گلابوں کے شہر میں پھر خون کی ہولی

تنویر قیصر شاہد  پير 4 دسمبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دسمبر کا مہینہ طلوع ہوتے ہی پشاور، جسے پیار سے ’’گلابوں کا شہر‘‘ کہا جاتا ہے، ہمارے جوان شہدا کے خون سے گلگوں ہو گیا ہے۔ یکم دسمبرکی صبح پونے نو بجے،جب سارے عالمِ اسلام کے ساتھ مملکتِ خداداد پاکستان میں بھی جشنِ عیدِ میلادالنبیؐ منایا جارہا تھا، اسلام اور پاکستان کے دشمنوں نے پشاور شہر میں بروئے کار طلبا کے ایک ہوسٹل پر حملہ کر دیا(اس ہوسٹل میں عمومی طور پر 400طلبا رہتے ہیں لیکن یکم دسمبر کو چھٹیاں ہونے کی وجہ سے ہوسٹل میں صرف ڈیڑھ سو طلبا تھے) پلک جھپکتے میں نصف درجن طلبا اور تین چار دیگر سرکاری ملازمین شہید کردیے گئے۔

شہر کی پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے برق رفتار جوابی اقدام سے تمام حملہ آور دہشتگرد جہنّم واصل کردیے گئے۔ شنید ہے ایک بدبخت حملہ آور دہشتگرد زندہ حالت میں گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ جنہوں نے عیدِ میلاد شریف کے مبارک اور مسعود موقع پر یہ خونی کھیل کھیلا ہے، ہم انھیں جہنمی اور اسلام و مسلمان دشمن ہی کہیں گے۔ یہ حملہ عین ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب ٹھیک تین سال قبل، دسمبر ہی کے مہینے میں، پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں نے حملہ کرکے ہمارے سو سے زائد پھولوں کو بے دردی سے روند ڈالا تھا۔ ابھی چند دن پہلے ہی تو دہشتگردوں نے پشاور میں ایڈیشنل انسپکٹر جنرل (اشرف نور) کو خود کش حملے میں شہید کر دیا تھا۔

اللہ تعالیٰ ان بد بخت دہشتگردوں اور اُن کے تمام سر پرستوں، سہولت کاروں اور ہمدردوں کو غارت کرے۔افسوس عمران خان شہدا کے جنازوں میں شریک ہو سکے ہیں نہ زخمیوں کی عیادت کر سکے،حالانکہ پشاور تو اُن کی مقتدر پارٹی کا مرکز ہے۔ یکم دسمبر کا یہ تازہ خونی اور جان لیوا حملہ اُس وقت کیا گیا ہے جب امریکی وزیر دفاع، جیمز میٹس، تین دن بعد پاکستان کے دَورے پر آرہے تھے۔ یہ صاحب غالباً آج اسلام آباد اُتر رہے ہیں۔انھوں نے دو ماہ قبل بھارت کا دَورہ کیا تھا اور وہاں پاکستان کے بارے میں خاصی ’’گل افشانیاں‘‘ فرمائی تھیں۔

حکومتِ پاکستان نے پشاور میں تقریباًتین درجن اپنے تازہ شدید زخمیوں اور 9 شہدا کی ذمے داری افغانستان پر ڈالی ہے۔ کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پناہ یافتہ ٹی ٹی پی نے اس خونی سانحہ میں براہ راست حصہ بھی لیا اور سہولت کاری بھی کی ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’حملہ آور افغانستان میں اپنے سہولت کاروں سے مسلسل رابطے میں تھے۔‘‘ تقریباً ایک سال قبل جب دہشتگردوں نے چارسدہ کی باچاخان یونیورسٹی پر، صبح نو بجے، حملہ کر کے ڈیڑھ درجن سے زائد طلبا کو شہید کر دیا تھا تو اس کی ذمے داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

اور اُس وقت بھی آئی ایس پی آر کے سربراہ، عسکری قیادت اور پاکستانی حکام کی طرف سے افغانستان کو انتباہ کیا گیا تھا مگر افغانستان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔سوال یہ ہے کہ کیا افغانستان، جو اپنے شہریوں کو روٹی فراہم کرنے کے لیے گندم بھی انڈیا سے ادھار لے رہا ہے، اکیلا اِس قابل ہے کہ ٹی ٹی پی کے ذریعے پشاور میں دن دہاڑے قتل و غارتگری کا بازار گرم کر سکے؟ افغانستان کی جو فوجی اور جنگی اوقات ہے، ہم سب اس سے واقف ہیں۔جو افغانستان اپنے چالیس لاکھ مہاجرین پاکستان سے عزت کے ساتھ واپس لینے کے قابل نہیں ہے، وہ افغانستان اِس قابل کہاں سے ہوگیا کہ ایٹمی پاکستان میں دہشتگردیاں اور بدمعاشیاں کر سکے؟ یقینا پاکستان کے خلاف سر اُٹھانے اور آئے روز خوں ریزیاں کر کے پاکستان کو دبانے کی ناکام جرأتیں کرنے پر کوئی اُسے بار بار اعانت فراہم کر رہا ہے۔

یہ ’’کوئی‘‘ کون ہے؟ اِن سے بھی ہم، ہماری حکومت، ہمارے حکمران اور ہمارے خفیہ وعسکری ادارے خوب آگاہ اور آشنا ہیں۔پاکستان مگر صبر سے کام لے رہا ہے اور افغانستان کی گوشمالی کرنے میں تحمل و اعراض برت رہا ہے۔  مگر افغان عوام کی طرف پاکستان کا بڑھتا ہُوا یہ اعانتی اور برادرانہ ہاتھ افغان حکام اور افغانی خفیہ ادارے ’’این ڈی ایس‘‘ نے شائد پاکستان کی مجبوری اور کمزوری کو سمجھ لیا ہے۔ یوں اُس کی پاکستان کی خلاف سرکشیاں، زیادتیاں روز افزوں ہیں۔ وہ ایران اور بھارت سے اپنی دوستیوں پر زیادہ مَت اِترائے۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے پشاور کے سانحہ پر فوری طور پر افغانستان کا چہرہ بے نقاب کرکے اُن قوتوں کو بھی متنبّہ کر دیا ہے جو پاکستان کے خلاف اپنا شیطانی اور خونی کھیل کھیل کر مذموم مقاصد حاصل کرنے کے دَرپے تو ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ کھیل کامیابی سے ہمکنار ہونے والا نہیں ہے۔ افواجِ پاکستان اور پاکستان کی جملہ سیکیورٹی فورسز کے جوانوں اور افسروں کے ساتھ ساتھ ہزاروں پاکستانی عوام نے اپنے مقدس خون کی دیوار سے دشمنانِ پاکستان کی پیدا کردہ دہشتگردی کی اس کالی آندھی کا منہ موڑ کررکھ دیا ہے۔ دنیا بھر میںہے کوئی دوسری قوم، کوئی ملک، کوئی فوج جو ان کامیابیوں کے میدان میں پاکستان کی ہمسری کر سکے؟؟

دنیا نے تسلیم کیا اور مانا ہے کہ پاکستان نے اپنے محدود وسائل کے باوصف دہشتگردوں کو شکست دے کر دنیا کو امن کا تحفہ دیا ہے۔ پاکستان کی یہ کاوشیں اور کوششیں مسلسل جاری ہیں۔ ابھی 2 دسمبر کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بحیرۂ اسود کے کنارے واقع روس کے مشہور شہر’’سوچی‘‘ میں ’’بلوم برگ‘‘ کو انٹرویو دیتے ہُوئے ایک بار پھر پاکستان کی یہ خواہش اور پیشکش عالمی قائدین کے سامنے رکھی ہے کہ آپ(پاکستان میں) دہشتگردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کیجئے، ہم اُن کا خاتمہ کریں گے۔ شائد یہ کہنا اتنا آساں نہیں ہے لیکن امریکا آگے بڑھ کر’’نافرمانی پر‘‘ پاکستان کی مشکیں کسنے کا متمنی ضرور نظر آرہا ہے۔ قرائن اور آثار واضح ہیں۔ مثال کے طور پر یہ دیکھئے کہ جس روز (یکم دسمبر2017ء) دہشتگردوں نے پشاور کو خون میں نہلا دیا گیا، اُسی روز ممتاز امریکی ادارے CRS (Congressional Research Service)نے یہ خبر دی کہ امریکا نے پاکستان کو دی جانے والی امداد میں جو بے پناہ کمی کی ہے، اس کی وجہ سے پاکستان کو پاک، افغان بارڈر کی نگرانی میں شدید مشکلات کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔

متذکرہ رپورٹ میں یوں انکشاف کیا گیا ہے:’’نائن الیون کے سانحہ کے بعد پاکستان کو امریکا کی طرف سے سالانہ 2ارب 20کروڑ ڈالر کی جو امداد فراہم کی جارہی تھی، اب یہ محض 35کروڑڈالر رہ گئی ہے۔‘‘اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکا گزشتہ9برسوں کے دوران(2002ء تا 2011ء) پاکستان کو 22ارب 17کروڑ ڈالر ادا کر چکا ہے۔اِسی امداد میں CSF (Coalition Support Fund)کے نام سے وہ رقم بھی شامل تھی جس کی بنیاد پر 2200کلومیٹر طویل پاک، افغان بارڈر کی مانیٹرنگ آسان بھی تھی اور اخراجات کا بوجھ بھی پاکستان کے سرکاری خزانے پر نہیں پڑ رہا تھا۔ امریکی ’’شہ دماغوں‘‘ کا خیال ہے کہ امریکا نے یہ امداد بند کردی ہے تو پاکستان مجبور ہو کر امریکی مطالبات کے سامنے جھک جائے گا۔ امریکیوں کی یہ محض خام خیالی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اب پاکستانی جان چکے ہیں کہ’’بھاری امریکی امداد ‘‘ہمیشہ اپنے دامن میں پاکستان کے لیے بدبختیاں اور بدشگونیاں ہی لے کرآتی ہے۔ اس لیے ہمارا سلام ایسی امریکی امداد کو!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔