تاجروں کے تین کام

محمد ابراہیم عزمی ایڈووکیٹ  منگل 12 مارچ 2013
03332257239@hotmail.com

[email protected]

ایک سردار جی ڈاکٹر کے پاس گئے اور کہا کہ جسم کے جس حصے پر انگلی لگاتا ہوں تو درد ہوتا ہے، ڈاکٹر صاحب نے پورے جسم کا ایکسرے کروانے کو کہا، جب رپورٹ آئی تو پتہ چلا کہ انگلی میں فریکچر ہے، نہ سردار جی اپنا صحیح مرض سمجھا سکے اور نہ ڈاکٹر نے پوچھا کہ کہیں انگلی کی ہڈی تو نہیں ٹوٹی، تاجروں کی پریشانی کا حل بھی ہم اسی طرح ڈھونڈ رہے ہیں، مہنگائی، بدامنی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی کمی، اغواء، ڈکیتی اور ہڑتالیں اس کے علاوہ ہیں۔

ہمارے ملک کے تاجر تین کام نہیں کر رہے، اگر وہ یہ کر گزریں تو بڑی حد تک ان کے مسائل حل ہو جائیں گے، پھر نہ انھیں دوسرے ملک اپنے بچوں کو بھیجنا پڑے گا اور نہ دوسرے درجے کے شہری ہونے کا طعنہ سننا پڑے گا، باتیں تو بظاہر تاجروں بالخصوص کراچی کے کاروباری لوگوں کے لیے ہیں لیکن اس میں فائدہ پورے ملک کا ہے، صرف مرض کی تشخیص کافی نہیں بلکہ کالم کچھ علاج معالجے کی تدبیر بتائے تو کوئی بات ہے۔

’’فائدہ نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ۔‘‘ یہ بزنس کی تعریف ہے۔ اچھا بزنس مین وہ ہے جو آنے والے وقت کی رفتار کو پہچانے، اسے معلوم ہو کہ کس چیز کے دام میں اضافہ ہونا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں وہ شے پکڑ لے، اس کی چھٹی حس اسے بتا دے کہ فلاں مال میں مندی ہونے والی ہے تو وہ جلد از جلد اس مال کو بیچ کر فارغ ہو جائے۔ اب جو جتنا کامیاب بزنس مین ہے اس میں اس ہنر کو سمجھنے کی زیادہ صلاحیت ہے۔ کم کامیاب بزنس مین آنے والے وقت کی بو سونگھنے کی قابلیت کم رکھتا ہے۔ برا نہ مانیں تو کہا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں اس شعبے میں آنے والے پیسے اور دولت کے خواہش مند نسبتاً زیادہ ہی ہوتے ہیں۔

تجارت کوئی بری چیز نہیں کہ کامیاب تاجر اپنے خاندان کو خوشحال کرنے کے علاوہ خدمت خلق کے کام کرنے کی بھی پوزیشن میں ہوتا ہے۔ کچھ خوبیوں اور خامیوں کو تو دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ کاروبار ایک کاروباری کی نس نس میں سمایا ہوا ہوتا ہے۔ وہ دوسرے معاملات پر ہونے والی گفتگو کو بھی روپے پیسے کے حوالے سے بولتا اور تولتا ہے۔ پوچھا جائے کہ والد صاحب کی طبیعت کیسی ہے تو برنس مین جواب دیتا ہے کہ پہلے آٹھ آنے صحیح تھی اور اب بارہ آنے ٹھیک ہو گئی ہے۔

بزنس مین کی ایک مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اسے مال خریدنے بیچنے یا کارخانے میں چیز کی قیمت کا یقین کرنے کے لیے روپے پیسے کی بات کرنی ہی پڑتی ہے۔ جیسا کہ اوپر دی گئی مثال میں ہم نے ذکر کیا ہے۔ اسے ہر وقت کیلکولیٹر اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے۔ روپے پیسے کی اتنی گفتگو ڈاکٹر، وکیل، عالم، انجینئر، صحافی یا مزدور کو نہیں کرنی پڑتی۔ یہ چیز ایک بزنس مین کو مادیت پرست بنا دیتی ہے۔ تین کام اسے اس گرداب سے نکال سکتے ہیں وہ تین کام جو دنیا کے ہر بزنس مین کو کرنے چاہئیں۔ پاکستان کے تاجر بھی یہ کام کرتے ہیں لیکن کچھ کچھ کم۔ آج کا کالم اپنے اندر ان کاروباری حضرات کو یہ تین کام کرنے کی یاد دہانی لیے ہوئے ہے۔

ایک سو میں سے ڈھائی روپے کسی کو دے دیے جائیں تو ساڑھے ستانوے رہ جاتے ہیں کسی زمانے میں لوگ اوپر والے سے چھپن کروڑ کی چوتھائی مانگتے تھے۔ یہ چودہ کروڑ روپے ہوئے، آج یہ بڑی رقم ہے تو چالیس پچاس سال قبل کتنی بڑی ہو گی۔ ایک بزرگ نے کہا کہ چودہ کروڑ ملیں گے تو اس پر 35 لاکھ روپے زکوٰۃ دینی پڑے گی۔ اب اتنی بڑی رقم دے دینا واقعی دل گردے کا کام ہوتا ہے جو بہت نہیں کر سکتے۔ اگر ہمارے بڑے بڑے کاروباری حضرات صحیح معنوں میں زکوٰۃ دیتے ہیں تو بڑی حد تک غربت اور بدامنی ختم ہو سکتی ہے۔ ایک گودام کیپر کہنے لگا کہ میرے سیٹھ کو دو کروڑ روپے زکوٰۃ دینی چاہیے لیکن وہ پچیس لاکھ تقسیم کرتا ہے۔

یہ ایک چوتھائی کروڑ روپے بھی کچھ کم نہیں لیکن جو دینے چاہئیں اس میں پونے دو کروڑ کم ہیں۔ زکوٰۃ ایک مکان، دکان یا گاڑی پر نہیں۔ جو چیز آپ کے استعمال میں نہیں اس پر زکوٰۃ ہے۔ اگر کسی سے کوئی جائیداد خریدی کہ دام بڑھیں گے تو بیچ دوں گا اس پر اسے سال گزرنے پر ڈھائی فیصد دینا چاہیے۔ اس کی شاندار حکمت یہ ہے کہ آپ نے رقم روک لی، اب وہ پیپر مارکیٹ میں گردش نہیں کر رہا۔ کرایہ پر دی ہے تو آمدنی پر زکوٰۃ دی جاتی ہے۔ خواتین کے سونے کے زیورات پر زکوٰۃ کی کیا حکمت ہے؟ یہ رقم بھی بلاک کر دی جاتی ہے۔

کیا ہمارے ملک کے امیر کاروباری صحیح معنوں میں وہ رقم نکالیں گے جو امانت ہے اور جسے غریبوں کی جانب لوٹایا جانا لازمی ہے۔ لٹ جانے یا لٹانے کا فیصلہ ہمارا اپنا ہو گا۔تاجروں کے کرنے کا دوسرا کام ٹیکس کی ادائیگی ہے، کروڑوں کا مال دکان میں رکھنے اور سال بھر میں کئی کئی ملین کمانے والے ٹیکس نیٹ میں ہی نہیں۔ جو ہیں وہ صرف چند ہزار دے کر حاتم طائی کی خبر پر لات مار رہے ہیں۔ جو رقم بقدر اشک بلبل جمع ہوتی ہے وہ فضول خرچی کی نذر کر دی جاتی ہے۔ اب جو عوام پر خرچ ہوئی ہوتی ہے اس میں بھی رشوت اور کمیشن کا بازار گرم رہتا ہے پھر شکایت کہ امن کیوں نہیں، تاجر لٹتے کیوں ہیں، وہ خوفزدہ کیوں ہو رہے ہیں، خالق اور خالق خدا کی چوری کریں گے تو کیا ہو گا؟

ایسا کرے گا تو مرے گا۔عید بقر عید اور تہواروں کو ہمارے تاجر کمائی کے دن سمجھتے ہیں، وہ سال بھر کا خرچہ ان دنوں میں نکالنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر میں عید، ہولی اور کرسمس پر عوام کو رعایت دی جاتی ہے، غریبوں کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی تشنہ خواہشات کم پیسوں میں ان دنوں میں پوری کر لیں۔ اب میرے تاجر بھائی بالخصوص کراچی کے بزنس مین ایمانداری سے بتائیں کہ جب وہ پوری زکوٰۃ نہ دیں، مکمل ٹیکس نہ ادا کریں اور تہواروں پر عوام کا خون نچوڑ لیں تو پھر کیسا امن اور کیسا سکون؟دنیا بھر میں دو بڑے مسئلے ہوتے ہیں ایک غریب کا مسئلہ اور ایک امیر کا مسئلہ۔ قرآن اسے بھوک اور خوف کہتا ہے۔ اگر امیر بھوک کی پریشانی سے آزاد ہے تو غریب کو لٹ جانے کا خوف نہیں۔

ہمارے ملک کے تاجروں کی اکثریت نے یہ تین کام نہ کر کیا اپنی بھوک کو مٹا دیا ہے۔ شاندار گھر، کئی کئی فیکٹریوں، قیمتی گاڑیوں، غیر ملکی دوروں کے عوض خوف خرید لیا ہے معاشرے کے بڑھتے دکھوں نے 99 فیصد غریبوں کو صبر یا مانگنے اور ایک فیصد لوگوں کو چھیننے اور لوٹنے کی طرف راغب کیا ہے۔ غریبوں کی اس بھوک نے امیروں کا سکون غارت کر دیا ہے جو مسئلہ کل نیویارک اور ممبئی کا مسئلہ تھا وہ آج کراچی کا مسئلہ ہے۔ اگر امیروں نے غریبوں کی بھوک کی بیماری کو شفا نہ بخشی تو ملک کا کوئی گوشہ اہل زر کو سکون کی دولت نہیں دے سکے گا زکوٰۃ و ٹیکس کی ادائیگی اور تہواروں پر رعایت، سکون و امن چاہیے تو کرنے ہونگے تاجروں کو یہ تین کام۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔