مختصر سفر نامے اور رپورتاژ (حصہ اول)

رئیس فاطمہ  اتوار 3 دسمبر 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سفر نامے، رپورتاژ اور خود نوشتیں عام طور پر قارئین میں مقبول ہوتی ہیں۔ موجودہ دور اس لحاظ سے بانجھ ہوتا جا رہا ہے کہ مطالعے کی عادت بدرجہ اتم مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ کتابیں پڑھنا آج کی نسل کے لیے ایک مشکل کام ہے جب کہ موبائل اور انٹرنیٹ کی دوستیاں اور خرافات کے لیے ان کے پاس وقت بہت ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اخبارات میں املا کی غلطیاں عام ہوتی جارہی ہیں ۔ پروف ریڈنگ کا رواج بھی دم توڑ گیا ہے۔ سب ایک دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ پہلے ریڈیو اور اخبارات تلفظ کی طرف بہت توجہ دیا کرتے تھے۔ اب اردو زبان کا بیڑہ غرق سب سے زیادہ نجی چینلز نے کیا ہے۔ جہاں ’’بریکنگ نیوز‘‘ میں زبان کی وہ مٹی پلید کی جاتی ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے۔

قابل افسوس بات یہ ہے کہ غلطیوں کے سدھار کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کرلی گئی ہیں۔ کتاب نہ پڑھنے سے جو نقصانات ہو رہے ہیں اس کا ادراک ہر شعبے میں ہو رہا ہے۔ پھر بھی کچھ لوگ کتابوں سے اب بھی جڑے ہوئے ہیں۔ ’’مختصر سفر نامے اور رپوتاژ‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والی کتاب بوجۂ علالت اب میرے مطالعے میں آئی ہے جسے راشد اشرف نے مرتب کیا ہے ، کتاب بہت دلچسپ ہے۔ سب سے اچھی بات یہ کہ یہ سفرنامے جن رسائل و جرائد سے اخذ کیے گئے ہیں ان کا نام اور سن اشاعت آخر میں درج کردی گئی ہیں۔

یہ انتخاب تقسیم سے قبل تا ساٹھ کی دہائی تک ہے۔ اسی لیے ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ بہت سی پرانی یادیں بہت سے لوگوں کی تازہ ہوجاتی ہیں۔ بلکہ موجودہ دور کے قارئین کے لیے ایک خزانے سے کم نہیں۔ کتاب 480 صفحات پر مشتمل ہے۔اور تقریباً ستائیس مضامین ہیں۔ حصہ اول سفر ناموں پر مشتمل ہے اور حصہ دوم رپورتاژ پر۔ ہر زبان کے ادب میں سفرناموں کی بڑی اہمیت رہی ہے،کیونکہ یہ ذاتی مشاہدات پر مبنی ایک زندہ تاریخ ہوتی ہے۔ خارجی اور داخلی احساسات پر مشتمل سفرنامے ہمیشہ ایک زمانے کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔

سفرنامے نہ صرف معلومات بہم پہنچاتے ہیں بلکہ بصیرت بھی دیتے ہیں۔ اس کے ذریعے قاری دنیا کی دوسری قوموں کے تہذیبی، ثقافتی، جغرافیائی اور تمدنی حالات سے واقف ہوتا ہے۔ سفرنامہ نگار اپنی قوت مشاہدہ سے بہت کچھ دیکھ لیتا ہے۔ اردو کے سفرناموں کی تاریخ تقریباً دو سو سال پر محیط ہے۔

یوسف کمبل پوش کو اردو کا پہلا سفر نامہ  نگار تسلیم کیا گیا ہے۔ انھیں ’’عجائبات فرہنگ‘‘ لکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کے بعد آج تک ہر دور میں سفرنامے لکھے جاتے رہے ہیں اور مقبول ترین صنف میں شمارکیے جاتے ہیں، لیکن اردو میں بعض افراد نے کمرے میں بیٹھ کر اٹلس اور معلوماتی کتابوں سے مدد لے کر بھی سفرنامے لکھے ہیں، سفرکبھی کیا نہیں لیکن سفرنامے تخلیق ہوگئے۔ لیکن زیر نظر کتاب میں صرف وہ سفر نامے شامل ہیں جو حقیقت پر مبنی ہیں۔

جن ادیبوں کے سفرنامے اور رپورتاژ شامل ہیں ان میں داؤد رہبر، سید محفوظ علی، باری علیگ، مولانا عبدالحلیم شرر، سکندر علی واجد، حمید احمد خاں، سید مبارزالدین رفعت، نذر سجاد حیدر، ماہرالقادری، رشید احمد صدیقی، مولانا عبدالرزاق، وزیر آغا، آغا اشرف، ملا رموزی، محمود نظامی، اختر حسین رائے پوری، عبدالمجید قریشی، فارغ بخاری، عصمت چغتائی، ندا فاضلی، آرزو بارہ بنکوی، رام لعل، سلمیٰ صدیقی، کمانڈر انور اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کے نام شامل ہیں۔

یہ فہرست میں نے اس لیے دی کہ قارئین کو اندازہ ہو کہ یہ کتنا محنت طلب کام ہے، بہت سے ناموں سے تو بہت سے لوگ واقف بھی نہیں ہوں گے۔ جی چاہتا ہے کہ سید معراج جامی اور راشد اشرف سے تقاضا کروں کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد سے لے کر آج تک لکھے گئے سفرناموں کا انتخاب بھی وہ مختلف جلدوں میں کریں۔ جہاں کتاب چھاپنے والے موجود ہیں، وہیں کچھ پڑھنے والے بھی ہیں جن کی تسکین صرف کتابوں سے ہوتی ہے۔

چند اقتباسات مختلف سفرناموں اور رپورتاژ سے پیش خدمت ہیں۔

داؤد رہبر کا سفر نامہ ’’انگلستان کی چند یادیں‘‘

’’انگلستان کوئی بہت وسیع ملک نہیں ہے۔ تاہم اس کی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں جو نمایاں فرق پائے جاتے ہیں، ان میں ایک بہت اہم فرق لندن اور بیرون لندن کی زندگی کا ہے۔ انگلستان جانے والے اکثر وبیشتر لندن ہی میں رہتے ہیں۔ اس لیے وہ کل ملک کی تہذیب کا تصور لندن کے شوروغل سے حاصل کرلیتے ہیں۔ لندن ایک ایسی جگہ ہے جو انگلستان کی نمایندگی کے ساتھ دنیا کے دو چار ہجوم ہائے بشری کی نمایندگی بھی کرتا ہے۔ اس میں بڑے شہر کی خصوصیات غالب رہتی ہیں اور کل انگلستان کی خصوصیات اوجھل ہوجاتی ہیں۔‘‘

باری علیگ کا ’’رنگون سے واپسی‘‘

’’معاشی اعتبار سے رنگون کے ہندوستانیوں کی حالت متضاد عناصر سے عبارت ہے۔ اگر رنگون کا سب سے مال دار انسان ہندوستانی ہے تو رنگون کی نالیاں صاف کرنے اور رکشہ قلی بھی ہندوستانی ہے۔ تو دوسری طرف اسی دفتر کا دربان بھی ہندوستانی ہے۔ اگر کسی برمی کو ایک لمحے میں کسی ہندوستانی کا محتاج ہونا پڑے تو یہی برمی دوسرے لمحے میں رکشہ قلی کو ’’اے کلّا‘‘ کہہ کر اپنے جذبات تفاخر کی تسکین کرلیتا ہے۔ ایک برمی نوجوان نے بات چیت کے دوران مجھ سے کہا تھا کہ ’’برما پہ دو لعنتیں مسلط ہیں۔ ایک انگریز اور دوسرا ہندوستانی۔ ایک نے ہمیں سیاسی غلام بنا رکھا ہے اور دوسرے نے ہماری قومی اکانومی کو درہم برہم کر رکھا ہے۔ اسی نوجوان نے مجھے ایک دوسرے موقعے پر بتایا تھا کہ برما کی زیرکاشت اراضی کا دو تہائی ہندوستانی مہاجنوں کے پاس رہن ہے۔ برما میں ہندوستانیوں کے کئی ادارے ہیں۔ ان اداروں میں کسی برمی کو کوئی دخل نہیں۔ جس ملک کی دولت نے ہندوستانیوں کو مالا مال کر رکھا ہے ۔ اس ملک کے مجلسی اداروں پہ یہ ہندوستانی کچھ بھی خرچ نہیں کرتے (خیال رہے کہ ہندوستانیوں میں ہندو اور مسلم دونوں شامل ہیں) ان اسباب نے ہندوستانیوں اور برمیوں میں نفرت پیدا کردی ہے۔ اس نفرت کا آگے چل کر دشمنی کی صورت اختیار کرلینا ایک یقینی بات ہے۔‘‘

باری علیگ نے رنگون کا سفرنامہ 1945 میں تحریر کیا تھا اور یہ ادب لطیف میں شایع ہوا تھا۔ اس اقتباس سے برما یعنی میانمار میں ہونے والے فسادات کا سراغ ملتا ہے۔

’’حیدرآباد سے بمبئی تک ‘‘ از سکندر علی واجد

’’ہمارے ساتھ ایک پارسی لڑکا مینو نامی بھی سفرکر رہا تھا۔ ایک بزرگ نے اپنی زمانہ شناس نظروں سے فوراً پتا چلا لیا کہ اجنبی کے ساتھ توشہ خاصی مقدار میں ہے۔ اس مفید سراغ رسانی سے اکثر چہرے تمتما اٹھے۔ اب بے تکلفی بڑھانے کے لیے لچھے دار باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ ایک مخلص نے اتحاد و اتفاق پر وعظ شروع کردیا، دوسرے صاحب بول اٹھے ’’بھئی! مجھے تو بس پارسی قوم بہت پسند ہے۔ یہ لوگ دوستی کے سچے اور آڑے وقت پہ کام آتے ہیں۔‘‘ ایک تیسرے جہاں دیدہ نے فرمایا ’’ارے میاں ! ہماری تو پرورش ہی پارسیوں میں ہوئی ہے۔ پارسی گلی میں ہمارا مکان ہونے کی وجہ سے اکثر پارسی احباب ہمارے گھر آتے ہیں اور ہمارا بھی ان کے پاس آنا جانا ہے۔ میں نے یوں تو خیر بہت سی قوموں کے کھانے کھائے مگر واللہ پارسیوں کے پکوان کی لذت ہی کچھ اور ہوتی ہے۔‘‘

’’کچھ دن پشاور میں‘‘ از سید مبارزالدین رفعت۔ ’’ہندوستان میں خاندان مغلیہ کے بانی بابر نے بھی اپنی غیر فانی سوانح حیات میں پشاور کا ذکر کیا ہے اور اس کے مختلف مقامات کی قلمی تصویر کھینچی ہے۔ وہ کبھی جوش بہار اور فصل گل میں نواحی پشاور کے لالہ زاروں سے لذت گیر ہوتا ہے اور کبھی اپنی علمی تشنگی کی سیرابی کے لیے کہن سال بیگرام کے درخت کو ڈھونڈتا ہے اور کبھی گور گٹھڑی کی سیر کرتا ہے جو کسی زمانے میں بدھی خانقاہ تھی اور بعد میں برہمن جوگیوں کا مسکن بن گئی تھی، پھر اس گورگٹھڑی میں اس کا پڑپوتا جہانگیر یہ توقع لے کر آتا ہے کہ ’’شاید فقیری بنظر آید کہ ازصحبت او فیضی تو آں یافت‘‘۔

عہد شاہ جہانی میں جہاں آرا بیگم نے اسی گور گٹھڑی کے محل وقوع میں ایک کاروان سرائے اور مسجد بنوائی تھی، جو سکھوں کے عہد تسلط میں غارت ہوگئے۔ اسی عہد میں مہابت خان کی مسجد اور بالا حصار تعمیر ہوئے اور بازار قصہ خوانی کی شہرت وسط ایشیا تک پہنچی۔‘‘

1519 کا سال ہے خیبر کی زمین ایک سچے سپاہی کے قدموں سے مشرف ہوتی ہے۔ یہ انسانیت کا اچھا نمونہ ہے۔ رزم میں ایک دلیر سپاہی ایک بہترین سردار ہے تو بزم آرائی کا بھی ویسا ہی سلیقہ رکھتا ہے۔ پہلو میں ایک حساس دل بھی رکھتا ہے۔ حسن پرست اور حسن جو ہے۔ ہر حسین چیز سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اعلیٰ درجے کا ادیب اور شاعر ہے۔ ہے تو تاتاری تیموری نسل سے لیکن وہ بربریت اور وحشت اسے ورثے میں نہیں معلوم کیوں نہیں ملی؟ لنڈی کوتل میں محفل شراب منعقد ہوتی ہے۔ دوسری رات علی مسجد میں گزرتی ہے۔ تیسرے دن جمرود پہنچتا ہے۔ پھر یہاں سے گزر کر ایسا جاتا ہے کہ ہندوستان کے تاج شہنشاہی کو اپنے سر سے زینت دیتا ہے اور چار سو سال تک اسے اپنی اولاد میں بطور ورثہ چھوڑتا ہے۔ واپسی زندگی میں تو نہیں ہوتی البتہ اس کا جنازہ اس راستے سے ہوکرکابل تک جا پہنچتا ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔