بیانیہ، ٹرمپ اور ہمارے کیپٹن صفدر

جاوید قاضی  اتوار 3 دسمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

آج کل دنیا میں دائیں بازو کی سیاست کا سکہ رائج ہے۔ برطانیہ اپنے بیانیہ کے بھنور میں پھنس کر بریگزٹ جیسا فیصلہ کر بیٹھا۔ ایک فیصلہ جس نے برطانیہ کی یورپ کے اندر حیثیت کو اور چھوٹا کردیا کہ خود اسے اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ کو ساتھ لے کر چلنے میں دشواری ہوگی۔ان کے آئندہ آنے والے دنوں میں بہت سی معاشی مشکلات ہوں گی۔

برطانیہ میں دائیں بازو اقتدار میں ہے، امریکا میں بھی ٹرمپ کی صورت میں، مگر ان کو فرانس میں شکست ہوئی، جرمنی اور ہالینڈ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ مگر ماضی کے مقابلے میں ان نفرت زدہ بیانیہ والے لوگوں نے اب کی بار زیادہ ووٹ لیے۔ یہ دائیں بازو کی سیاست جس ملک و قوم کو اپنی نفرت کا ہدف بناتی ہے اس ملک کے دائیں والے بیانیہ کے لوگوں کے لیے بھی یہ نوید ہوتی ہے۔ اور پھر اس طرح نفرت کی آگ ہوتی ہے برابر برابر۔

مودی ہندوستان میں دائیں بازو کی سیاست کو ایک نئی انتہا پر لے آئے ہیں۔ امریکا میں ٹرمپ نے ان پاگل عام سادہ سوچ رکھنے والے سفید فام امریکا کو ایک نئی انتہاپرست سوچ دی ہے۔ کہاں گئی ڈیموکریٹ، بل کلنٹن و اوباما کی سیاست کرنے والے اور جان میکن جیسے دائیں بازو کی سیاست کرنے والے۔ ریپبلکن پارٹی میں بیٹھے ہوئے لوگ ٹرمپ سے نالاں و پریشان ہیں۔

بائیں بازو کی سیاست جیسے کہ راستہ بھٹک گئی ہو۔ دور دور تک اس کا کوئی سراغ نہیں۔ لیکن لبرل سوچ کی سیاست، سیکولر رویوں والی سیاست اب بھی اتنی پست نہیں ہوئی۔ لبرل سوچ کی سیاست آج کے اعتبار سے خود بائیں بازو کی سیاست کی نعم البدل ہے۔دائیں بازو کی سیاست بنیادی طور پر لوگوں کے جذبات سے کھیلتی ہے، ان کا زور عقیدوں و اعتبار پر ہوتا ہے، وہ بنیادی طور پر بیانیہ میں موجود حساس باتوں کو اشتعال دیتے ہیں۔

کل ہندوستان میں بابری مسجد کے حوالے سے ایڈوانی کا کیا کردار تھا؟ اور مسلمانوں کے تاریخی آثار ہندوستان میں سوالیہ نشان لیے کھڑے ہیں، اس کے باوجود بھی پاکستان سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں رہتے ہیں۔

ان تمام تاریخی ادوار میں جو لیڈر ماضی ہوئے، وہ بھی کیا لیڈر تھے۔ کوئی ٹیٹو تھا، سومارٹو، جمال ناصر، دور کیوں جائیں کل کی ہی بات ہے نیلسن منڈیلا تھے، فیڈل کاسترو تھا۔ اور اب خوشبو کے ایک جھونکے کی مانند اگر کوئی موجود ہے تو وہ ہیں جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل۔ جرمنی نے شام سے آئے مسلمانوں کو سب سے زیادہ اپنے اندر سمونے کی کوشش کی۔ اور سعودی عرب شام کے شہریوں کی ہجرت کے قافلے خاموشی سے دیکھتا رہا۔کبھی کبھار آمریتوں کو بھی اپنی آمریت کو قانون دینے کے لیے دائیں بازو کی سیاست میں ڈوبنا پڑتا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں دائیں بازو کی سیاست کو خرید و فروخت امریکا کرتا تھا اور بائیں بازو کی سیاست کا چیمپئن روس تھا۔ لیکن امریکا کے اندر سرد جنگ سے فائدہ اٹھانے والے دائیں بازو کی سیاست کے امین ریپبلکنز تھے، جب کہ جمی کارٹر جیسے ڈیموکریٹک لیڈر تنہا رہ گئے۔

اور ہماری تو پھر کیا بات ہے۔ ہم نے دائیں بازو کی سیاست میں جو بیج بوئے ہیں وہ سب دھول میں اڑ گئے۔ ہم نے اتنی بڑی وکلاء کی تحریک چلائی وہ بھی دائیں بازو کے زیر اثر تھی۔ پہلے آمریت کو جمہوری قوتوں والے مزدور یونین، کسان یونین، شاگرد یونین، چھوٹے صوبوں کے جمہوریت پرست و قوم پرست قوتیں ہوتی تھی، جو فاطمہ جناح کے رہبری میں آمریت کے سامنے ڈٹی ہوتی تھیں اور وہ بھی جو اس وقت دائیں بازو کا تھا وہ بھی قدرے معقول تھا، آج کے دائیں بازو کے حوالے سے، بھٹو بھی دائیں بازوکے نہیں تھے۔ وہ دائیں بازو کے بیچ تھے یا بائیں تھے۔ Centre of Right  تھے یا Left of right   تھے۔ اور آج کی اس کی پارٹی بدلتے بدلتے ایک طرف تو موقع پرستی کا جمگھٹا ہوگئی ہے اور اب سرکاری طور پر اعلان کرچکی ہے کہ وہ بریلوی ہیں۔ دو سال پہلے بے نظیر کی برسی پر یہ خانہ کعبہ کے کفیل کو بھی مدعو کرنے پر مجبور ہوئے۔ ہمارے چوہدری شجاعت و مولانا فضل بھی خانہ کعبہ کے امام کو اکثر دعوت دے کر بلاتے رہے ہیں۔ میں نے دیکھا زاہد حامد وزیر قانون استعفیٰ دے کر سعودی عرب میں احرام پہن کر خانہ کعبہ والی تصویریں سوشل میڈیا پر بھیج رہے ہیں۔

مگر کسی کو کچھ خبر نہیں کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ CPEC کی نوید ہماری دہلیز پر کھڑی ہے، چائنا بھی کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان دائیں بازو کے اس انتہاپرست و انتشار پرست سوچ میں پھنس کے رہ جائے۔ اور ہوسکتا ہے کہ ہمارے دشمن خود ان انتشار پسند لوگوں میں Invest  کر رہے ہوں۔

آج کی دنیا میں سب طرف جمہوریت بیانیہ کا شکار ہوگئی ہے۔ لوگون کے جذبات کو اچھالو اور ان سے ووٹ لو۔ پوری دنیا میں اس بائیں بازو کی سیاست کا ہدف مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانا ہے، کیونکہ ان کے ملکوں میں سب سے زیادہ ہجرت کرکے مسلمان ہی آرہے ہیں۔ اور مسلمانوں کے اندر کچھ لوگ اسلام کی غلط تشریح کرکے وہاں دہشت گردی کے واقعات کو جنم دیتے ہیں جس کا خمیازہ وہاں کے مکین مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ Islam phobia جیسی وبا پھیل گئی ہے۔ اس پر تشویش تب ہوتی جب خود ٹرمپ نے برطانیہ کے سفید فام لیڈر کی نفرت پرستی پر مبنی تیں ویڈیوز Retweet  کیں۔ اور تینوں کی تینوں ویڈیوز جھوٹی پروپیگینڈہ پر بنی ہوئی تھیں۔

ان ویڈیوز کا لب لباب یہ تھا کہ مسلمانوں کی خلاف نفرت پیدا کی جائے۔ ٹرمپ بیوقوف نہیں، اس کی حمایت کرنے والا Fox  چینل ہے۔ یہ چیزیں بکتی ہیں، ان سے ان کے ووٹرز اور خوش ہوتے ہیں۔ جب ان لیڈران کے پاس اقتدار میں رہتے لوگوں کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تو پھر یہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں۔ ’’حب الوطنی‘‘ ’’مذہبی نعرے‘‘ ’’کسی کو غدار‘‘ کہہ دینا یا کسی کو کافر یا واجب القتل قرار دینا۔ اور یہ کام بہت ہی آسان ہے خصوصاً ان ممالک میں جہاں علم کا فقدان ہے۔ جہاں عقیدے اور پیر پرستی، شخصیت پرستی کا سکہ رائج ہے۔

دنیا میں ٹرمپ کے آنے کے بعد جو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے تھا، وہ ثانوی بن گیا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت اور شدید ہوگئی ہے۔ نارتھ کوریا کے ساتھ کسی بھی وقت امریکا کی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

کیپٹن صفدر ہمارے ٹرمپ ہیں۔ ایک دن میں لیڈر ہونا چاہتے ہیں۔ دراصل یہ مسلم لیگ ن کی حکمت عملی کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہے کہ دائیں بازو کی اسی انتہا پرست سوچ کا ووٹ ان سے دور نہ جائے۔ ہم سب نے بھی اس گنگا میں اپنے ہاتھ ڈالے ہوئے ہیں۔ یہ جنگ سرمائے کی جنگ ہے۔ سرمائے کو کاروبار چاہیے، اس کاروبار کو اقتدار چاہیے۔ یہ ساری تشریح جو نفرتوں کا عکس ہے، یہ اس سرمائے کی جنگ کا پس منظر ہے۔ ابھی اس دنیا کو ایک اور مرحلے سے گزرنا ہوگا۔ اس سرمائے کو شکست دینی ہوگی تاکہ انسان نفرتوں کے بھنور سے نکل آئے۔

بیتیں گے کبھی تو دن یہ بھوک کے اور بھکاری کے
ٹوٹیں گے کبھی تو بت آخر دولت کی اجارہ داری کے

جب ایک انوکھی دنیا کی بنیاد اٹھائی جائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

(ساحر)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔