طاقت کا تعطل

اقبال خورشید  پير 4 دسمبر 2017

جب مظاہرین دارالحکومت میںجم کر بیٹھے تھے، اور تناؤ بڑھتا جارہا تھا۔۔۔ جب مذاکرات کی کوششیں ایک ایک کرکے ناکام ہورہی تھیں، اور دھرنے کو غیرمرئی قوتوں کی حمایت کا تاثر ابھر رہا تھا، تب میرے ذہن میں ولادیمیر پوتن کی زندگی سے جڑا ایک واقعہ گردش کر رہا تھا۔۔۔ واقعہ، جس میں سوویت یونین کے زوال کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔

اور آپریشن کے نتیجے میں ملک بھر میں پھوٹ پڑنے والے مظاہروں۔۔۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی بندش۔۔۔ فوج کی کارروائی سے معذرت۔۔۔ ایک فوجی افسر کے معاہدے کا ضامن بننے، اور جسٹس شوکت عزیز کے ریمارکس کے بعد یہ احساس قوی ہوگیا کہ سول حکومت آج اسی محاذ پر کھڑی ہے، جہاں برسوں قبل مشرقی جرمنی میں تعینات پوتن نے خود کوکھڑا پایا تھا، جب ایک پریشان کن شام اسے یک دم احساس ہوا کہ اس کا ملک ایک ہولناک مرض کا شکار ہوچکا ہے۔ زوال قریب ہے۔

یہ واقعہ پوتن، جسے بلاشبہ عہد حاضر کا طاقتور ترین شخص کہا جاسکتا ہے، کی سوانح عمری ’’مردآہن‘‘ میں درج ہے، جس کا ترجمہ ڈاکٹر نجم السحر بٹ نے براہ راست روسی سے کیا۔ یہ پوتن کی ’’کے جی بی‘‘ کے شعبۂ سراغ رسانی سے وابستگی کا زمانہ تھا۔ وہ بطور سینئر آپریشن آفیسر مشرقی جرمنی میں تعینات تھا، اور وہاں حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ دیوار برلن گرائے جانے کا واقعہ قریب تھا۔ کتاب میں پوتن نے ان دنوں کو یوں یاد کیا: ’’ قومی سلامتی کے ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگے۔۔۔ جرمن عوام ان کے زیر کنٹرول زندگی سے اکتا گئے تھے۔۔۔ سوویت یونین کے مانند وہاں تیس سال سے شخصی نظام حکومت قائم تھا۔‘‘

جب جرمنوں نے وزارت امور قومی سلامتی کی عمارت پر دھاوا بولا، تو اس بلڈنگ کا بھی رخ کیا، جہاں پوتن اور ان کے ساتھی کئی اہم دستاویزات کے ساتھ موجود تھے۔ پوتن نے مظاہرین سے مذاکرات کرنے کی کوشش کی، مگر ہجوم کا رویہ جارحانہ تھا۔ پوتن نے جرمنی میں تعینات سوویت فوج کے دستے سے رابطہ کیا۔ جواب ملا: ’’ہم ماسکو سے ہدایت لیے بغیر کچھ نہیں کرسکتے، اور ماسکو خاموش ہے!‘‘ مجمع تو کچھ دیر بعد منتشر ہوگیا، مگر پوتن کے بقول: ’’ماسکو خاموش ہے۔۔۔ یہ الفاظ سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا، جیسے ہمارا ملک ختم ہوگیا، یہ بات واضح ہوگئی کہ سوویت یونین بیمار ہے، اور اس جان لیوا بیماری کا نام ہے: طاقت کا تعطل، حکومت کرنے کی طاقت کا تعطل۔‘‘

تو صاحب، گزشتہ دنوں جب عوام انفارمیشن کے بلیک آؤٹ سے گزر رہے تھے، جس کا اختتام ایک غیر متوقع معاہدے پر ہونے والا تھا، تب میرے کانوں میں پوتن کے الفاظ گونجتے تھے: ’’ہمارا ملک بیمار ہے، اور اس جان لیوا بیماری کا نام ہے: طاقت کا تعطل!‘‘

طاقت کے اس ڈیڈ لاک کی ابتدائی شکل ہمیں عمران خان کے دھرنے کے وقت دکھائی دی، مگر تب یہ ڈیڈلاک اتنا واضح نہیں تھا۔ گو اندیشے گردش کرتے تھے، امپائر سے جڑی امیدیں پریشانی بڑھاتی تھیں، مگر میاں صاحب اپنے تجربے کو کام میں لاتے ہوئے، جاوید ہاشمی اور پی پی پی کی مدد سے اس بحران سے نکلنے میں کامیاب رہے۔ نیوز لیکس کا گھاؤ بھی حکومت نے سہہ لیا، اور اسے امید تھی کہ پاناما سے بھی کچھ برآمد نہیں ہوگا، مگر جے آئی ٹی کی تشکیل، اور اس کے لیے ’’ہیرے جیسے افراد‘‘ کے انتخاب کے بعد، جب وزیراعظم اور ان کے بچے کمیٹی کے سامنے پیش ہونے لگے، تب اس ڈیڈلاک کی ابتدائی اور واضح جھلک وزراء کے تلخ لہجوں میں دکھائی دینے لگی۔ اقتدار حکمران جماعت کے ہاتھوں سے نکلنے لگا۔

نااہلی ایک بہت بڑا دھچکا تھی، مگر میاں صاحب جنگ لڑنے کو تیار تھے۔ شہباز شریف کو، جن کی بابت یہ تاثر عام کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہیں، وزیراعظم کے منصب اور پارٹی کی سربراہی سے دور رکھ کر، خود پارٹی سربراہ کا عہدہ سنبھال کر جو کامیابی میاں نواز شریف نے حاصل کی، وہ بھی طاقت کے ڈیڈلاک کو ختم کرنے میں ناکام رہی۔ سول حکومت غیرمتعلقہ ہوتی گئی۔ حالیہ دھرنے نے اس پر تصدیق کی مہر ثبت کردی۔ جس طرح اس معاملے کو ہینڈل کیا گیا، عدلیہ اور فوج نے جو موقف اختیار کیا، جو معاہدہ ہوا، اس سے سول حکومت کی خاصی تضحیک ہوئی۔ وہ بے بس اور لاچار معلوم ہوئی، اور آنے والے دنوں میں اس بے بسی اور لاچاری میں کمی کا امکان نہیں۔

بدقسمتی سے پاکستان کی انتخابی سیاست میں پنجاب، عددی اکثریت کے باعث، اتنا پرقوت ہے کہ فقط ایک صوبے سے فتح حاصل کرکے مرکز میں حکومت بنائی جاسکتی ہے۔ ن لیگ نے بھی خود کو وہیں تک محدود رکھا، اور تحریک انصاف بھی اسی ماڈل کو اختیار کرچکی ہے۔ پی پی پی بھی پنجاب میں کامیابی کے بغیر وفاقی حکومت نہیں بناسکتی۔ ان حالات میں سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کا خود کو غیر متعلقہ محسوس کرنا فطری ہے۔ پاکستان کے دیگر صوبوں کی مانند پنجاب میں بھی برادریاں اور خاندان سیاسی رسوخ کے حامل ہیں۔ البتہ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے طبقات بھی سیاسی ڈھانچے میں خاصی اہمیت رکھتے ہیں۔

ان طبقات کی اکثریت ن لیگ کی ووٹر تصور کی جاتی تھی، مگر حالیہ دھرنے، ن لیگ کے اندرونی انتشار اور ایک مذہبی طبقے کی جانب سے ن لیگ کی مخالفت کے بعد آیندہ انتخابات میں پنجاب میں ایک ایسی تبدیلی کا امکان پیدا کردیا گیا ہے، جس کے ذریعے عمران خان مذہبی سیاسی جماعتوں، آزاد امیدواروں، سندھ میں پی پی پی مخالف قوتوں اور ایم کیو ایم کو ساتھ ملا کر ایک کمزور پارلیمنٹ کے وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ گو یہ اچھا سودا نہیں، مگر بظاہر عمران خان، جو روایتی سیاست دانوں کی مانند اب مذہب اور حب الوطنی کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں، اس پر راضی نظر آتے ہیں۔

کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس جنگ میں ن لیگ کی شکست یقینی ہے۔ یہ موقف درست ہی معلوم ہوتا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ شکست پاکستان کے لیے سودمند ہے؟ کیا اس سے پاکستان کو کچھ حاصل ہوا؟

یہ کہنا آسان ہے کہ ن لیگ آپ اپنی مشکلات کی ذمے دار ہے؟ لیکن کیا ہم دیگر اسٹیک ہولڈرز کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ طاقتور اسٹیک ہولڈرز اگلی پارلیمنٹ کے لیے بھی چیلنج ہوں گے۔ عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ کے درمیان ہم آہنگی اور اختیارات کی حد کا تعین کیے بغیر ہم وہ نقشہ نہیں بناسکتے، جو ہمیں ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے۔ سورماؤں کی پرستش ایک تسلیم شدہ حقیقت، مگر کسی کو بھی ضرورت سے زیادہ Glorify کرنا طاقت کا توازن بگاڑ سکتا ہے، اور وہ بھی ایسے لمحات میں جب طاقت کا ڈیڈلاک پیدا ہوچکا ہو، ایک پرخطر عمل ہے۔

سول سیٹ اپ میں لگاتار تیسرا الیکشن ہونے کو ہے، مگر جس سول ڈھانچے کے ہم خواہش مند تھے، وہ دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔