لکھنے کا ذوق ہو تو ’’تین گلگتی‘‘ ہی کافی ہیں

ایچ ایم کالامی  جمعـء 8 دسمبر 2017
میں سمجھتا ہوں کہ ایک رائٹر یعنی ’’لکھنے والے‘‘ کو لکھنے کا جنون ہونا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

میں سمجھتا ہوں کہ ایک رائٹر یعنی ’’لکھنے والے‘‘ کو لکھنے کا جنون ہونا چاہیے۔ (فوٹو: فائل)

ایک امن عامہ کے پیر صاحب امیر حیدر، ایک کاروباری دنیا کے بادشاہ عبداللہ اور ایک سرپھرا رحیم۔ کل ملا کے تین گلگتی اور ایک یہ بندہ ناچیز۔ جی ٹین فور اسلام آباد میں دو کمروں پر مشتمل ہمارا چھوٹا سا کرائے کا فلیٹ، جس میں ہماری رہائش کم اور بحث زیادہ ہوتی تھی۔ شام کو اسلام آباد کے تمام سیکٹرز سے تشریف فرما یاروں کی محفل ہمارے غریب خانے میں جم جاتی تو یوں محسوس ہوتا کہ شہر اقتدار کی باگ ڈور ہمارے فلیٹ سے ہی سنبھالی جاتی ہے۔

ہمارے اس فلیٹ سے بہت سے یار دوست دلی محبت رکھتے تھے۔ ہمارے ایک دوست عبید خان جو اب پشتو ٹی وی چینلز پر ماڈلنگ شوز کرتے ہیں، ان دنوں ہمارا فلیٹ ان کی پڑھائی سے جان چھڑوانے کےلیے بہترین پناہ گاہ تھا۔

اور ان دنوں راقم کو قلم کے ساتھ طبع آزمائی کا شوق کچھ زیادہ ہی چڑھ گیا تھا۔ جب موضوع دماغ سے چھوٹ جاتا تو کبھی اسلام آباد کے پاگلوں کو قلم کی نوک پر لیتا تو کبھی چائے کی پیالی سے اٹھنے والی بھاپ سے کاغذ گیلا کردیتا؛ بلکہ اب تو ’’اس پیالی کو پلانے والی‘‘ پر ضربِ قلم لگانے کو بھی من کرتا ہے۔

موضوع کا طریقہ انتخاب یہ بھی ہوتا کہ گتھی نہ سلجھنے پر سرپھرے رحیم کو سی ڈی اے اور پارلیمنٹ والوں کے خلاف چڑاتا، پھر یوں ہوتا کہ وہ لعن طعن اور لفظی شعلے بھڑکاتی ایک تقریر جھاڑ دیتے تھے تو موضوع ہی نہیں بلکہ ایک مکمل کالم ہی جنم لیتا جسے راقم صفحہ قرطاس پر اتار لیتا تھا۔

دوسری طرف عبید خان چونکہ ایک اداکار بننے کا خواب ہی سر میں لیے پھرتے اور پڑھنے لکھنے سے الرجک تھے، اس لئے میٹرک کی ٹیوشن لینے کے بہانے گھر سے رخصت ہوتے اور سیدھے جاکر ہمارے کمرے کی دیوار سے چپکے اس بڑے آئینے کے سامنے پوزیشن لیتے اور مختلف شوٹس کی پریکٹس کرتے رہتے۔ عبید خان نہ تو کبھی ہماری تحریر پڑھ کر حوصلہ بڑھاتے اور نہ ہی (فیس بک کے علاوہ) کسی پڑھنے والی چیز کی طرف منہ اٹھاکر دیکھتے، لیکن لکھنے کی ترکیبوں اور موضوع کے انتخاب پر ایسے مشورے عنایت فرماتے جیسے صحافت کی کتابوں میں ’’کالم نویسی‘‘ کا باب انہوں نے ہی شامل کیا ہو۔

ایک بار ہم فلیٹ سے نیچے سیڑھیوں سے اتررہے تھے کہ وہ جسمانی اداکاری کرتے ہوئے بے قابو ہوگئے اور ’’کلٹیاں‘‘ کھاتے ہوئے تہہ خانے میں چاروں شانے چت ہوگئے۔ جب ہم نے بھاگتے دوڑتے انہیں سہارا دے کر اٹھایا تو پاؤں رگڑتے ہوئے سیڑھی کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگے: ’’چھوڑنا نہیں، اس منحوس سیڑھی پر کالم لکھو!‘‘

خیر وہ تو عبید خان کی اداکاری والی ادب شناسی تھی، لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی چٹپٹے موضوع پر لکھا ہے؟

نہیں ناں!

تو پھر اب کیوں لکھوں؟

قارئین کرام! دلی معذرت کے ساتھ، راقم نہ تو ڈھنگ کا موضوع چن سکتا ہے اور نہ قاری کو ساتھ لے کے چلنے کا گُر جانتا ہے، لیکن چہ کنم! استاد محترم کا فرمان جو بجالانا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رائٹر موضوع کا محتاج نہیں ہوتا کہ دن بھر اخبارات ٹٹولے یا پوری رات ٹی وی پر آنکھیں چار کرکے گزارے کہ کوئی خاصا چٹپٹا حالات حاضرہ پر مبنی موضوع آجائے، بلکہ رائٹر کا کام تو سوچ کو آزادی بخشنا ہوتا ہے۔ اس لئے جو اس کا ذہن سوچتا ہے، اسی کو الفاظ کا جامہ پہناتا ہے۔

لیکن ایسا بھی ہر گز نہیں کہ استاد محترم کی ہر بات اس بھوسے بھری کھوپڑی میں سولہ آنے سمجھ آئے جس پر کاغذ سیاہ کیا جاسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان عمومی تجربات اور مشاہدات سے سیکھتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ایک رائٹر یعنی ’’لکھنے والے‘‘ کو لکھنے کا جنون ہونا چاہیے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم لکھنے سے پہلے سقراط و بقراط کا ذہن تلاش کرنے کی کوشش کریں اور پھر قلم آزمائیں۔

اپنی سوچ کی حد تک راقم سمجھتا ہے کہ لکھنے کےلیے صرف تین چیزیں ہی کافی ہیں۔

  • سوچ
  • سوچ کو قلم بند کرنے کا ذوق
  • پڑھ کر کچھ سیکھنے کی چاہ

باقی آپ جس ادارے کےلیے لکھتے ہیں وہاں ٹھیک ٹھاک ایڈیٹر صاحبان بیٹھے ہیں۔ آپ کی تحریر املا، گرامر اور اصولوں کی بنیاد پر اخبار یا ویب سائٹ کی زینت بن سکتی ہے یا نہیں؟ یہ فیصلہ آپ کو نہیں بلکہ ایڈیٹرز کو کرنا ہے۔ اور یہ ایک تحریر کو شائع ہونے کے قابل بنانے میں سب سے بڑی پریشانی ہوتی ہے جو انہی لفظی جادوگروں کو اٹھانا پڑتی ہے۔ اگر آپ سوچ رکھتے ہیں، سوچ کو قلم بند کرنے کا ذوق رکھتے ہیں اور پھر پڑھ کر کچھ سیکھنے کی چاہ رکھتے ہیں، تو بس ذوق پورا کرنے کی خاطر قلم اٹھائیے، پھر خود دو یا تین بار ضرور پڑھیے اور مزید نکھار بخشنے کی کوشش کیجیے۔

لکھتے ہوئے خود اعتمادی کا مظاہرہ کیجیے، اسی شوق کو آزماتے ہوئے آپ کی تحریر دم پکڑنے لگے گی۔ آپ کے قارئین پیدا ہوں گے۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ سیکھتے ہوئے آپ کو قارئین کی تعداد کی پریشانی بھی نہیں اٹھانی پڑتی۔

جیسا کہ راقم کے قارئین تین گلگتی اور ایک آپ ہی تو ہیں۔

ہے ناں مزے کا فن؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی

ایچ ایم کالامی،خیبر پختونخوا, سوات کوہستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی ہیں اور مختلف اخبارات کے لئے کالم لکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔