- پولر آئس کا پگھلاؤ زمین کی گردش، وقت کی رفتار سست کرنے کا باعث بن رہا ہے، تحقیق
- سندھ میں کتوں کے کاٹنے کی شکایت کیلئے ہیلپ لائن 1093 بحال
- کراچی: ڈکیتی کا جن قابو کرنے کیلیے پولیس کا ایکشن، دو ڈاکو ہلاک اور پانچ زخمی
- کرپٹو کے ارب پتی ‘پوسٹربوائے’ کو صارفین سے 8 ارب ڈالر ہتھیانے پر 25 سال قید
- گٹر میں گرنے والے بچے کی والدہ کا واٹر بورڈ پر 6 کروڑ ہرجانے کا دعویٰ
- کرپٹو کرنسی فراڈ اسکینڈل میں سام بینک مین فرائڈ کو 25 سال قید
- کراچی، تاجر کو قتل کر کے فرار ہونے والی بیوی آشنا سمیت گرفتار
- ججز کے خط کی انکوائری، وفاقی کابینہ کا اجلاس ہفتے کو طلب
- امریکا میں آہنی پل گرنے کا واقعہ، سمندر سے دو لاشیں نکال لی گئیں
- خواجہ سراؤں نے اوباش لڑکوں کے گروہ کے رکن کو پکڑ کر درگت بنادی، ویڈیو وائرل
- پی ٹی آئی نے ججز کے خط پر انکوائری کمیشن کو مسترد کردیا
- عدالتی امور میں ایگزیکٹیو کی مداخلت کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی، فل کورٹ اعلامیہ
- وفاقی حکومت نے کابینہ کی ای سی ایل کمیٹی کی تشکیل نو کردی
- نوڈیرو ہاؤس عارضی طور پر صدرِ مملکت کی سرکاری رہائش گاہ قرار
- یوٹیوبر شیراز کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات
- حکومت کا بجلی کی پیداواری کمپنیوں کی نجکاری کا فیصلہ
- بونیر میں مسافر گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 8 افراد جاں بحق
- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
ٹائپ ون ذیا بیطس کا بچپن سے لاحق ہونے کا تصور غلط ہے، تحقیق
لندن: طبی ماہرین نے ایک تحقیق سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ذیابیطس (ٹائپ ون) کو بچپن سے لاحق ہونے والی بیماری کہنا غلط ہے کیوں کہ یہ بالغ افراد میں زندگی کے کسی بھی مرحلے پر حملہ آور ہوسکتی ہے۔
سائنسی و تحقیقی جریدے جرنل لینسٹ ڈائیابیٹس اینڈ انڈو کرائنالوجی میں شائع تحقیق کے مطابق بالغ افراد میں ذیابیطس (ٹائپ ون) کی غلط تشخیص کی جاتی ہے اور گمان کیا جاتا ہے کہ ذیابیطس بچپن میں لاحق ہوگئی تھی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک عام اور غلط تاثر ہے کہ ذیابیطس کی (ٹائپ ون) بچپن سے لاحق ہوتی ہے۔ ذیابیطس کی یہ قسم بالغ افراد پر کسی بھی وقت حملہ آور ہوسکتی ہے، ٹائپ ون ذیابیطس کے 40 فیصد کیسز اوسطاً 30 سال کی عمر کے بعد ہی سامنے آتے ہیں۔
برطانوی یونیورسٹی ایگزیٹر کے پروفیسر رچرڈ اورم کا کہنا ہے کہ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ بیماری زندگی بھر موجود رہتی ہے جب کہ بہت سے ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ذیابیطس کی ظاہری علامات کے تحت سمجھا جاتا ہے کہ مریض کو ذیابیطس ٹائپ ٹو لاحق ہوگی لیکن یہ غلط فہمی ہے جو کہ ممکنہ طور پر غلط تشخیص کے باعث سنگین نتائج کا سبب بن سکتی ہے۔
ذیابیطس ٹائپ ون اور ٹو کے درمیان تفریق کی جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان علاج کے طریقہ کار کا فرق ہے، ذیابیطس ٹائپ ون میں انسولین پیدا کرنے والے سیل تباہ ہوجاتے ہیں جس کےنتیجے میں مریض کو انسولین کا انجکشن لگانا پڑتا ہے تاکہ خون میں بڑھتی ہوئی شوگر کی مقدار کو کم کیا جاسکے جب کہ ذیابیطس ٹائپ ٹو میں آپ کا جسم بدستور انسولین پیدا کررہا ہوتا ہے اور مرض کی اس قسم کو خوراک او رادویات سے کنٹرول کرلیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ کی موجودہ وزیراعظم تھریسامے لوگوں کے لیے ایک مثال ہیں جنہیں ذیابیطس کا مرض لاحق تھا تاہم اس کی تشخیص میں غلطی ہوئی، انہیں ذیابیطس ٹائپ ون تھی تاہم انہوں نے معالجین کو ٹائپ ٹو کا بتا کر ادویات لیں اور وہ دوائیں ان کی شوگر کنٹرول کرنے میں ناکام ثابت ہوئیں۔
پروفیسر رچرڈ اورم نے کہا ہے کہ یہ تحقیق لوگوں میں آگاہی پیدا کرتی ہے کہ ذیابیطس ٹائپ ون عمر کے کسی بھی حصے میں لاحق ہوسکتی ہے اسے تشخیصی مرحلے میں پکڑ لینا چاہیے، بالغ افراد میں ٹائپ ون کی تشخیص بالکل درست طور پر ہونی چاہیے اس کی ایک پہچان یہ ہے کہ اگر ٹائپ ون کے مریضوں کو ٹائپ ٹو کی دوا دے دی جائے تو ان کی خون سے شکر کی مقدار کم نہیں ہوتی ، ٹائپ ون کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس کے مریض عام طور پر دبلے پتلے ہوتے ہیں بہ نسبت ٹائپ ٹو کے مریضوں کے جو کہ قدرے صحت مند یا موٹے ہوتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔