقصد پورا ہوتا نظر نہیں آتا جب کہ اس سارے منظر نامے میں پانسے کا رخ تو مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔اسی طرح اگر کہاجائے کہ آج خبر بھی باقاعدہ تشہیری اور تحریکی ہتھکنڈے کے طورپر استعمال ہورہی ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہیں ہوگی، فیشن انڈسٹری کے کاروبار نے فیشن شوز کو بھی رفتار دے دی ہے، فن اور ثقافت کے نام پر حد بندی کے مفکرین رومانی مکالمے اور مناظر سنتے دیکھتے بچوں کی آنکھوں میں پیدا ہونے والی مخصوص چمک اور عجیب سی مسکراہٹ جو یقینا لمحہ فکریہ ہے کے تدارک کے لیے کون سا ٹوٹکا تجویز فرمائینگے؟

نظر کا قانون ہے کہ یہ اپنا مرکز قائم کرتی ہے اس مرکز سے خیال کا بیج پھوٹتا ہے پھر اس خیال کے سر چشمے سے نیت، ارادے، حرکت اور عمل کے دھارے جنم لیتے ہیں، یہ قانون اتنا فطری یا خود کار اور فعال ہے کہ عام طور پر اس کی عمل پذیری احساس کی زد میں نہیں آتی لیکن شخصیت کی ترتیب اور مزاج کے تعین کے زاویوں سے اس قانون کو پرکھنے میں مدد لی جاسکتی ہے، اس تمہید کے مآخذ میں یہ کہاجاسکتاہے کہ تبدیلی ایک ذہنی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے جس کا حالات اور وقوعات سے براہ راست تعلق جڑتاہے، تبدیلی نہ تو نازل ہوتی ہے نہ یہ مسلط کی جاسکتی ہے اور نہ ہی یہ یکدم رونما ہو جانیوالی صورتحال ہے، یہ تدریجی عمل کا شاخسانہ ہوتی ہے، جسے کبھی ارتقاء کا نام دیاجاتاہے اور کہیں انتہا کا!

تاریخ حتمی گواہ ہے کہ انسان آزاد مخلوق نہیں ہے، انسانی تاریخ کے ہر دور میں انسان کی تربیت کے ایسے آفاقی پروگرام موجود رہے ہیں جن کی رو سے انسان کو DoاورDo notکے ضابطوں کا پابند کیاگیا ہے، انسانی سرشت میں یہ سچائی موجود ہے کہ فلاح اور تسکین کا راز صرف’’پیروی‘‘ میں مضمر ہے اس پیروی کو اگر عقیدے کے کھونٹے سے باندھ دیاجائے تو انسانی رویوں اور فکر کو وہ بنیاد میسر آجاتی ہے جو عمل کو متوازن، ہموار اور مسلسل کرتی ہے، بصورت دیگر تاریخ بارہا تہذیبوں کے ان تجربوں کے عبرت انگیز احوال کو دہراتی ہے کہ جن میں انسانی تہذیب ومعاشرت ارتقاء کے سلسلے سے ہمیشہ ہی شکست وریخت کے گھن چکر سے دوچار رہتی ہیں، کیونکہ بے اصل عقیدے ہمیشہ فساد کی بنیاد بنتے ہیں اور انسانی فطرت کو بنیاد بناکر پوجنے والوں نے جب بھی اعتدال اور جدت کے مفروضے پر معاشروں کو استوار کرنے کی کوشش کی ہے رد عمل میں فکری بد اعتدالیوں سے بوجھل معاشرہ نمودار ہوا ہے جس کے لیے اپنے ہی قائم کردہ نظریات کو نہ تو نگلتے بن پڑتی ہے نہ اگلتے بن پاتی ہے، گزشتہ دنوں بھارت میں رونما ہونے والے جنسی زیادتی کے واقعے پر احتجاج کی ایک شدید لہر آئی، ہمارے پاکستان میں بھی اس واقعے پر بھرپور غم وغصے اور مذمت کا اظہار کیاگیا اور اسے صنفی استحصال کی ایک بد ترین واردات قرار دے کر اس پر کڑی قانونی گرفت کا مطالبہ ہر سمت سے اٹھایاگیا لیکن اس قسم کے واقعات کے ضمن میں کچھ باتیں توجہ طلب ہیں مثلاً کیا صرف جنسی جرائم میں اضافہ ہورہاہے، جنسی بے راہ روی نہیں پھیلتی جارہی؟کیا جنسی جبلت کی تخریب کاری صرف نسوانی استحصال تک محدود ہے، بچے، بچیاں اور خواجہ سرا اس ظلم کا شکار نہیں ہوتے؟سچائی یہ ہے کہ خواتین سے جنسی زیادتی کے واقعات اغلب طور پر بے راہ روی کے رجحان کا نتیجہ ہوتے ہیں، انھیں صرف صنفی استحصال کے پہلو سے دیکھنا گویا وہ فیشنی اقدام ہے جس کی بنیاد محض شور وغلغلہ ہے اور انتہا کیا ہے اپنی اپنی دکان چمکانا!

اس جرم میں ظالم اور مظلوم دونوں کی زندگی تباہ ہوتی ہے، اس جرم کے سد باب کے لیے ضروری ہے کہ ان محرکات کی بیخ کنی کی جائے جو اس جرم کے اسباب مہیا کرتے ہیں، ہمارے شعور میں کیا انڈیلاجا رہا ہے اس کی چھان پھٹک لازمی ہے، جرائم کے المیے انسانی بستیوں کا حصہ اور حقیقت ہیں لیکن جب یہ وبائی شکل اختیار کرلیں تو انھیں مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

بہ حیثیت غیرت مند قوم کے ہمیں آئٹمز گرلز اور زیروسائز پر فدا ہونے کی روش کو ترک کرنا ہوگا، وہ تمام خرافات جو اسٹائل اور امیج کی پالیسی کی خاطر اختیار کی جاتی ہیں ان کی تہہ میں چھپی نفسیاتی ابتری اور کرداری کجروی کو حقارت اور لعنت کی نگاہ سے رد کرنا ہوگا، انسانیت کا تعلق اجتماعی فلاح سے ہے، زندہ معاشروں میں ایسی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی جو قوم کے اخلاق پر ضرب لگائیں، ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ فحاشی کیا ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں کسی چٹکلوں کی ضرورت نہیں۔فطرت کے لبادے کو نوچ کر اور فطرت کے نظام میں بگاڑ ڈال کر معاشرے اور قومیں ہمیشہ اجتماعی مفسدات اور مکروہات کی منحوس گردش کا شکار ہوکر رہتی ہیں جیسا کہ ہوتا آیا ہے، ہورہاہے اور ہوتا رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔