اردو کے غیر مسلم افسانہ نگار اور شاعر

سہیل احمد صدیقی  اتوار 10 دسمبر 2017
امید ہے کہ انصاف پسند طبقہ اردو کا ساتھ دے گا۔
 فوٹو : فائل

امید ہے کہ انصاف پسند طبقہ اردو کا ساتھ دے گا۔ فوٹو : فائل

 ؎ ادھر تکرار اُلفت کی، اُدھر جھگڑا وفاؤں کا
جو رنجش پڑگئی باہم، بڑی مشکل سے نکلے گی

یہ مشہورشعر ہے بشیشرناتھ صوفی[Bashesharnath Sufi]ؔ کا، جو تقسیم برصغیر سے قبل اپنے وقت کے ممتاز شاعر تھے۔ (بحوالہ ’اصلاح سخن ، لاہور۔ سن انیس سو دس)۔ خاکسار نے یہ شعر اپنی کتاب ’اردو کے مشہور اشعار۔ ایک جائزہ‘ : تحقیق (سن اشاعت : سن دوہزار ایک) میں شامل کیا ، مگر ’’حرف چیں‘‘ [Composer]نے اُن کا نام غلط کردیا۔ چھَے مرتبہ کی تغلیط و تصحیح کے بعد کتاب شایع ہوئی تو معلوم ہوا کہ اُس نے بشیشر کی بجائے، شبیر ناتھ لکھ دیا ہے۔ اب دو سو اعزازی نسخوں پر ہاتھ سے لکھ کر تصحیح کرنی پڑی۔

یہ شعر اور اس سے جُڑا معاملہ یوں ذہن میں تازہ ہوا کہ شاعر موصوف غیرمسلم تھے اور گزشتہ دنوں ہندوستان میں مقیم، میرے بزرگ کرم فرما دیپک بُدکی صاحب نے ازراہ عنایت اپنی دو تازہ کتب ارسال فرمائی ہیں اور اس ہیچ مدآں کو اس لائق جانا ہے کہ ان کتب کے متعلق خامہ فرسائی بھی کرے۔ ان دو کتابوں میں اُن کے افسانوں کا نیا (اور ساتواں) مجموعہ ’میں اَب وہاں نہیں رہتا‘ اور ایک نہایت اہم، تحقیق پر مبنی کتاب ’’اردو کے غیرمسلم افسانہ نگار‘‘ ہے۔ ممتاز افسانہ نگار و نقاد جناب دیپک بُدکی کی اس کتاب میں ڈھائی سو سے زائد غیرمسلم افسانہ نگاروں کے کوائف شامل ہیں، جبکہ سرسری نظر سے دیکھیں تو یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس تعداد میں اکثریت ہندو حضرات کی ہے۔

اردو کے افسانوی ادب میں پریم چند، کرشن چندر اور راجندرسنگھ بیدی کے اسماء کسی عمارت کے ستون کی طرح مستحکم ہیں اور بقول کسے،’’انھیں نکال دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے‘‘۔ (ضمنی با ت یہ ہے کہ کرشن چندرکی بیگم سلمیٰ صدیقی بنت پروفیسر ڈاکٹر رشید احمدصدیقی کے بقول، کرشن چندر مسلمان ہوگئے تھے اور نکاح نامے میں اپنا نام بھی تبدیل کرکے غازی مَلِک لکھوادیا تھا، مگر عملاً ہندو ہی رہے اور سماجی شہرت بھی کرشن چندر کے نام ہی سے برقرار رہی)۔

اہم سوال یہ ہے کہ اردو ادب کی خدمت کے حوالے سے بات کی جائے تو مذہبی بنیاد پر تخصیص یا تقسیم کیوں کی جائے یا ایسا کرنا کسی محقق کے لیے کیوں ناگزیر ہے؟….. اس کا جواب جناب نندکِشوروِکرَم کی اس تحریر سے مل سکتا ہے جو زیرنظر کتاب میں شامل ہے:’’……..اس سلسلے میں دیپک بُدکی صاحب نے کئی برسوں کی تحقیق کے بعد زیرِنظر کتاب ’اردو کے غیرمسلم افسانہ نگار‘ پیش کی ہے ۔

حالانکہ اس اکیسویں صدی میں ’مسلم‘ اور ’غیرمسلم‘ افسانہ نگاروں کی تخصیص کچھ عجیب سی لگتی ہے …….بہرحال کتاب کا موضوع اور نام کا انتخاب ، مصنف ومرتب کا کام ہے ، ہم اعتراض کرنے والے کون؟….میرے خیال میں بُدکی صاحب نے یہ تخصیص اس لیے کی ہوگی کہ اگر وہ اردو کے تمام افسانہ نویسوں کو اس میں شامل کریں گے تو اس تحقیق میں مزید برسوں لگ جائیں گے اور کام پھر بھی مکمل نہ ہوپائے گا۔

دوسرے اُن کے ذہن میں یہ بات بھی ہوگی کہ آیندہ دس بیس برسوں میں اردو میں غیرمسلم افسانہ نگار ناپید ہوجائیں گے اور شاید اُن پر کوئی تحقیق کرنے والا بھی نہ ہو۔ جہاں تک میرا خیال ہے ، ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں غیرمسلم لکھنے والے ’نا‘ کے برابر رہ جائیں، مگر گزشتہ ایک سو سال کے عرصے میں کی گئی اُن کی کاوشوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا اور اُن پر تحقیق ہوتی رہے گی‘‘۔ خاکسار کی رائے میں موصوف نے انتہائی قنوطیت کا مظاہرہ فرمایا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اِنگریز سے آزادی کے بعد، انگریز ہی کے شروع کئے ہوئے ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے للولال جی کی ’’پریم ساگر‘‘ کا مشن آگے بڑھاتے ہوئے اردو کو محدود اور مسدود کرنے کی شعوری مساعی سرکاری سرپرستی میں جاری رکھی گئیں (اور ہندوستان کے معروف ، بزرگ صحافی محترم رشید انصاری سمیت بعض اہل درد کے نزدیک، ابوالکلام آزادؔ جیسے مسلمانوں کے اقتدار میں ہوتے ہوئے اردودشمنی کا یہ سلسلہ جاری رہا)، اس کے باوجود ، اردو سے تعلق جوڑنے والوں میں کسی نہ کسی طر ح اضافہ ہوتا رہا ہے، تو کچھ بعید نہیں کہ ناامیدی کے یہ بادل چھٹ جائیں اور بات مایوسی تک نہ پہنچے۔

اس راقم کو تو زیرنظر کتاب سے معلوم ہوا کہ اردو کے غیرمسلم، خصوصاً ہندوافسانہ نگار اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں یا موجود رہے، مگر طبقہ شعراء میں یہ چلن کہیں زیادہ عام ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ’’ہرفرعونے را موسیٰ(علیہ السلام)‘‘ کے مصداق ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہونے والی اور ہندی پر عبور کی حامل اردو شاعرہ لتا حیا ؔ نے کس طرح اردو کا بھرپور دفاع کیا ہے اور اس ضمن میں آنند نرائن مُلّا جیسے اہل ذوق کی یاد تازہ کردی ہے، جو کہا کرتے تھے:

مُلّا بنادیا ہے اسے بھی مُحاذ جنگ
اِک صلح کا پیام تھی اردو زباں کبھی

یہاں ضمنی طور پر سابق مُنصف، محترم الیاس احمد ، مرتب ’’گل ہائے پریشاں‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے یہ عبارت اہل دل کے ذوق مطالعہ کے لیے نقل کررہا ہوں:’’اس برے وقت میں بھی اردو کی محبوبیت میں چنداں فرق نہیں، کم از کم اہل نظر یہی سمجھے ہیں ؎

کسے کہ محرم بادصباست می داند+کہ باوجود ِ خزاں، بوئے یاسمن باقیست۔ امید ہے کہ انصاف پسند طبقہ اردو کا ساتھ دے گا اور اُن خطروں میں بھی کمی ہوجائے گی جن سے اردو محصورہے‘‘۔

آمدم برسرمطلب! ہم بات کررہے تھے جناب دیپک بُدکی کی جو ہندوستان کے مقبوضہ کشمیر میں پندرہ فروری سن انیس سو پچاس کو پیدا ہوئے اور سن انیس سونوے سے نامساعد حالات کے سبب ، غازی آباد کے علاقے وسندھرا میں مقیم ہیں۔

افسانہ نگاری، تبصرہ وتنقید اور تحقیق میں شہرت یافتہ ، بُدکی صاحب علم نباتات میں ماسٹرز کی سند کے علاوہ کئی اعلیٰ اسناد کے حامل ہیں جن میں علی گڑھ سے ادیب ماہر کی سند اور فوجی تربیت گاہ سے گریجویشن بھی شامل ہے۔ وہ چار زبانوں اردو، انگریزی ، ہندی اور کشمیری پر دسترس کے ساتھ ساتھ ان میں شایع ہونے والی نگارشات اور متعدد کتب کے خالق کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے تدریس، انشورنس، ڈاک اور فوج سمیت مختلف و متنوع شعبہ جات میں خدمات انجام دی ہیں اور اب کُل وقتی ادیب ہیں۔

دیپک بُدکی کی کتاب ’اردو کے غیرمسلم افسانہ نگار‘ کی بنیاد یوں پڑی کہ اُنھوں نے سہ ماہی ’فکروتحقیق‘ کے ’افسانہ نمبر‘ بابت اکتوبر تا دسمبر سن دوہزار تیرہ کے لیے مواد بالتحقیق جمع کرکے مدوِن کیا تو بوجوہ اسے مختصر کرنا پڑا، پھر موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسے وسیع کرتے ہوئے ایک مفصل مقالہ تحریر کرکے اسے کتابی شکل دی۔ انھوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسی موضوع کے بعض محدودگوشوں پر کتاب تحریر کرنے والوں کا بھی ذکر کیا ہے اور انھیں اپنا پیش رَو مانا ہے، حالانکہ اس موضوع پر یہ اولین مکمل کتاب ہے جسے ایک مدت تک بجائے خود ، سند کا درجہ حاصل رہے گا تاوقتیکہ کوئی اس موضوع سے انصاف کرے اور اُن پہلوؤں سے بھی بخوبی آشنا ہو جو بوجوہ ادیبِ موصوف سے نظرانداز ہوگئے۔

تحقیق اور رَدِتحقیق کا سلسلہ اسی طرح چلتا ہے کہ جب اردو تنقید کا دامن کورا تھا تو محمدحسین آزادؔ کی ’آب حیات‘ اور موضوع کے فرق سے قطع نظر ’’محاسن کلام غالب‘‘ ازعبدالرحمن بِجنوری سند کا درجہ رکھتے تھے ، پھر وسعت ہوتی گئی اور ’’لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘‘، ہاں یہ ضرور ہے کہ ان دونوں کتب کے مواد کی وقعت اور مصنفین کی فکری اُپچ بہرحال اپنی جگہ ناقابل فراموش ہیں۔ ’’اردوکے غیرمسلم افسانہ نگار‘‘ کے شروع میں ’اردو کے غیرمسلم افسانہ نگار۔

ایک تعارف‘ کے عنوان سے اردو ادب، صحافت اور ادبی صحافت میں کلیدی کردار ادا کرنے والے بعض غیرمسلم خصوصاً ہندو اہل ذوق کا محض اشارۃً ذکرکیا ہے اور ایک بات بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ بقول محمدحافظ سعید، مصنف اردو لٹریچر کے ہندو رائٹرز، ہندوؤں میں دوفرقوں (برادریوں یا ذاتوں) نے اردومیں کمال حاصل کرلیا، ایک کشمیری برہمن تھے اور دوسرے کائستھ۔ یاد رکھئے کہ خود بُدکی صاحب کشمیری ہیں اور اردو کے ساتھ ساتھ کشمیری اور انگریزی ادب سے بھی بحسن وخوبی انصاف کرتے ہیں، جبکہ ایک ضمنی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں کائستھ فارسی اور علم ریاضی میں مہارت کے سبب مشہور تھے۔

میرے والد صاحب نے بھی اپنے اسکول، نورمحمدہائی اسکول، حیدرآباد (سندھ) کے ایک ایسے ہی قابل استاد کا ذکر کیا ہے جو سائنس اور ریاضی کے ماہر تھے ۔ (میرے والد محترم رفیع احمد صدیقی صاحب کو اُن کی لیاقت کے سبب، میٹرک کے امتحان میں امتیازی نشانات حاصل کرنے کے فوری بعد، بطور مدرس ملازم رکھ لیا گیا۔ بعد میں انھوں نے بی کام تک تعلیم نیز انگریزی ، ریاضی، ڈرائنگ اور اسکاؤٹس کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ استاد کی حیثیت سے سندھ کی اس درس گاہ کی خدمت کی، بعدازآں، گورنمنٹ سیکنڈری اسکول ، جیل روڈ۔ کراچی اور میری کلاکو اسکول۔ کراچی سے بھی منسلک رہے اور پھر سندھ ایمپلائیز سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن سے ایک طویل مدت وابستہ رہ کر سبک دوش ہوئے)۔

اسی مضمون میں ادیب موصوف نے برملا اس حقیقت کا اظہار کیا ہے کہ اردو افسانہ نگاروں کے قافلے کے پیش رَو، پنڈِت رتن ناتھ سرشارؔ اور منشی جوالا پرشاد برقؔ تھے۔ اول الذکر، لکھنؤ میں مقیم کشمیری پنڈت تھے جنھوں نے ’فسانہ آزاد‘ لکھ کر ناول اور افسانے دونوں کی راہ ہموار کی۔ بقول بُدکی صاحب، اردو کے عظیم افسانہ نگار پریم چند نے ’فسانہ آزاد‘ کی تلخیص ’’آزادکتھا‘ کے نام سے چھاپی تھی۔ پنڈ ت صاحب شاعر بھی تھے اور اسیرؔلکھنوی جیسے معروف سخن وَر کے شاگرد تھے، مگر اُن کا بطور شاعر مشہور ہونا مقدر میں نہ تھا۔ لکھنؤ کے مشہور اخبار، ’اَوَدھ اخبار‘ کے یہ فاضل مدیر عربی وفارسی پر گرفت کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم سے بہرہ مند اور اپنی عملی زندگی کی ابتداء میں مُعَلِم تھے۔

ناول نگار منشی جوالا پرشاد برق ؔبھی اردو کے اولین اور کامیاب ادبی مترجمین میں شامل تھے ، مگر اُنھیں شاعری سے وہ مقام نہیں ملا جو اُن کے معاصرین کو حاصل ہوا۔ ہندوستان کے زیر قبضہ وادی جموں و کشمیر میں اردو ادب و صحافت کی بیش بہا خدمات انجام دی گئیں ۔ اس ضمن میں سرفہرست نام ’کشمیر کے پریم چند‘ ، پریم ناتھ پردیسیؔ کا ہے جنھیں بقول بُدکی صاحب اس خطے میں افسانے کا بانی قرار دیا جاسکتا ہے اور پھر ان کے مقلدین میں پریم ناتھ در، پشکر ناتھ، ویریندرپٹواری ، دیپک کنول، دیپک بدکی اور آنندلہر نے عالمی سطح پر نام کمایا۔

دیپک بدکی کی کتاب ’اردو کے غیرمسلم افسانہ نگار‘ میں شامل اہل قلم کی فہرست میں صرف چند نام ملاحظہ فرمائیں: پریم چند، پنڈت میلا رام وفاؔ، کنھیا لال کپور (نامورطنزو مزاح نگار، شاگرد ِ پطرس بخاری)، شِو برت لال وَرمن، بدری ناتھ سُدَرشن، گوپال مِتّل، دیویندر ستیارتھی، اوپندرناتھ اشکؔ، کرشن چندر، برج موہن دتاتریہ کیفیؔ، راجندرسنگھ بیدی، جمناداس اخترؔ، رام لعل، نریش کمار شاد ؔ(نامور قطعہ نگار شاعر)، گردیال سنگھ عارفؔ، بھگوان داس اعجازؔ (نامور دوہا نگار شاعر جنھوں نے خاکسار کے جریدے ہائیکو انٹرنیشنل کے لیے ازخود ہائیکو نگاری کا آغاز کیا اور ایک عرصے تک اپنے کلام سے نوازتے رہے)، ہمت رائے شرما، ارنسٹ ڈی ڈین، سیموئل وِکٹر بھنجن، بلراج کومل، ستیہ پال آنند (بطور شاعر بھی معروف)، دلیپ سنگھ ، کشمیری لال ذاکرؔ، پرکاش پنڈت (جن کی مرتبہ کئی کتب ہمارے یہاں عا م دستیاب ہیں)، شانتی رنجن بھٹاچاریہ، نریندرلوتھر،اندراشبنم اِندو ؔ(چوبیس نومبر سن انیس سو پچاس کو کراچی ، پاکستان میں متولد، اردو، ہندی اور مراٹھی کی ممتاز شاعرہ۔ خاکسار کے فیس بک حلقے میں شامل)، آنند لہرؔ، آشا پربھات، بلراج مین را، ڈاکٹر کیول دھیر، طالبؔ کاشمیری اور بہاری لال بہارؔشملوی ۔ حصہ نظم بھی غیرمسلم شعراء کی ایک کثیر تعداد سے مملُو نظر آتا ہے ، یہ اور بات کہ معروف اہل سخن یا اساتذہ کی فہرست میں معدودے چند شا مل ہیں جیسے راجہ رام نرائن موزوںؔ جن کا سراج الدولہ کی انگریزوں کے ہاتھوں شکست اور پھر غدار میرجعفر کے بیٹے کے ہاتھوں قتل کے پس منظر میں کہا گیا مشہور زمانہ شعرضرب المَثَل بن چکا ہے:

غزالاں تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دِوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

پھر نگاہ دوڑائیں تو یہ نام سامنے آتے ہیں: میرزا ہرگوپال تُفتہؔ (شاگرد میرزا غالبؔ)، دَیا شنکر نسیم (مثنوی گلزار ارم) اور مادھورام جوہرؔ فرخ آبادی، جن کے یہ اشعار بہت مشہور ہیں:

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا
تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

………. ……….

اب عطر بھی مَلو تو تکلف کی بُو کہاں
وہ دن ہَوا ہوئے کہ پسینہ گلاب تھا

………. ……….

نالہ بلبل شیدا تو سنا ہنس ہنس کر
اب جگر تھام کے بیٹھو مِری باری آئی

(اردوکے ضرب المثل اشعار۔ تحقیق کی روشنی میں از محمد شمس الحق)

مزید: درگاسہائے سُرورجہاں آبادی، برج نرائن چکبستؔ، منشی جوالا پرشاد برقؔ ، برج موہن دتاتریہ کیفیؔ، تلوک چند محرومؔ، رگھوپتی سہائے فراقؔ گورکھ پوری، پنڈت ہری چند اخترؔ، عرشؔ ملسیانی، جوشؔ ملسیانی، جگن ناتھ آزادؔ، آنندنرائن مُلّا، کُنورمُہندرسنگھ بیدی سحرؔؔ، ہمت رائے شرماؔ۔ بانی اردوماہیا، نیز افسانہ نگار، بھگوان داس اعجازؔ اور بہت سے دیگر۔ اردو کے غیرمسلم شعراء کے سوانح اور کلام کا انتخاب مختلف کتب میں شامل اشاعت ہوا۔ میرے بزرگ معاصر محترم طاہر سلطانی کی منفرد کتاب ’اذان ِ دیر‘ سن انیس سو ستانوے میں منصہ شہود پر آئی جس میں اننچاس غیرمسلم شعراء کا حمدیہ کلام مع کوائف پیش کیا گیا، پھر اُنھی کی دوسری کتاب ’گلشن حمد‘ میں سَتّر غیرمسلم شعراء کا کلام شامل ہے جو سن دو ہزار پانچ میں شایع ہوئی۔ طاہر بھائی کی بھرپور مدد اور حوصلہ افزائی سے نوراحمدمیرٹھی کا کام بھی پایہ تکمیل کو پہنچا۔ (راقم کے غیرمطبوعہ مضمون ’امرعظیم کا سرسری جائزہ‘ سے اقتباس)۔ اب محض امتثال امر اور قارئین کرام کے شوق کے پیش نظر ’اسباق ‘ (پونہ، ہندوستان) میں شامل ، نیز تلامذہ شادؔ عظیم آبادی از سید نعمت اللہ ودیگر کتب میں منقول، حمدونعت و منقبت گو غیرمسلم شعراء کے اسماء نقل کرتا ہوں (اس شمارے کا ماہ وسال اشاعت میرے پاس محفوظ نہیں):۱۔ قمرؔجلال آبادی (اصل نام غیرمذکور)۔۱۹۱۷ء تا ۲۰۰۳ء (بمبئی)۔۲۔آزادؔ گلاٹی۔۳۔ڈاکٹر وِدّیا ساگر آنندؔ۔۴۔آزادؔ عظیم آبادی، بھِوانی پرشاد (تلمیذ شادؔ عظیم آبادی)۔۱۸۷۵ء تا ۱۹۳۵ء۔۵۔عاجزؔگیاوی، منشی میوالال (تلمیذشادؔعظیم آبادی): ۱۸۸۷ء۔ دورعروج۔ صوفی مشرب۔ مجموعہ ہائے کلام : ’کلید گنجینہ توحید‘ (۱۹۲۷ء) اور ’سِرّ توحید‘ (۱۹۳۰ء)…  ۶۔عارفؔ عظیم آبادی، شیو نرائن چودھری (تلمیذ شادؔ عظیم آبادی): ۱۸۸۰ء تا (اندازاً) ۱۹۶۰ء۔۷۔عطاؔ عظیم آبادی، رائے اسیری پرشاد (تلمیذ شادؔ عظیم آبادی): ۱۸۵۵ء تا ۱۹۲۵ء۔ صوفی مشرب۔۸۔مَست ؔ گیاوی، بابو نندکشورلال (تلمیذ شادؔ عظیم آبادی): ۱۸۵۰ء (اندازاً) تا ۱۹۰۵ء (بحوالہ تلامذہ شادؔ عظیم آبادی از سید نعمت اللہ ۔ مطبوعہ جون ۲۰۰۴ء)۔۹۔رائے سنگھ عاقل (سوداؔ کے دوست): سنین غیر مذکور۔تعلق : پنجاب(بحوالہ پنجاب کے قدیم اردو شعراء از خورشید احمد خان یوسفی۔مطبوعہ ۱۹۹۲ء)۱۰۔شورؔ، جارج پیش: پ۔۱۸۲۳ء بمقام کوئل ، علی گڑھ ۔ سن وفات غیرمذکور۔ فرینچ نژاد عیسائی ، اسلامی طرز معاشرت کا دل دادہ۔۱۱۔ موزوںؔ ، مہاراجہ رام نرائن: نواب سراج الدولہ کے مصاحب۔۱۲۔کنورؔ، راجہ اپوربوکرشنابہادر: ۱۸۰۷ء تا ۱۸۶۸ء۔۱۳۔دیبؔ، دیناناتھ: اواخر انیسویں صدی کے ماہر اردو ، فارسی ، سنسکرت و انگریزی۔ }کلکتے کی ادبی داستانیں از ڈاکٹر وفاؔ راشدی۔مطبوعہ ۱۹۹۹ء{۔ (راقم کے غیرمطبوعہ مضمون ’امرعظیم کا سرسری جائزہ‘ سے اقتباس)۔ میرے خیال میں اگر دیپک بُدکی صاحب کو بھرپور مدد فراہم کی جائے جو اُن کے نجی مسائل سے نبردآزما ہوتے ہوئے تحقیق و تصنیف میں معاون ثابت ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اردو کے غیرمسلم شعراء کے موضوع پر ایک اہم کتاب کا اضافہ نہ کرسکے۔n

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔