انصاف کہاں ہے؟

زاہدہ حنا  اتوار 3 دسمبر 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ بات جون آڈمز نے کہی تھی کہ گناہ گار کو سزا دینے سے کہیں اہم یہ بات ہے کہ معصوم شخص اور معصومیت کی حفاظت کی جائے۔ دنیا میں جرائم اور غلط کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان سب کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر ایک معصوم فرد کٹہرے میں کھڑا کردیا جائے اور اسے سزا دے دی جائے بلکہ موت کی سزا دی جائے تو عام شہری یہ کہنے اور سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ ’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں درست کروں یا غلط‘‘ اس لیے کہ معصومیت میرے بچاؤ کے لیے نہیں آئے گی، اگر اس نوع کا خیال عام شہری کے ذہن میں جاگزیں ہوجائے تو سماج میں تحفظ کا خاتمہ ہوجائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیجیے کہ انصاف پر سے لوگوں کا اعتبار اٹھ جائے تو ہر طرف جنگل کا قانون نافذ ہوجاتا ہے۔

گزشتہ 70 برس سے اور بہ طور خاص 2014 سے ہم انصاف کے نام پر جس طرح کا انتشار اور خلفشار دیکھ رہے ہیں، وہ ہمیں خوفزدہ کردیتا ہے ۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم کہاں جائیں اورکس سے انصاف طلب کریں ۔ انصاف دینے والوں پر سے لوگوں کا اعتبار اٹھ چکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس بارے میں بہت سے لوگ پوچھتے ہیں کون سا انصاف؟ انصاف ہمیں دوسری دنیا میں ملے گا، یہاں قوانین موجود ہیں جن پر دیانت سے عمل کرانے والے نہیں ملتے۔

ان تاریک دنوں میں بھی کہیں کہیں روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔ یہ کرن کبھی ہمیں میاں نواز شریف کی صورت نظر آتی ہے جو اپنے خلاف چلنے والے مقدموں میں انصاف ملنے کا امکان نہیں دیکھتے اور اس کے باوجود عدالتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے پاس اپنی شریک حیات کی شدید بیماری ایک ایسا سبب تھا جسے عدالت میں پیش کرکے وہ کچھ دن لندن میں گزار سکتے تھے لیکن وہ ان مقدمات کا سامنا کررہے ہیں جن کے بارے میں ان کا اور ان کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ انھیں انصاف نہیں مل سکے گا۔

روشنی کی دوسری کرن جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے وہ ریمارکس ہیں جو اخبارات میں شائع ہوئے، ٹیلی وژن چینلوں میں زیر بحث آئے۔ یہ ریمارکس انھوں نے کسی ذاتی مقدمے میں نہیں دیے ہیں۔ فیض آباد سے ایک مذہبی تنظیم کا دھرنا ختم کرانے کے بارے میں جو احکامات دیے گئے تھے اور ان کی جس طور بے توقیری ہوئی اس نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو چراغ پا کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ فاضل عدالت نے فیض آباد کو دھرنے والوں سے خالی کرانے کا حکم دیا تھا نہ یہ کہ فوج ثالثی کرائے، جسے سیاست کرنے کا شوق ہے وہ ریٹائرمنٹ  لے اور سیاست میں آجائے۔

جسٹس موصوف نے سوال کیا کہ ’’یہ آپ نے کیسا معاہدہ کیا ہے، دھرنے والوں کے سامنے سرینڈر کیا اور اپنی ایک بھی بات نہیں منوائی، آپ نے انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کروا دیا، دہشت گردی کی شقوں والے مقدمات کیسے ختم ہونگے، ججوں کو گالیاں دینے پر معافی معاہدے میں شامل کیوں نہیں؟ عدالت نے معاہدے میں عسکری کردار پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قانون شکنی کرنے والوں اور انتظامیہ کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے؟

عدالت نے آپریشن کی ناکامی پر انتظامیہ اور انٹیلی جنس بیورو سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کردی ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پیر کو فیض آباد دھرنے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے انٹیلی جنس بیورو سے پوچھا کہ بتائیں دھرنے والوں کے پاس اسلحہ، آنسو گیس فائر کرنے والی گنز اور حفاظتی ماسک کیسے پہنچے اور پولیس جب فیض آباد خالی کرانے کے قریب تھی تو دھرنا مظاہرین کی مدد کس نے کی۔

فاضل جسٹس نے حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدے میں فوج کی ثالثی پر حیرت اور دھرنا مظاہرین کو سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف گالیاں دینے پر معاہدے میں معافی کی شق شامل نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور ریمارکس دیے کہ فوج نے قانون توڑنے اور قانون نافذ کرنے والوں میں معاہدہ کرایا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہ لوگ ہیں، کیا آئین کے تحت آرمی چیف ’’ایگزیکٹو‘‘ سے الگ ہیں؟ آئین کے مطابق ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے فوج ثالث کیسے بن سکتی ہے؟ فوج کا میجر جنرل کیسے ثالث بنا؟

سازش کے تحت اسلام آباد پولیس اور انتظامیہ کو ناکام بنایا گیا، کب تک قوم کے ساتھ یہ تماشا چلتا رہے گا؟ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا کہ اب تک جو نقصان ہوا، اسے ریاست کیوں برداشت کرے؟ ردالفساد اور ضرب عضب کہاں گئے؟ یہ تاثر دیا گیا کہ ہر مرض کی دوا فوج ہے، اگر بیرونی جارحیت ہوئی تو ہم فوج کے لیے اپنا خون بھی دیں گے، 1965 کی جنگ میں ہم نے جھولی پھیلا کر افواج کے لیے چندے جمع کیے، جب بھی ملک کو کئی خطرہ ہوا تو افواج پاکستان کے شانہ بشانہ ہوں گے لیکن فوج کا یہ کردار ہمیں قبول نہیں ہے، فوج اپنا کردار آئینی حدود میں ادا کرے، جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ ریاست کی بندوق واپس کرکے ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئیں۔

فاضل جسٹس نے استفسار کیا کہ قانون شکنی کرنے والوں اور انتظامیہ کے درمیان فوج کیسے ثالث بن سکتی ہے؟ آپ لوگوں کو بتا رہے ہیں کہ جوہری طاقت والے ملک کی سیکیورٹی کا حال یہ ہے؟ آپ نے کوئی کام نہیں کیا صرف دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کیا ہے۔ حمزہ کیمپ کی جگہ یہاں جی ایچ کیو ہوتا تو کیا یہاں دھرنا ہوتا؟ فوج ہمارا فخر ہے، فوج میں ہمارے باپ بیٹے اور بھائی شامل ہیں لیکن اسے اپنا کردار آئینی حدود میں رہ کر ادا کرنا چاہیے۔ میں جانتا ہوں کہ ان باتوں کے بعد میری زندگی کی بھی اب کوئی ضمانت نہیں، ماردیا جاؤں گا یا پھر لاپتا کردیا جاؤں گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جس دبنگ انداز میں دھرنے کا معاملہ اٹھایا اسے دھرنے کے دوران شدید زخمی ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنما میاں جاوید لطیف نے سراہتے ہوئے کہا کہ اگر آپ خود ہی فیصلے کرنے اور خود  ہی عدالتیں لگانا شروع کردیں گے تو یہ ایک مناسب طریقِ کار نہیں ہے۔ انھوں نے جسٹس شوکت عزیز کی تائید اور توصیف کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جو باتیں کہی ہیں ان کی توثیق پوری قوم کرتی ہے۔ اس وقت ہمارے یہاں جو حالات ہیں ان میں جسٹس صاحب نے نہایت جرأت اور استقامت سے وہ باتیں کہیں جنھیں اپنے ذہن میں سب ہی لوگ محسوس کررہے ہیں لیکن انھیں زبان پر لاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔

سچ کو بیان کرنے اور زبان پر لاتے ہوئے ڈرنے کا عذاب اسی سماج میں آتا ہے جہاں سے انصاف اٹھا لیا گیا ہو۔ ہمارے یہاں یہ عذاب کئی دہائیوں سے آیا ہوا ہے اور روز بہ روز اس کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان یہ کہہ کر وجود میں آیا تھا کہ یہاں مسلمانوں کی زندگیاں محفوظ رہیں گی، وہ اپنے دینی عقائد، کاروبار اور زندگی کے تمام پہلوؤں میں آزاد ہوں گے اور اکثریت اور اقلیت سب ہی کو انصاف ملے گا۔

افسوس کہ ایسا نہیں ہوا اور ابتدا سے ہی انصاف عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتا گیا۔ اس کے بعد ہمارے یہاں آمریت کی وبا پھیلی۔ یہ وبا ایک بار نہیں بار بار آئی۔ اب بھی کہنے کو جمہوریت ہے لیکن آمریت کی پشت پناہی کرنے والوں کے ہاتھ لمبے ہیں، اتنے لمبے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی ایسے نرم مزاج افراد بھی بلک اٹھتے ہیں۔ عدالتیں اس بنیاد پر قائم ہوتی اور کام کرتی ہیں کہ وہ اپنے قلب اور روح سے ان تمام اصولوں کی پاسداری کریں گی جس کی بنیاد پر ہر بڑے اور چھوٹے کو، با اثر اور بے اثر کو، امیر اور غریب کو یکساں انصاف فراہم کیا جائے۔

لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملکی قوانین پر مبنی فیصلے صرف کاغذ پر نہ لکھے جائیں، وہ ہوتے ہوئے بھی نظر آنے چاہییں۔ مسئلہ ایک سابق وزیراعظم پر چلنے والے مقدمات اور 20 روزہ ایک دھرنے کے خاتمے کا نہیں ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم کے خلاف چلنے والے مقدمے میں انھیں اور بہت سے لوگوں اور قانون دانوں کو انصاف ہوتا کیوں نظر نہیں آتا؟ لوگ یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ 20 روزہ دھرنا ختم ہوا تو اس کا سہرا اس کے سر کیوں بندھا جس کو ثالث بننے کا حق نہیں پہنچتا تھا۔ یہ وہ سوال ہیں جو صرف ایک جج نہیں، پاکستان کا ہر ذی شعور شہری اٹھا رہا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کیا اب سے دہائیوں پہلے اس سے فاش غلطی ہوگئی تھی؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔