مفقود الخبر

زاہدہ حنا  بدھ 6 دسمبر 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

کسی جگر گوشے کا موت کی نذر ہوجانا ایک دل دوز حالت ہے جس پر پسماندگان گریہ کرتے ہیں، سر اور سینہ پیٹتے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ انھیں صبر آجاتا ہے۔ دائمی جدائی ایک حقیقت ہے اور اس سے سمجھوتہ کرتے ہی بنتی ہے۔ وہ اس کا آخری دیدار کرتے ہیں اور پھر سوئم، دسواں، بیسواں اور چہلم۔ آہستہ آہستہ رخصت ہوجانے والی ہستی کی یاد دھندلا جاتی ہے۔ اس کی یادیں، باتیں اور تصویریں رہ جاتی ہیں، حافظہ ان یادوں، باتوں اور ذکر اذکار کو بھی ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں دھکیل دیتا ہے۔ کڑیل جوان بیٹوں کا غم اور ہنستی کھلکھلاتی بیٹیوںکا اچانک اٹھالیا جانا وہ دل فگار صدمہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ غم کسی دشمن پر بھی نہ گزرے۔

جانے والوں کی پرچھائیں گھر کے درودیوار پر لمحے بھر کے لیے ابھرتی ہے اور پھر ڈوب جاتی ہے۔ مائیں کروٹ بدلتی ہیں اور آستین سے آنسو پونچھ کر سوجاتی ہیں۔ اصل بے قراری تو ان کی ہوتی ہے جن کے پیارے گھر سے ابھی واپس آنے کا کہہ کر نکلے تھے اور پھر نہ وہ خود آئے، نہ ان کی کوئی خبر آئی۔ آسمان کھا گیا کہ زمین نگل گئی۔

گھر والے ان کی تصویر ہاتھ میں تھامے ادھر سے ادھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ اسپتالوں کی خاک چھانتے ہیں۔ مردہ خانوں میں یخ بستہ لاشیں دیکھتے ہیں، دور دراز علاقوں میں جاتے ہیں۔ شاید کہیں کوئی کھوج لگ جائے، کسی سے خبر مل جائے کہ ان کے چہیتے جیتے ہیں یا رخصت ہوئے۔ یہ ایک ایسی اذیت ہے جو موت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اب سے چند برس پہلے یوں گمشدہ ہوجانے کے واقعات انفرادی سطح پر ہوتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ بعض ادارے کچھ لوگوں کو مفقود الخبر کرنے میں عافیت خیال کرنے لگے۔

ہیومن رائٹس آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں مفقود الخبر ہوجانے والوں کی تعداد ساری دنیا سے کہیں زیادہ ہے۔ سری لنکا، نیپال، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش سے مفقود الخبر ہوجانے والوں کی تعداد سال بہ سال بڑھتی چلی گئی۔ 2016 میں ’غائب‘ ہوجانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ غائب ہوجانے والوں کی پچھلی فہرست میں مزید 728 پاکستانی بڑھ گئے اور 6 برس کے دوران یہ تعداد 1219 تک جاپہنچی۔

بلوچستان اور سندھ وہ علاقے ہیں جہاں سے ’لاپتہ‘ ہوجانے والوں کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہوا ہے، کمی نہیں آئی۔ ’لاپتہ‘ ہوجانے والوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والے ایک بلوچ ایکٹیوسٹ کا اٹھالیا جانا، 2016 کی بڑی خبر تھی۔ وہ جس علاقے سے دن دھاڑے اٹھایا گیا اسے لے جانے والے سفید پوش افراد کو بھری بس کے مسافروں نے دیکھا تھا، لیکن پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے انکاری تھی۔ اس کی بیٹی اور دوستوں نے جب کراچی اور لاہور میں احتجاجی مظاہرے کیے، سندھ ہائی کورٹ نے اس مفقود الخبر شخص کے اغوا کی ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات دیے، تب ہی یہ ممکن ہوسکا کہ 5 مہینے سے زیادہ کی گمشدگی کے بعد وہ اب سے ٹھیک ایک برس پہلے 5 دسمبر 2016 کو چھوٹ کر آیا۔

پانچ مہینے کے اس عرصے میں اس پر جو گزری سو گزری، اس دوران اس کے اہل خانہ پل پل جیے اور پل پل مرے۔ وہ خوش نصیب تھے کہ ان کی سزا صرف 5 مہینے پر محیط تھی، ورنہ ایم کیو ایم اور بعض دوسری سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ایسے بھی ہیں جن کا برسوں سے کوئی نام و نشان نہیں ملا۔  خیبرپختونخوا کے ضلع بونیر سے کئی لوگ اٹھائے گئے اور تاحال ’لاپتہ‘ ہیں۔

کوئی سبزی کی اپنی دکان سے اٹھایا گیا اور کوئی چائے خانے میں بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اگست 2015 میں لاہور کی ایک سڑک سے اسلحے کے زور پر اٹھائی جانے والی 24 سالہ صحافی زینت شہزادی کے مفقود الخبر ہونے کا معاملہ بھی ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں بار بار سامنے آیا۔ وہ ایک حساس معاملے کے بارے میں تحقیقات کررہی تھی۔

یہ وہ معاملات ہیں جن کے بارے میں متعلقہ ادارے خاموش رہتے ہیں اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان یا مفقود الخبر ہونے والوں کے بارے میں بنائے جانے والے تحقیقاتی کمیشن کچھ نہ کرسکے ہیں۔ یہ بات بھی اندوہناک ہے کہ بلوچستان میں لگ بھگ 6 برس کے دوران 1000 لاشیں ملیں جن کے بارے میں خفیہ اداروں کا یہ کہنا ہے کہ یہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث سیاسی کارکنوں کی لاشیں ہیں۔ یہ لاشیں ان کے اہل خانہ کے سپرد ہوئیں یا لاوارث دفنائی گئیں، اس بارے میں حتمی معلومات نہیں ملتیں۔

مفقود الخبر ہوجانے والوں کے خاندان بطور خاص ان کی رشتہ دار خواتین ہر وقت غیر محفوظ ہونے کے احساس میں مبتلا رہتی ہیں۔ ایک این جی او جو اس بارے میں تحقیقات کررہی تھی وہ ان خواتین کے مسائل کے بارے میں یہ کہتی ہے کہ انھیں سرکاری طور پر کسی نوعیت کی قانونی امداد نہیں ملتی۔ وہ خواتین جو شادی شدہ ہیں اور ان کے شوہر ’لاپتہ‘ ہیں، ان کے لیے ’نیم بیوہ‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

ان خواتین پر خاندان کی طرف سے یہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ خاندان کے ہی کسی رشتہ دار مرد سے شادی کرلیں تاکہ انھیں باہر کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف مذہبی حد بندیاں ہیں جو ایسی عورت کو پھر سے شادی کرنے سے روکتی ہیں یا اس کے لیے ایک خاص مدت مقرر کرتی ہیں۔

ہمارے یہاں لوگوں کا مبینہ طور سے خفیہ اداروں کے ہاتھوں ’لاپتہ‘ ہونا ایک ایسا معاملہ ہے جسے ملکی سلامتی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے، اسی لیے عموماً افراد یا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے بہت احتیاط برتتے ہیں۔ یہ عذاب صرف ہم پر ہی نہیں نازل ہوا۔ سری لنکا، ہندوستان اور نیپال کی مثالیں سامنے کی ہیں لیکن دنیا کے بعض علاقوں اور ملکوں میں یہ کام ملک کی خفیہ ایجنسیوں سے کہیں زیادہ اس ڈرگ مافیا نے کیا جس کی گرفت اپنے سرکاری اداروں، عام افراد اور بہ طور خاص ججوں پر بہت سخت تھی۔

منشیات کی تجارت کرنے والے یہ ادارے لاطینی امریکا میں پھیلے ہوئے تھے اور آج بھی اپنی سرپرستی میں ہر غلط کام کررہے ہیں۔ انھیں اگر شبہہ بھی ہوجائے کہ کوئی ان کے کاروبارکے خلاف دستاویزی ثبوت اکٹھا کررہا ہے تو وہ اسے ’غائب‘ کردیتے ہیں۔ ایسے جوشیلے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے جو صفحۂ ہستی سے یوں غائب ہوئے کہ ان کا پھر کسی کو نشان بھی نہیں ملا۔

لاطینی امریکا کی آمریتوں میں یہ ارجنٹائن، چلی، نکاراگوا، میکسیکو اور ال سلواڈور تھیں جنہوں نے اپنی حکومتوں کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے سیاسی مخالفین کو گرفتار کیا اور پھر انھیں جرائم پیشہ گروہوں کے سپرد کردیا۔ یہ گروہ منشیات کا کاروبار کرنے والوں کی سرپرستی میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے مزاحمت کرنے کا جرم کرنے والے نوجوانوں پر پہلے شدید تشدد کیا اور پھر انھیں قتل کرکے دور دراز علاقوں میں دفنادیا۔

2012 میں میکسیکو کی حکومت کے بعض خفیہ کاغذات سے یہ معلوم ہوا کہ اس سال 25ہزار افراد ’لاپتہ‘ کیے گئے اور اب 2017 میں ان کی تعداد 33 ہزار تک جاپہنچی ہے۔ لاپتہ ہوے والے ان افراد میں بہت سے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ تھے جن کے گھر والے اور دوست ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے، انھوں نے بڑے بڑے مظاہرے کیے اور کچھ لوگوں کو چونکہ یقین ہوگیا تھا کہ یہ نوجوان تشدد کے بعد ہلاک کردیے گئے ہیں، اس لیے ان کے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں نے پہاڑی علاقوں، وادیوں اور جنگلوں میں دفن کیے جانے والوں کی تلاش شروع کردی۔ ان میں سے کچھ اپنی تلاش میں کامیاب بھی ہوئے۔ ایسے میں حکومتی اداروں نے ڈی این اے ٹیسٹ کا معاملہ اٹھادیا۔

اس ٹیسٹ کے بغیر یہ کیسے متعین ہوگا کہ کھدائی میں نکلنے والی لاش فلاں کے بیٹے یا فلاں کی بیٹی کی ہے۔ ایک ڈی این اے ٹیسٹ کی فیس 200 ڈالر ہے۔ غریب کسان، مزدور یا کلرک اتنے روپے کہاں سے لائیں۔ یہ ایسی الم ناک کہانیاں ہیں جنھیں پڑھ کر یقین نہیں آتا کہ انسان کس حد تک گر سکتا ہے۔

پاکستان، ہندوستان یا سری لنکا میں لوگوں کے لاپتہ کیے جانے کی اپنی وجوہ ہیں، لاطینی امریکا، افریقا یا فلسطین میں مفقود الخبر ہونے والوں کے اسباب کچھ اور ہیں لیکن ہر جگہ ظالم اور مظلوم ، بے بس اور بااثر کے رویے ایک جیسے ہیں۔کہیں اپنے جگر کے ٹکڑے کی شناخت ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرائیے۔ حکومت غریب ہے، وہ کیسے دو سو ڈالر فی لاش دے سکتی ہے۔ آپ مزدور ہیں، کسان ہیں، کان کن ہیں جو بھی ہیں چندہ اکٹھا کیجیے اور ٹیسٹ کی رقم ہمیں دیجیے، ہم آپ کو بتادیں گے کہ ہاں یہ واقعی آپ کی بیٹی یا آپ کا بیٹا تھا۔

بے آسرا لوگ بلوچستان یا سندھ کے ہوں یا میکسیکو اور ارجنٹائن کے، سب ہی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ آسمان ظالموں پر ٹوٹ کیوں نہیں پڑتا۔ وہ مسجدوں، درگاہوں اور کلیساؤں میں شمعیں جلاتے ہیں۔ ان کی یاد میں جو چلے گئے اور نیلے آسمان سے انصاف کی آس لگاتے ہیں۔ انصاف جو ان کے لیے سراب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔