ایک نئی ایمان افروز کتاب

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 8 دسمبر 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کئی اخبارات میں شریف خاندان اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی تصاویر دیکھ کر دل بہت خوش ہے۔ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ عیدِ میلادالنبیؐ کے مبارک اور مسعود موقع پر نواز شریف اور شہباز شریف اپنے گھر میں سجائی گئی محفلِ میلاد شریف میں دست بستہ صلوٰۃ وسلام پڑھ رہے ہیں۔

دوسری تصویر میں میاں محمد نواز شریف صاحب خود ہاتھ میں بریانی کی پلیٹیں پکڑے میلاد شریف کی پاکیزہ محفل میں شریک احباب میںتبرک تقسیم کررہے ہیں۔ دیگر تصاویر میں بلاول بھٹو، خورشید شاہ، راجہ پرویزاشرف، سید یوسف رضا گیلانی ایسے معروف ومشہور پیپلز پارٹی کے قائدین نظر آرہے ہیں۔

سبھی میلاد النبیؐ کے سلسلے میں منور کی گئی پاک مجالس میں شریک ہیں۔یہ تصاویر ایمان افروز بھی ہیں اور اِس امر کا بیّن مظہر بھی کہ مملکتِ خداداد، پاکستان، ایک نظریاتی سرزمین ہے اور اس کی قیادت اپنے مذہب اسلام اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلّم سے بے پایاں پیار کرتی ہے۔یہ دلکش اور دل افروز مجالس، محافل اور جلوس دیکھ کر ہمیں اپنے زمانہ طالبعلمی کے وہ دن شدت سے یاد آنے لگے جب ہم عیدِ میلادالنبیؐ شریف منانے، گلیاں بازار سجانے اور جلوس نکالنے کے لیے شہر بھر کی دکانوں سے چندہ مانگنے نکلتے تھے۔ حضورؐ کے عشق میں دَر دَر مانگنا اچھا بھی لگتا تھا اور کوئی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ سرکار ؐ کے لیے مانگی گئی یہ بھیک ہمارا اثاثہ تھی۔

مبارک مہینہ، ربیع الاوّل شریف، جاری ہے۔ ہمارے پیارے دوست اور کتاب کے سچے عاشق پروفیسر سلیم منصور خالد صاحب نے یہ عیدِ میلادالنبیؐ ایک منفرد اسلوب میں منائی ہے۔ ایک روح افزا اور ایمان افروز کتاب مرتّب اور شایع کرکے۔ یہ کتاب محبتِ رسولؐ میں ، انشاء اللہ، ہمیشہ اضافوں کا باعث بنتی رہے گی۔اِس کا عنوان ہے :’’ ناموسِ رسالتؐ : اعلیٰ عدالتی فیصلہ۔‘‘بعض بدبختوں نے جعلی ناموں اور جعلی اکاؤنٹس کے ساتھ توہین آمیز پیغامات لکھنا اور نشر کرنا شروع کر دیے تھے۔ ہائیکورٹ کے جج عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے 31مارچ2017ء کو اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا۔یہ فیصلہ درست معنوں میں ایمانی غیرت، قانونی گرفت اور عملی وقار کی زندہ مثال ہے۔

کتاب کے مرتّب کنندہ صاحب نے بجا لکھا ہے کہ ’’جسٹس شوکت صدیقی صاحب کے اس فیصلے سے حُبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم کی خوشبو پھوٹتی ہے۔ ‘‘ اس فیصلے میں جسٹس صدیقی صاحب حقیقت بیان کرتے ہیں، انتظامیہ کو ہوشیار رہنے کہ ہدائت کرتے ہیں اور خود قانون ہاتھ میں نہ لینے کا درس دہراتے ہُوئے راست فکری اور جرأت کا کوہِ گراں دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب کے مرتّب کنندہ جناب سلیم منصور خالد کے لیے یقیناً یہ سعادت اور خوش بختی ہے کہ انھوں نے جسٹس شوکت صدیقی صاحب کے اس ایمان افروز فیصلے کو کتابی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے، لیکن ہم ایسے گنہگاروں اور سیاہ کاروں کے لیے بھی سعادت ہے کہ یہ عظیم الشان کتاب (ناموسِ رسالتؐ :اعلیٰ عدالتی فیصلہ) پڑھنے اور اس سے دل کو منور کرنے کا موقع میسر آیا ہے۔

یہ کتاب صرف عدالتی فیصلہ ہی نہیں ہے ، بلکہ اِس میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ مثال کے طور پر صفحہ 223پر سابق وزیر اعظم پاکستان جناب ذوالفقار علی بھٹو کی وہ تاریخی تقریر بھی شامل ہے جو انھوں نے 7ستمبر1974ء کو قومی اسمبلی کے فلور پر اُس وقت کی تھی جب قادیانی مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل کر تے ہُوئے قادیانیوں کو دائرئہ اسلام سے خارج کر دیا گیا تھا۔بھٹو صاحب کی یہ تقریر 12صفحات پر مشتمل ہے۔انھوں نے تقریر انگریزی زبان میں کی تھی، اس لیے کتاب میں اصل انگریزی خطاب بھی شامل ہے۔ نوے سال سے لٹکا مسئلہ حل کر لیا گیا تھا۔

اللہ نے یہ اعزاز بھٹو صاحب کو بخشا جنہوں نے ملک کے ممتاز ترین علمائے کرام کے مشوروںاور ارکانِ قومی اسمبلی کے اکثریتی اتفاق سے تا قیامت یہ کامیابی اپنے دامن میں سمیٹ لی۔ شہید بھٹو نے اپنی تقریر میں متاثرہ فریق سے مخاطب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ’’ آج یہ لوگ غالباً ناخوش ہی ہوں گے۔انھیں یہ فیصلہ پسند نہیں ہوگا اور اس فیصلے پر وہ رنجیدہ ہوں گے۔لیکن حقیقت پسندی سے کام لیتے ہُوئے اور ذاتی طور پر ان لوگوں سے یہ کہوں گا کہ ان کو بھی اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ اس فیصلے سے یہ مسئلہ حل ہُوا اور اُن کو آئینی حقوق کی ضمانت حاصل ہو گئی۔‘‘(صفحہ 234) یوں دیکھا جائے تو اِس کتاب کی اہمیت اور قدر مزید بڑھ جاتی ہے۔

تقریباً 350 صفحات پر مشتمل یہ خوبصورت کتاب (ناموسِ رسالتؐ : اعلی عدالتی فیصلہ)اپنے اندر بے پناہ معنی سموئے ہُوئے ہے۔فیصلے میں شامل تمام حوالہ جات نہائت دلکشا ہیں۔ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ تازہ ترین ماحول میں اِس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ اِس میں جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ایمان کو تازگیاں بخشنے والا فیصلہ 172صفحات پر مشتمل ہے ۔ بس اتنا ہی نہیں ، بلکہ پاکستان کے نامور قانون دانوں ، ججوں اور مشہور علمائے کرام کے وہ خراج ہائے تحسین بھی شامل ہیں جو انھوں نے اِس  دل افروز فیصلے کے حق میں بھی دیے ہیں اور جسٹس شوکت صدیقی صاحب کو بھی سیلوٹ پیش کیا ہے۔ مثال کے طور پر مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کا کہنا ہے :’’مَیں نے ناموسِ رسالت ؐ کے موضوع پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے مفصل فیصلے سے استفادہ کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس فاضلانہ تحریر میں ناموسِ رسالتؐ کے تحفظ کی شرعی ،آئینی اور قانونی حیثیت پر نہائیت سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔

مَیں عدالت ِ عالیہ کے فاضل جج صاحب کو اس فاضلانہ، مومنانہ اور فکر انگیز فیصلے پر تہِ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہُوں۔‘‘جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان صاحب نے اس فیصلے کو ’’تاریخی فیصلہ‘‘ اور زیر نظر کتاب کو ’’منفرد کتاب‘‘ قرار دیا ہے۔ہمارے ہاں بعض افراد یہ کٹ حجتی کرتے سنائی دیتے ہیں کہ’’دکھایا جائے کہاں لکھا ہے پاکستان کلمہ شریف کی بنیاد پر بنا تھا؟۔‘‘زیر نظر کتاب میں اس سوال کا جواب بھی شامل کر دیا گیا ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ پاکستانی سینیٹ نے 10مارچ2017ء کو قرار داد نمبر317متفقہ طور پر منظور کی جس میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان دنیا کا واحدملک ہے جو لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ کی بنیاد پر قائم ہُوا۔‘‘(صفحہ75)اور یہ حوالہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے شاندار فیصلے میں بھی شامل کیا ہے۔ روئتِ ہلال کمیٹی کے سربراہ اور ممتاز عالمِ دین محترم مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب نے بھی اِس فیصلے اور فیصلہ ساز کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے ۔

علامہ سید ساجد نقوی صاحب نے کہا ہے کہ’’یقیناً یہ فیصلہ تمام عالمِ اسلام کی امنگوں اور اسلامی اصولوں کے مطابق صادر فرمایا گیا ہے، جو لائقِ تحسین ہے۔ فاضل جج صاحب نے قرآن کریم کی آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ نبویؐ کے حوالہ جات سے خاتم النبیین رسول اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ اقدس سے ایک بندہ مومن سے تعلق کو اجاگر کیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ ‘‘( صفحہ243)کتاب کے ہر باب کو بنانے ، سنوارنے کے لیے دلکش نعتیہ اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے جو مرتّب کنندہ کے سُتھرے ذوق کی علامت ہے اور حضورؐ سے محبت کا اظہار بھی۔ ڈیڑھ درجن اہلِ قلم کی متعلقہ تحریریں بھی شامل ہیں۔ناموسِ رسالت ؐ کے موضوع پر لکھی گئی 73کتابوں کے نام اور اُن کے پبلشرز ، ملنے کے پتے بھی شاملِ کتاب ہیں۔محققین کے لیے یہ ایک بڑی خدمت ہے۔ کتاب کو ’’منشورات‘‘ نے شایع کیا ہے اور قیمت 480روپے ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔