معاشرہ اس طرح بدل سکتا ہے

عابد محمود عزام  بدھ 6 دسمبر 2017

یہ ربیع الاول کا بابرکت مہینہ ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرما کر پوری کائنات پر احسان عظیم کیا۔ یہ مہینہ احتساب کا مہینہ ہے، جو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ یہ مہینہ ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہماری زندگی میں کس قدر تعلیمات نبوی کا اثر ہے۔ یہ مہینہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہمارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جن کاموں سے روکا ہے، اس سے رک جائیں اور جن کاموں کا حکم دیا ہے، ان کو اپنائیں۔

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قدم قدم پر ہماری رہنمائی کے لیے اپنی خوبصورت اور بہترین تعلیمات اور سیرت چھوڑ کر گئے ہیں۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اس پر عمل کر کے ہی ہم نہ صرف دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، بلکہ ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کیے بغیر ایک بہترین پرامن معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔

اگر ہم سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر انداز کرتے ہوئے دینی کام بھی کر رہے ہوں تو بھی کئی مفاسد جنم لیتے ہیں، جو معاشرے کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ بدترین گناہ گار مسلمان بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی حفاظت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھنا ہر مسلمان پر ضروری بھی ہے، لیکن اس محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو عملی طور پر اپنی زندگی میں ڈھالا جائے۔ جب تک ہم ایسا نہیں کریں گے، تب تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے تقاضوں کو ٹھیک سے پورا کرنے والے نہیں ہوں گے اور زندگی میں بہت دفعہ ہم لوگ ان تقاضوں کو ٹھیک سے پورا نہیں کر رہے ہوتے اور ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کے تحفظ کے نام پر جلوس نکالتے ہوئے اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ کرتے ہیں، راستے بند کرکے عوام کو تکلیف پہنچاتے ہیں، عوام کی ملکیت کو آگ لگادیتے ہیں، ان کی گاڑیاں، گھر اور دکانوں کو جلا دیتے ہیں، ثواب سمجھ کر اپنے ہی ملک میں تباہی مچا دیتے ہیں۔ اپنے ہی ملک میں بہت کچھ ایسا کرکے جو نہیں کرنا چاہیے، ہم غیرمسلموں کو اچھا پیغام نہیں دے رہے ہوتے۔

اس کے ساتھ نبیؐ کی ناموس کی حفاظت کے نام پر ہم لوگ خود ہی اپنے نبی کی ہی تعلیمات اور سیرت کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں، جو ہر لحاظ سے قابل مذمت اقدام ہے۔ دوسروں کو تکلیف سے بچانا میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا اہم پہلو ہے، جسے ہر حال میں ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے۔ آج سیرت طیبہ کے ان گوشوں پر روشنی ڈالنا بھی اشد ضروری ہے جن سے ملک اور دوسروں کے حقوق معلوم ہوں، تاکہ ان پر عمل کیا جاسکے۔

مطالعہ سیرت النبی کے نتیجے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانیت کاملہ کی بہترین مثال سامنے نظر آتی ہے۔ ہم زندگی کے جس پہلو اور جس گوشے کو بھی سامنے رکھ کر سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں، ہر پہلو سے انسانی زندگی کا کمال ہم کو سرور کائنات کی زندگی میں نظر آئے گا۔ انسانیت کی ہدایت ورہنمائی اور ملتوں اور قوموں کی اصلاح احوال اور تربیت کے لیے ایک داعی، مبلغ، مصلح اور رہنما کو دعوت وتبلیغ اور اصلاح وتربیت کے میدان میں جس جس چیز کی ضرورت ہوسکتی ہے، اس کا ایک پورا نصاب سیرت میں موجود ہے۔

آج ضرورت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق، صبر ورضا، قناعت و توکل، دشمنوں سے آپ کا حسن سلوک، مصیبت زدہ اور آفت رسیدہ انسانوں پر آپ کی شفقت و نوازش، غیر مسلموں کے ساتھ آپ کا حسن معاملہ وغیرہ کو عام کیا جائے، جن پر عمل کرکے ہم اعلیٰ انسانی اقدار سے متصف ہوکر ابدی سعادتوں سے بہرہ مند ہوں اور دوسری اقوام کے سامنے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف کرواسکیں، جس سے اسلام کی دعوت اور غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کے راستے ہموار ہوں۔

آج معاشرے میں ہر جانب اختلاف ہی اختلاف ہے۔ بین الاقوامی اختلاف، فرقہ واری اختلاف، سیاسی پارٹیوں کا اختلاف، لسانی اختلاف، قومی اختلاف، صوبائی اختلاف، خاندان کااختلاف، گھر اور افراد کا اختلاف اور نہ جانے کون کون سے اختلافات ہر سو رونما ہورہے ہیں۔ کوئی بھی کسی مخالف کا احترام کرنے کو تیار نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف بے انتہا نفرتیں پروان چڑھ رہی ہیں، ان نفرتوں اور اختلافات کو ختم کرنے کا کوئی راستہ بھی نظر نہیں آرہا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اختلاف، تفاخر و امتیاز سے پیدا ہونے والے نقصانات سے خوب واقف تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان فرمایا اور انسانوں کو سبق دیا کہ اختلافات و امتیازات کو ختم کرو اور یاد کرو کہ تم سب ایک ہی باپ کی اولادہو اور تمہارے باپ مٹی سے پیدا کیے گئے۔ تم سب بھائی بھائی بن کر رہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف وانتشار سے تباہ دْنیا کو متحد کرکے عملی مثال پیش کی۔ برسوں سے ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونتے اہل عرب کو نہ صرف ایک پوائنٹ پر جمع کیا، بلکہ ان میں موجود نفرتوں کو بھی محبتوں میں بدل ڈالا۔ آج بھی ان ہی اصولوں پر عمل کر کے معاشرے میں پھیلے اختلافات اور نفرتوں کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

موجودہ دور کا بہت بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے۔ جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں اور اخلاقیات کا انحطاط مسلمانوں میں موجود ہے۔ اس انحطاط و تنزل کا ایک ہی علاج ہے کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کیا جائے اور نافذ کیا جائے۔ پہلے مسلمانوں کو دیکھ کر اْن کے بلند و بالا اخلاق سے متاثر ہوکر غیر مسلم اِسلام قبول کرتے تھے۔ اگر آج بھی مسلمان نبی علیہ السلام کی سیرت کو اپنا لیں تو آج بھی لوگ صرف ان کو دیکھ کر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے کے لیے بے چین نظر آئیں گے۔

علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ بیان کریں اور عام کریں۔ حکومت بھی علمائے کرام کی نگرانی میں سیرت کانفرنسز اور پروگراموں کا انعقاد کرے۔ نصاب تعلیم میں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پڑھانے پر زیادہ توجہ دی جائے۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے جتنے بھی طریقے ہوسکتے ہیں، ان پر عمل کر کے عام کیا جائے، کیونکہ جب تک سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عام نہیں ہوگی اور ہماری زندگیوں کا حصہ نہیں بنے گی، اس وقت تک بہترین معاشرہ تشکیل نہیں پاسکتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔