ایک ریٹائرڈ جنرل کے انکشافات

تنویر قیصر شاہد  منگل 12 مارچ 2013
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ساری عمر ملک اور فوج کا کھاتے ہیں اور جب ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو اِسی ملک اور اِسی فوج کو گالی بھی دیتے ہیں،ملک کے حساس اداروں میں نقائص نکالتے اور اِس میں اپنی پسند کی تبدیلیاں لانے کے مشورے دیتے ہیں۔واشنگٹن میں ایک ایسے ہی صاحب رہتے ہیں۔حسن عباس اُن کا اسمِ گرامی ہے۔بی بی شہید کے دوسرے دورِحکومت اور جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں یہ صاحب ہمارے ہاں پولیس افسر رہے ہیں۔جب سے وہ پاکستان سے امریکا پدھارے ہیں،اپنی ہرگفتگو او رہر تحریر میں افواجِ پاکستان اور مملکتِ خداداد کو دشنام دینا انھوں نے اپنا اولین فریضہ بنالیا ہے۔

جناب حسن عباس کی اِن حرکتوں سے کسی نے آگاہی اور آشنائی حاصل کرنی ہوتو اُن کی ایک کتاب Pakistan ‘s   Drift in to extremism کا مطالعہ کرلیاجائے۔آنجناب نے اپنی اِس کتاب میں ’’تحقیق‘‘ کے نام پر کارگل لڑائی کا ذکرکرتے ہوئے وطن کی سیکیورٹی فورسز کے خلاف جو گرد اڑائی ہے،اُس پر کم از کم الفاظ میں افسوس ہی کیاجاسکتا ہے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب نے بھی اپنی تازہ کتاب’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں کارگل کا ذکر کرتے ہوئے جو گوہر افشانی فرمائی ہے،ہمیں یوں لگاہے جیسے شاہد عزیز اور حسن عباس کے عزائم اور اہداف میں کوئی فرق نہیں۔

لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ شاہد عزیز صاحب نے ایک سابق فوجی جرنیل ہونے کے ناتے اپنے تجربات ومشاہدات کی بنیاد پر کچھ لکھاتو سہی۔وہ ریٹائرڈ ہو کر محض خاموشی کا لبادہ اوڑھ کر بیٹھے نہ رہے۔ہمارے کتنے ریٹائرڈ جرنیلوں نے اپنی یادداشتیں مرتب کیں؟یہ بڑادلچسپ سوال ہے۔غالباً میجر  جنرل (ر)اکبر خان ہمارے پہلے سینئر فوجی افسر تھے جنہوں نے نہایت شاندار کتاب لکھی لیکن انھوں نے تنقید کا برا نہیں مانا۔ان کی یہ کتاب Raiders  in  Kashmir کے عنوان سے جانی جاتی ہے۔اب یہ ہمارے عسکری او رسیاسی لٹریچر کا بیش بہا خزانہ ہے جس میں حیرت واستعجاب کے کئی باب کھلتے ہیں۔کہاجاتا ہے کہ جنرل اکبر خان کے وزیراعظم لیاقت علی خان سے تعلقات خاصے کشیدہ اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے تعلقات خاصے گہرے اور خوشگوارتھے۔

یہ بھی کہاجاتا ہے کہ اُنہوں نے اپنی اہلیہ محترمہ بیگم نسیم کے توسط سے کمیونسٹ پارٹی سے رابطے استوار کیے تھے۔ فروری1951 کو جنرل موصوف کے گھر میں کمیونسٹوں کی وہ تاریخی میٹنگ ہوئی تھی جس میں لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کا منصوبہ بنا لیکن یہ کامیاب نہ ہوسکا۔تاریخ میں یہ میٹنگ ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کے نام سے معروف ہوئی جس میں جنرل صاحب کے ساتھ فیض احمد فیض،سجاد ظہیر،محمد حسین عطا ،کیپٹن ظفراللہ پوشنی وغیرہ دھرلیے گئے۔سب سے لمبی سزا (بارہ سال)جنرل اکبر نے کاٹی۔پھرجنرل ایوب خان کی معروفِ عالم کتاب Friends  not  Masters منظرعام پر آئی،جس کا بعدازاں ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے زیرِعنوان ترجمہ بھی ہوا۔

میجرجنرل مٹھا نے بھی ایک کتاب تصنیف کی جواب ہمارے کلاسیکی فوجی ادب میں Unlikely  Beginningsکے نام سے شامل ہے۔جنرل گل حسن خان کی لکھی گئی Memoirsکو بھی اپنی جگہ نہایت اہمیت حاصل ہے۔کیپٹن ظفراللہ پوشنی کی کتاب ’’زندگی زنداں دلی کا نام ہے‘‘ بھی اپنی جگہ نہایت معرکہ آرا اور خوبصورت تصنیف ہے۔اِسی سلسلے میں جنرل کے ایم عارف کا نام سامنے آتا ہے۔وہ سات برس جنرل ضیاء الحق کے چیف آف اسٹاف رہے اور تین سال تک انھوں نے وائس چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔

اُن کی تصنیف Working  with  Zia شاندار اسلوب میں لکھی گئی ہے لیکن وہ ضیاء الحق کے جتنا قریب رہے،اس لحاظ سے اُن سے قاری جو توقعات وابستہ کرتا ہے،وہ پوری نہ ہوسکیں۔جنرل وصدرپرویزمشرف نے In The Line Of Fireلکھ کر پاکستانی عسکری ادبیات میں ایک نیا اضافہ تو کیالیکن یہ کتاب لکھ کر وہ خود بھی شرمسار ہوئے۔میجر(ر)آفتاب احمد کی دوتصنیفات (’’آخری سلام‘‘ اور ’’اُس لشکر کو جاں پیاری تھی‘‘) بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہیں۔

اب اِس میدان میںلیفٹیننٹ جنرل(ر)شاہد عزیز صاحب کُودے ہیں۔’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘کے زیرِ عنوان منصئہ شہود پر آنے والی اُن کی کتاب میں اپنے سابقہ ادارے کے خلاف چھینٹے بھی اُڑائے گئے ہیں۔اُن کا ادعا ہے کہ انھوں نے صرف سچ لکھا ہے۔ یہ کتاب، جو اُن کی سوانح حیات بھی کہی جا سکتی ہے، پڑھتے ہوئے بار بار محسوس ہوتا ہے کہ اُنہیں ذوالفقار علی بھٹو سے خاصی نفرت ہے۔ وہ بھٹو صاحب کا ذکر نہایت نفرت آگیں لہجے میں کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھٹو صاحب کوخود غرض حکمران لکھتے ہیں اور کبھی فرعون۔ ’’پھر بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی۔ خدشہ تھا کہ سڑکوں پرہنگامہ ہو گا لیکن ہر طرف سناٹا ہی رہا۔ کوئی آنسو بہانے والا نہ تھا۔

جیسا خود غرض حاکم تھا، ویسے ہی خود غرض ساتھی اُسے ملے۔ جب فرعونوں پر مصیبت آتی ہے، کوئی ساتھ کھڑا نہیں ہوتا۔‘‘ (صفحہ87) بھٹو ایک فوجی حکمران کے ہاتھوں قتل ہوا اور اُس کی بیٹی بھی ایک فوجی حکمران کے دور میں بہیمانہ طریقے سے قتل کی گئی لیکن بھٹو اب بھی شاہد عزیز ایسے سابق جرنیلوں کی نفرت کا نشانہ ہے۔ شاہد عزیزصاحب نے بھٹو صاحب کو ظالموں کی فہرست میں بھی کھلے دل سے شامل کیا ہے۔ ’’ظالم پر اللہ کی سخت گرفت ہوتی ہے۔ دنیا ہی میں بدلے چکا دیتا ہے۔

یحییٰ ذلیل ہو کر قید میں مر گیا، بھٹو پھانسی پر لٹکا… (صفحہ 48) بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی پر جنرل صاحب کا غصہ اِسی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید نفرت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اب دیکھو ناں، بے نظیر کی حکومت حرام کھا رہی ہے اور اُس ہی کو سلام کرتا ہوں، اُس ہی سے تنخواہ پاتا ہوں۔‘‘ (صفحہ 152) ۔ کیا بھارتی فوج کا کوئی ریٹائرڈ جرنیل اپنی کسی حکومت پر اسی طرح کی پھٹکار ڈال سکتا ہے؟ جنرل (ر) شاہد عزیز صاحب کی ’’سچائی‘‘ پر بے اختیار پیارآتا ہے۔ انھوں نے 16 فروری 2013ء کو اسلام آباد کلب میں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی، جس میں اپنا سارا خاندان اکٹھا کر لیا تھا، میں فرمایا تھا: ’’میں نے کوشش کی ہے کہ سچ ہی لکھوں۔

یہ کتاب اِس لیے بھی لکھی ہے کہ خدا کے حضور بھی جواب دینا ہے۔‘‘ اِس احساسِ جوابدہی اور سچ لکھنے کا حال یہ ہے کہ جب ضیائی مارشل لاء میں اُن کی ڈیوٹی کراچی ائیرپورٹ پر لگی اور اُنہیں حکم ہوا کہ ’’بیرونِ ملک سے فلاں جنرل صاحب کی بہن امریکا سے آ رہی ہے، اُن کو ریسیو کرنا ہے تاکہ اُن کا سامان کسٹم سے کلیئر کرایا جائے‘‘ (صفحہ 88) تو جنرل (ر) شاہد عزیز کو اتنی جرأت نہیں ہوئی کہ اُس ’’فلاں جنرل‘‘ کا نام ہی لکھ دیتے۔

کیایہ مصلحت کیش ابہام انھوں نے دانستہ اختیار کیا ہے تاکہ رند کے رند بھی رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جانے پائے؟ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’چہیتوں کا ٹولہ راج کرتا تھا۔ صدر صاحب جس کو جی کرتا احکام دیتے۔ جو شامیں اُن کے ساتھ گزارتے، مرضی کے احکام حاصل کر لیتے۔‘‘ (صفحہ 47) لیکن مصنف صاحب نے اپنے قارئین کو صاف اور غیر مبہم الفاظ میں یہ بتانے کا تکلف گوارا نہیں کیا کہ یہ کس صدر صاحب کا ذکر کیا جا رہا ہے اور صدر صاحب کے ساتھ شامیں گزارنے والے لوگ کون تھے؟ جنرل ضیاء کے نام نہاد ریفرنڈم میں لاہور کے جس کور کمانڈر نے فوجی افسروں کو بھی جنرل ضیاء کے حق میں ووٹ ڈالنے کا حکم دیا تھا، شاہد عزیز صاحب اُن کا نام بھی ظاہر کرنے کی جسارت نہیں کرسکے۔

ہاں، انھوں نے یہ گواہی ضرور دی ہے کہ جنرل ضیاء کے ’’اسلامی دور‘‘ میں منافقت بڑی تھی۔ وہ ضیائی دَور میں ’’کرائے کے بہت سے عالمِ دین‘‘ (صفحہ 49) کا ذکر کرتے ہیں لیکن ’’کرائے ‘‘ کے اِن علماء کا نام بتانے کے لیے اُن میں سکت ہے نہ جرأت۔ زیرِ نظر کتاب کے مصنف بنیادی طور پر ایک رومان پسند انسان محسوس ہوتے ہیں۔ اُن کی رومان پسندی نے ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ کے کئی ابتدائی صفحات کورنگین بنا دیا ہے۔ اُن کی رومانوی طبیعت جنگ میں برستے گولوں کے درمیان بھی قائم و دائم رہی ہے۔

اُدھر میدانِ کار زار (71ء کی جنگ کے دوران) گرم تھا اور رات کے اندھیرے میں آس پاس گولے پھٹ رہے تھے اور توپیں دندنا رہی تھیں اور اِدھر ہمارے شاہد عزیز صاحب اپنی جانِ عزیز کی یاد میں گُم تھے:’’پتھروں پر پڑا میں سردی سے ٹھٹھر رہا تھا۔ انجم کی ایک تصویر اُس کے خط کے ساتھ ملی تھی۔ وہ قمیض کی بائیں جیب میں رکھ لی۔ دل کے پاس۔ لگا جیسے یہ ایک آڑ ہے۔ دل میں یہ خدشہ نہیں اُٹھا کہ شاید میں اُس سے دوبارہ نہ مل سکوں۔ یقین تھا کہ ملوں گا۔‘‘ (صفحہ 50) اُن کے مذکورہ جملے پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے کہ آخر اُنہوں نے اپنی کتاب کا ذیلی عنوان ’’ایک سپاہی کی داستانِ عشق و جنوں‘‘ کیوں رکھا ہے! ہمارا خیال ہے کہ اگر جنرل صاحب تصویروں کی طرف اتنی توجہ نہ دیتے تو شاید 71ء کی جنگ کا نقشہ کچھ اور نکلتا۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔