تناؤ اور دباؤ کے مہیب خطرات

شاہین رحمن  بدھ 6 دسمبر 2017

زندگی یوں تو ہر دور میں جدوجہد کا نام رہی ہے لیکن آج کے مشینی دور میں انسان کل پرزوں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جدید دور نے انسان کی سہولتوں کے لیے بے شمار ایجادات ایسی فراہم کی ہیں جس کی بدولت اس کی جسمانی مشقت میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔ لیکن ذہنی دباؤ، تناؤ اور کشمکش میں ہمیشہ سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ گویا آج کے صنعتی دور میں اور خصوصاً صنعتی شہروں میں مصروف لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی برقی مشین کمپیوٹر یا روبوٹ کی طرح کام کریں جس کے اعصاب نہیں ہوتے اور دماغ نہیں ہوتا، لیکن وہ غلطی سرزد نہیں کرتا۔

انسان کے لیے ایسا کرنا نا تو ممکن ہے اور نہ اس کے شرف انسان کے مطابق ہے۔ انسان کو انسان کی طرح کام کرنے اور جینے کا حق حاصل ہے۔ جب بھی یہ حق اس سے چھینا گیا یا تو وہ بیمار ہوا، یا پھر انسانی صفات سے محروم درندہ بن گیا۔ شاید اس لیے شاعر مشرق نے کہا ہے:

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

ہم مشینوں اور صنعت کے خلاف نہیں بلکہ اس طرز زندگی کے شاکی ہیں۔ جدید زندگی کے عام تقاضوں میں یہ بہت اہم ہے کہ تمام تر خوبی اور انسانی اوصاف برقرار رکھتے ہوئے اپنی صحت اور بہتری کا بھی خیال رکھا جائے۔ دوسرے الفاظ میں ہر وہ طریقہ ترک کر دیا جائے جو دماغ اور اعصاب پر غیر ضروری دباؤ اور تناؤ کا باعث ہے۔

ہم سب کو کسی نہ کسی وقت شدید کشمکش، ذہنی الجھن کے دوران تناؤ سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ لیکن صحت اور بھلائی کا تقاضا یہی ہے کہ جلد اس مرحلے سے کامیابی سے نکلا جائے۔ گویا اسے ایک مستقل عادت نہ بنا لیا جائے۔ آپ کسی بڑے شہر کے کسی بڑے ادارے کے کسی اعلیٰ اور ذمے دار افسر کے دفتر کو ذہن میں لائیں۔ وہ شریف آدمی کسی کام میں مثلاً کسی فائل یا مسودے کی پالیسی پر گہرے غور میں مصروف ہے دفتر کے دو یا تین کارکن اس کے سامنے میز پر کاغذات پھیلائے اس سے مشورہ طلب کر رہے ہیں۔

اتنے میں کمرے کا دروازہ اچانک کھلتا ہے اور دو ملاقاتی جن کو وہ ایک دن قبل وقت دے چکا ہے بڑے زور سے سلام کرتے ہوئے آگے بڑھ کر مصافحہ کرتے ہیں۔ پنکھے کی تیز ہوا سے فائلوں کے چند کاغذات اڑ کر نیچے گر جاتے ہیں۔ ابھی ان کی طرف توجہ کی ہی گئی تھی کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے اور ادارے کے منتظم اعلیٰ مذکورہ افسر سے کسی اہم مسئلے پر گفتگو کرتے ہیں اتنے میں ایک افسر ایک اخبار ہاتھ میں لیے کمرے میں تیزی سے آتا ہے اور کہتا ہے ’’سر! بہت اہم خبر ہے، آپ کو فوراً دکھانے پر مجبور ہوں۔‘‘

اب سوچیے اس غریب افسر کی حالت اور اس کے ذہنی دباؤ کا عالم! یہ منظر ہر دور ہر شہر ہر دفتر اور ذمے دار افسر کے کمرے کا ہے۔ ایسے میں ترجیحات، تقدیم و تاخیر اور اہمیت کا فوری فیصلہ کرنا بھی ضروری ہوتا ہے جو اس بحرانی صورتحال کو اور بھی کٹھن اور ذہنی دباؤ کا حامل بنا دیتا ہے۔ ماہرین طب کی رائے میں دباؤ اور تناؤ کی قسمیں ہیں۔

انسان نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اس وقت سے ہی وہ مختلف ذہنی الجھنوں کا شکار رہا ہے۔ جدید دور میں کمپیوٹر ہر مسئلے کا حل ہے، لوگ آسانی کے لیے اسی کا استعمال کرتے ہیں، حساب کتاب، کسی کو جلدی سے اطلاع دینی ہو یہ فوراً آپ کا کام باآسانی کر دے گا ای میل کے ذریعے۔ آپ کو حساب کتاب کرنا ہو کمپیوٹر سے باآسانی آپ یہ کام کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے آپ ساری دنیا میں کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں۔ موبائل فون کے ذریعے آپ اپنے پیاروں کو پیسے بھجوا سکتے ہیں۔ فیس بک اور گوگل کے ذریعے آپ گھر بیٹھے کسی بھی چیز کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں یہ تمام چیزیں انسان کے آرام اور سکون کے لیے ایجاد ہوئی ہیں۔ مگر یہ ساری باتیں ذہنی تناؤ سے مبرا نہیں ہیں۔ لوگ گھنٹوں موبائل پر گانے سنتے رہتے ہیں، چیٹنگ کرتے رہتے ہیں اور وقت کا زیاں کرتے ہیں لوگ سمجھتے نہیں ہیں جو چیزیں انسان کی آسانی کے لیے ایجاد ہوئی ہیں، اس کا غلط استعمال آپ کو ذہنی اذیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔

جوں جوں انسان ترقی کرتا جا رہا ہے نئی نئی ذہنی بیماریاں بھی دریافت ہوتی رہی ہیں اور ان سے نجات کے لیے بھی نئے نئے طریقے دریافت ہوتے رہے ہیں بیشتر تکالیف انسان کی اپنی پیدا کردہ ہیں اور ذہنی الجھنوں کے سلسلے میں تو یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنے کے معاملے میں انسان کی اپنی قوت ارادی اہم کردار ادا کرتی ہے۔

کمپیوٹر استعمال کرنے سے انسان کتابوں سے بیگانہ ہو گیا ہے۔ لوگوں سے ملنا جلنا کم ہو گیا ہے۔ رشتے ناتوں سے باہم تعلقات ختم ہو گئے، بے راہ روی کا شکار ہو گیا ہے۔ تقریباً ہر شخص کے چشمہ لگ گیا ہے۔ گراؤنڈ میں جانے کے بجائے وہ اسی پر انڈور گیم کھیلتے ہیں، یہ ایک ایسا جادو کا باکس ہے کہ اس پر سے اٹھنے کا دل نہیں کرتا، ساری ساری رات بچے بیٹھے رہتے ہیں صبح کے کام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح اعصابی تناؤ بڑھ جاتا ہے اور انسان تناؤ اور دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔