شاویز:جوہر ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں

عبد الطیف ابو شامل  پير 11 مارچ 2013

موت، زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے، جو آیا ہے وہ جائے گا،کوئی بھی تو نہیں رہتا سدا ، اس مسافر خانے میں ۔ لیکن جو لوگ موت کی راہ خود منتخب کرلیں وہ زندہ رہتے ہیں ، امر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ جوہر ہستی عدم سے آشنا ہوتا نہیں۔ جو اپنے لیے نہیں ، دوسروں کے لیے جیئیں وہ کب مرتے ہیں، مرتے تو وہ ہیں جو بس اپنے لیے جی رہے ہوں، عجب آزاد مرد تھا وہ، جسے ہوگوشاویز کہتے ہیں۔ وہ جس نے اپنے بے کس و بے بس، مظلوم، معصوم، پسے ہوئے اور ناتواں لوگوں کے لیے جینے کو اپنا شعار بنایا اور پھر اس پر ڈٹ گیا۔ ہاں وہ ندیم باصفا ہوگوشاویز تھا ۔ لوگ کہتے ہیں وہ گزر گیا، ہاں لوگ کہتے ہیں کہ وہ مرگیا، اتنا کریہہ جھوٹ بھی کوئی بول سکتا ہے، اک زندہ و جاوید ہیرو کو کون مارسکتا ہے، آج ثابت ہوگیا شاویز نہیں مرا، وہ امر ہوگیا ہے۔ اسی لیے تو وینزویلا کا ہر مظلوم چیخ رہا ہے، ہم سب شاویز ہیں، ہاں شاویز نہیں مرا۔

عالمی سرمایہ داروں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب شاویز امر ہوگیا۔ وہ شاویز جس نے سام راج کو ہر موقعے پر مٹی چاٹنے پر مجبور کردیا، وہ شاویز جسے اس کا امام فیڈل کاسترو اپنا بیٹا کہتا تھا۔ وہ شاویز جس کی دل آویز اور زندگی بخش مسکراہٹ پر اس کے لوگ فخرکرتے تھے، وہ شاویز جس نے مقہور لوگوں کو جینا سکھایا، عالمی سام راج کی نیندیں حرام کردینے والا اور ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انھیں زچ کردینے والا، عالمی سام راج کا تمسخر اڑانے والا شاویز امر ہوگیا ۔ وہ شاویز جو اپنے لوگوں کے لیے زندگی تھا، اب وہ ہر دل میں دھڑکتا ہے، زندہ و جاوید ،شاویز تو امر تھا ، امر رہے گا ۔ عالمی ساہوکاروں کے خلاف جنگ میں بالآخر مظلوم عوام ہی فاتح ہونگے۔ تیرے خون جگر سے جلائی ہوئی شمع کو کوئی بھی سامراجی آندھی نہیں گل کرسکے گی۔

ہوگو رفائل شاویز فریاس 28 جولائی 1954 کو وینزویلا کی ریاست بیرنیاس میں پیدا ہوئے۔ وہ غریب خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے والد اسکول میں استاد تھے۔انھوں نے ڈینیل اولیٹری ہائی اسکول سے تعلیم حاصل کی اور پھر اکیڈمی آف ملٹری سائنس میں داخلہ لیا، وہ بیس بال کے اچھے کھلاڑی تھے۔ سائمن بولیور اور چی گویرا جیسے انقلابی ان کے ہیرو تھے، انھوں نے اپنے ہیروز کا بہت عمیق مطالعہ کیا تھا1975میں انھوں نے اپنی گریجویشن مکمل کی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ فوج غریب لوگوں کے تحفظ میں ناکام اور عوامی حکومت کے امور میں مداخلت بھی اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے۔

فوجی ہونے کے ناتے انھیں کئی مرتبہ مارکسی نظریات رکھنے والی جماعتوں کی بغاوت کو کچلنے کے فرائض سونپے گئے، لیکن انھوں نے اس میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ اس کے برعکس وہ مارکسی نظریات کی کتب و رسائل کے مطالعے میں مصروف رہے۔ 1981 میں شاویز کو ملٹری اکیڈمی میں پڑھانے کا موقع ملا۔ شاویز نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نظریات اکیڈمی میں پھیلانے کا کام شروع کیا۔ وہ طلبا میں بہت مقبول تھے جس کی وجہ سے ان کے سینئرز ان سے خوف زدہ رہنے لگے اور بالآخر شاویز کو بہت دور دراز علاقے اپیور میں بھیج دیا گیا۔

انھوں نے وہاں بھی مقامی قبائل کے ساتھ اپنی راہ و رسم بڑھائی اور اپنے انقلابی نظریات کا پرچار کیا ۔ فروری 1992 میں انھوں نے صدر پیریز کی معاشی کٹوتیوں کی پالیسی، جس کے خلاف عوام وسیع پیمانے پر احتجاج کر رہے تھے تختہ الٹنے کی کوشش کی۔ اس بغاوت میں 18 جانیں کام آ ئیں اور قریباً 60 افراد زخمی ہوئے۔ کرنل شاویز گرفتار کرلیے گئے۔ شاویز اس وقت جیل میں تھے کہ نو ماہ بعد ان کے ساتھیوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی دوبارہ کوشش کی لیکن اس بغاوت کو انتہائی بے رحمی سے کچل دیا گیا۔

اس بغاوت کے دوران انقلابیوں نے ٹیلی وژن پر قبضہ کرلیا تھا اور ہوگوشاویز کا ایک ٹیپ نشر کیا جس میں شاویز نے حکومت کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔ انھوں نے جیل میں وقت گزارنے کے ساتھ اپنے ساتھیوں سے رابطے رکھے۔ وہ طاقت کے زور پر حکومت کا تختہ الٹنے کے درپے تھے لیکن انھیں ان کے ساتھیوں نے قائل کرلیا کہ وہ 1998 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لیں چنانچہ شاویز نے انتخاب میں حصہ لیا اور غریبوں، مزدوروں اور محنت کشوں کے 56 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے۔ شاویز نے 1999 میں نئی آئینی اسمبلی قائم کی۔

دوسرے انتخابات میں شاویز نے 95 فیصد نشستیں حاصل کیں۔ 9/11 کے بعد افغانستان پر امریکی حملے پر شاویز نے شدید تنقید کی اور امریکا پر دہشت گرد کے الزام لگائے۔ وینزویلا سے امریکی تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے۔ انھیں اپنے ملک کی طبقہ اشرافیہ کی مخالفت کا بھی سامنا تھا،لیکن محنت کش عوام ان کی پشت پر کھڑے تھے۔ شاویز نے اپنے ملک کے غریبوں کے لیے انقلابی اقدامات کیے۔ ان کی معاشی حالت سنوارنے کے لیے ان تھک محنت کی۔ وہ دنیا بھر میں سرمایہ داری کے شدید ترین ناقد تھے۔ شاویز کے اقدامات کی وجہ سے ہی آج لاطینی امریکا کے ممالک میں وینزویلا ایک ایسا ملک ہے جہاں عوام کی معاشی حالت سب سے بہتر ہے۔ شاویز کے ایک مداح نے انھیں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ’’یسوع مسیح کے بعد ہوگوشاویز ہیں، ان سے پہلے حکومت کو ہماری کوئی فکر نہیں ہوتی تھی، اب بچوں کے پاس سب کچھ ہے۔‘‘

شاویز کے انتقال پر وینزویلا سمیت دنیا بھر کے مظلوم عوام شدیددکھ و غم کی حالت میں ہیں۔ وہ اپنے محبوب قائد کو آنسوؤں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں، انھیں پھول پیش کرتے ہوئے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں۔احمدی نژاد نے بجا کہا ۔ شاویز صوفی تھے ۔ہاں وہ واقعی صوفی تھے۔

شاویز کی موت پر عالمی رد عمل،

امریکی صدر بارک اوباما نے شاویز کے انتقال کے بعد واشنگٹن اور کاراکس کے درمیان مستقبل کے تعلقات میں بہتری پر زور دیا ہے۔ اوباما نے کہا، ’’صدر ہوگو شاویز کے انتقال کے بعد اس مشکل گھڑی میں امریکا وینزویلا کے عوام کو اپنی طرف سے حمایت اور کاراکس انتظامیہ کے ساتھ تعمیری تعلقات کے قیام میں دلچسپی کی یقین دہانی کراتا ہے۔‘‘

بارک اوباما کے بقول وینزویلا کی تاریخ کے ایک نئے دور کے آغاز پر امریکا وہاں جمہوری نظام کے قیام، قانون کی بالادستی اور انسانی حقوق کے احترام سے متعلق پالیسیوں کے فروغ کے لیے کام کرتا رہے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ ہوگو شاویز واشنگٹن اور اس کی پالیسیوں کے بہت بڑے ناقد تھے اور یہی وجہ ہے کہ شاویز دور میں امریکا اور وینزویلا کے باہمی تعلقات زیادہ تر کھچاؤ ہی کا شکار رہے۔

برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا ہے کہ شاویز کی موت کی خبر نے انھیں ’غم زدہ‘ کر دیا۔ برطانوی دفتر خارجہ کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق ولیم ہیگ کا کہنا تھا، ’’شاویز نے 14 برس تک وینزویلا میں صدارتی فرائض انجام دیتے ہوئے اپنے ملک کے عوام اور مجموعی طور پر خطے پر بھی دیرپا اثرات مرتب کیے۔‘‘

اقوام متحدہ میں روسی سفیر ویٹالی چْرکِن نے وینزویلا کے صدر کی موت پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس پیش رفت کو ایک ’سانحہ‘ قرار دیا۔ چْرکِن کے بقول ہوگو شاویز ایک بہت اچھے سیاستدان تھے۔
جنوبی امریکا کے کئی ملکوں کے سربراہان کی جانب سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے۔ کولمبیا کے صدر خوآن مانوئل سانتوس نے شاویز کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کہا کہ کولمبیا میں امن کا قیام دونوں صدور کے تعلقات کی بنیاد بنا رہا۔

انھوں نے کہا، ’’اگر ہم اپنے ملک میں امن کے قیام کی جانب بڑھے ہیں، تو اس میں وینزویلا کی حکومت اور بالخصوص صدر شاویز کی لگن اور عزم بھی ہمارے ساتھ رہے ہیں۔‘‘ سانتوس کے بقول شاویز کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اس سے بہتر کوئی طریقہ نہیں کہ شاویز کے کولمبیا میں تنازعے کے حل اور قیام امن کے خوابوں کو پورا کر دیا جائے۔ جنوبی امریکی ملک چلی کے صدر سباستیان پینیئرا نے بھی شاویز کی موت پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ان کے شاویز کے ساتھ نظریاتی اختلافات موجود تھے تاہم انھوں نے ہمیشہ ہی شاویز کی ہمت اور ان کے عزم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ ایل سلواڈور کے صدر Mauricio Funes نے کہا کہ لاطینی امریکا کے سب سے طاقتور اور مقبول لیڈر تسلیم کیے جانے والے شاویز کے انتقال سے خطے کی سیاست میں لازمی طور پر خلا پیدا ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔