عوام تبدیلی کیوں چاہتے ہیں؟

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 8 دسمبر 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

قومی زندگی میں 70 سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، سیاستدانوں کو یہ شکایت رہتی ہے کہ ہمارے ملک میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا، اگر بار بار فوجی مداخلت نہ ہوتی تو ہمارا ملک ترقی کے آسمان پر پہنچ چکا ہوتا۔

بادی النظر میں سیاست دانوں کی یہ شکایت اصولی معلوم ہوتی ہے، لیکن ہمارے سیاستدان یقیناً اس حقیقت سے باخبر ہوں گے کہ ملک میں جب بھی فوجی حکومت قائم ہوئی سیاستدان اور سیاسی جماعتیں فوجی حکومتوں میں شامل رہیں اس حقیقت کے پیش نظر یہ عذر بے معنی ہو جاتا ہے کہ اگر فوجی مداخلت نہ ہوتی تو ملک کو ترقی کے آسمان پر پہنچا دیا جاتا۔

سال 1988ء میں ضیا الحق کے ہوائی حادثے میں انتقال کے بعد 2017ء تک مشرف کے دس سالہ دور کے علاوہ ملک پر سیاسی جماعتوں ہی کی حکمرانی رہی، اس سے قبل 1972ء سے 1977ء تک اور 1988ء سے 1999ء تک بھی ملک پر سیاسی جماعتوں کی ہی حکمرانی رہی۔ ان 29-28 سال میں ہمارے سیاستدانوں نے ملک کی ترقی کے حوالے سے کیا کارنامے انجام دیے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے عوام جس کا جواب چاہتے ہیں۔

اس حوالے سے ملک کی تمام جمہوری حکومتیں یہ دعویٰ کرتی رہی ہیں کہ انھوں نے ملک کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا۔ ترقی کوئی ایسی پراسرار چیز نہیں جو دکھائی نہ دیتی ہو۔ اس حوالے سے اس حقیقت کی نشان دہی ضروری ہے کہ ترقی کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں اضافہ ہوتا ہے، اگر اس حوالے سے ترقی کا جائزہ لیا جائے تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ عوام کے معیار زندگی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس کے برخلاف عوام کا معیار زندگی اور گھٹتا رہا۔

ان حوالوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فوجی حکومت جمہوری حکومتوں سے بہتر ہوتی ہے۔ جمہوری حکومتیں اگر سنجیدگی اور ایمانداری سے کام کرتی رہیں تو نہ صرف عوام کے معیار زندگی میں بہتری آ سکتی ہے بلکہ ملک مجموعی طور پر ترقی کی سمت میں پیش رفت کرتا رہتا ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کا یہ عجیب و غریب استدلال رہتا ہے کہ وہ زرمبادلہ میں اضافے کو ترقی کی نشانی بتاتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں کی تیزی ایکسپورٹ میں اضافے کو بھی ترقی کے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ ملک میں اگر پاور سیکٹر میں کوئی کام ہوتا ہے تو اسے بھی ترقی میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہمارا ملک عشروں سے بجلی گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ کا شکار ہے جب بھی بجلی کی پیداوار میں چار پانچ سو میگاواٹ کا اضافہ کیا جاتا ہے تو اس اضافے کو بھی ترقی میں شمار کیا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ عشروں سے جاری ہے خاص طور پر جمہوری دور میں لوڈشیڈنگ کی شدت میں بہت اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہماری موجودہ حکومت تیسری بار اقتدار میں آئی ہے ہماری پیپلز پارٹی کی حکومت چار بار برسر اقتدار رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر طویل دورانیے میں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ جیسے مسائل کو کیوں حل نہیں کیا گیا۔ ہمارے سیاستدانوں کا یہ عجیب طریقہ کار رہا ہے کہ وہ ہر خرابی کی ذمے داری ماضی کی حکومتوں پر ڈالتے رہتے ہیں اور ماضی یعنی جن پچھلی حکومتوں پر نااہلی کی ذمے داری ڈالی جاتی ہے، وہ بھی اتفاق یا حسن اتفاق سے جمہوری حکومتیں ہی رہتی ہیں۔ کیا اس طرز فکر کو مثبت اور جمہوری کہا جاسکتا ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب اشرافیہ کو دینا ہوگا۔

ترقی کے حوالے سے اس حقیقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر جمہوری ملک میں ترقی کا مطلب عوام کے معیار زندگی میں اضافہ مانا جاتا ہے، اس حوالے سے اگر عوام کی زندگی پر نظر ڈالیں تو یہ مایوس کن حقیقت سامنے آتی ہے کہ پاکستان کے 20 کروڑ عوام کے معیار زندگی میں اضافہ تو نہیں ہوا بلکہ اور کمی ہوئی ہے۔

آج سے 70 سال پہلے غریب طبقات کا گزارا دال روٹی پر ہوتا تھا، آج 70 سال بعد بھی غریب کے دسترخوان پر دال روٹی ہی نظر آتی ہے۔ آج سے 70 سال پہلے غریب طبقات جو کپڑا استعمال کرتے تھے آج بھی وہی کپڑا استعمال کر رہے ہیں، آج سے 70 سال پہلے انھیں جو رہائش نصیب تھی، آج بھی وہی رہائش ان کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ آج سے 70 سال پہلے غریب طبقات کے بچوں کو تعلیم کی سہولتیں حاصل نہیں تھیں آج بھی غریبوں کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، آج سے 70 سال پہلے غریب طبقات علاج کی سہولتوں سے جس طرح محروم تھے آج بھی وہ علاج کی سہولتوں سے اسی طرح محروم ہیں۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر وہ ترقی کہاں ہے جس کا ڈھنڈورا ہماری حکومتیں پیٹتی رہتی ہیں؟

ہماری سیاسی ایلیٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا پہلا اور آخری مسئلہ اقتدار ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اقتدارکے حوالے سے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے بعد دوسری سیاسی جماعتوں کے لیے جگہ خالی کردیتی ہیں اگر کسی حکومت کی کارکردگی غیر معمولی ہو تو عوام اسے دوسری بار منتخب کرتے ہیں دو بار سے زیادہ کسی سیاسی جماعت کو عوام اقتدار میں نہیں لاتے نہ ملک کا آئین انھیں دو بار سے زیادہ اقتدار میں رہنے کی اجازت دیتا ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں صورتحال یہ ہے کہ سیاستدان اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے آئین میں ترمیم تک کردیتے ہیں۔

جمہوریت کے حوالے سے ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ 70 سال سے ملک پر صرف چند سیاسی خاندان ہی برسر اقتدار ہیں۔ جمہوریت کا راگ الاپنے والے کیا اس بدنما حقیقت کا جواب دیں گے کہ پورے جمہوری دور میں صرف چند خاندان ہی کیوں برسر اقتدار رہے ہیں؟ دنیا کے کسی جمہوری ملک میں خاندانی سیاست خاندانی اقتدار کا سرے سے کوئی تصور نہیں۔ نہ سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کا قبضہ ہوتا ہے ہماری جمہوریت کی خوبی یہی ہے کہ وہ صرف خاندانوں کے حصار میں قید ہے۔

جمہوریت کا مطلب عوام کی حکمرانی لیا جاتا ہے پاکستان کے 20 کروڑ عوام میں بے شمار اہل ایماندار ملک و ملت سے محبت کرنے والے موجود ہیں لیکن 70 سال سے عوام کا اقتدار میں آنا تو دور کی بات ہے عوام کا کوئی حقیقی نمایندہ انتخابات کے ذریعے قانون ساز اداروں میں نہیں پہنچ سکا۔ کیونکہ ہماری اشرافیہ نے انتخابی نظام ہی ایسا بنایا ہے جس میں وہی حصہ لے سکتا ہے جو کروڑوں روپے انتخابی مہم پر خرچ کرسکتا ہو۔ نچلی سطح سے سیاسی قیادت کے اوپر آنے کا ایک ذریعہ بلدیاتی نظام ہے اور ہماری اشرافیہ نے اس پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔

یہ ہے ہماری جمہوریت جس میں جمہور کے آگے آنے، سیاست میں حصہ لینے، انتخابات میں حصہ لینے، قانون ساز اداروں میں پہنچنے کا ہر دروازہ بند کردیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام تبدیلی چاہتے ہیں اس 70 سالہ مافیائی نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں اگر عوام کی اس خواہش کو پورا نہ کیا گیا تو پھر عوام کا اعتماد جمہوریت سے اٹھ جائے گا اور یہ ایک خطرناک علامت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔